تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     07-10-2016

قومی اتحاد کا بے مثال مظاہرہ

سوموار تین اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس ہر لحاظ سے قومی اتحاد کا ایک بے مثال مظاہرہ تھا۔ وزیراعظم جناب محمد نواز شریف نے کشمیر کی موجودہ صورتِ حال لائن آف کنٹرول پر بھارت کی طرف سے اشتعال انگیزیوں اور عالمی برادری کی طرف پاکستان پر دباؤ کے پیشِ نظر، اُن تمام پارٹیوں کا، جنہیں پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے، ایک خصوصی اجلاس بلایا تھا۔ اس اجلاس کے بارے میں سب سے پہلی اور خوش آئند جو بات کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ اِن تمام پارٹیوں نے وزیراعظم کی دعوت کو قبول کیا۔ اور اِن میں سے ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی تمام پارٹیوں کے سربراہان نے بہ نفسِ نفیس شرکت کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جو اگرچہ خود قومی اسمبلی کے رُکن نہیں ہیں، نہ صرف خود شریک ہوئے بلکہ اُن کا وفد اجلاس میں شریک تمام پارٹیوں کے وفُود سے بڑا تھا۔ اُن کے ساتھ پارٹی کے سینئر رہنما اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ، سینیٹ میں قائدِ حزب اختلاف اور پارٹی کے ممتاز رہنما، اعتزاز احسن، سابق وزیرِ اطلاعات اور پارٹی کے موجودہ سیکرٹری اطلاعات، قمر زمان کائرہ، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، سینیٹر فرحت اللہ بابر اور ایم۔این۔اے شیری رحمان اور سابق وفاقی وزیر نوید قمر بھی اِس اہم اجلاس میں شریک ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کے علاوہ جن دیگر پارٹیوں کے سربراہان نے اجلاس میں شرکت کی، اُن میں جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق، ایم کیو ایم کے کنوینر فاروق ستار، جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل مولانا فضل الرحمن، پختون خواہ مِلی عوامی پارٹی کے صدر محمود خاں اچکزئی، پاکستان مُسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ، صدر الدین راشدی، نیشنلسٹ پیپلز پارٹی کے چیف مرتضیٰ جتوئی، نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو شامل تھے۔ پاکستان مُسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین خود شرکت نہ کر سکے، لیکن انہوں 
نے اپنی نمائندگی کیلئے پارٹی کے سینئر رہنما کامل علی آغا کو اجلاس میں شرکت کیلئے بھیجا۔ اِسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفندیار ولی خاں کی جگہ پارٹی کے سینئر رہنما غلام احمد بلور نے شرکت کی۔ بہت سے لوگوں کو اُمید تھی کہ اجلاس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان بھی شرکت کریں گے۔ لیکن اُنہوں نے مُلک کی تاریخ کے اِس نازک موڑ پر منعقدہ ایک نہایت اہم اجلاس میں شرکت پر نتھیا گلی میں اپنے دوستوں کے ساتھ دو دن گزارنے کو ترجیح دی۔ اور پارٹی کی نمایندگی کرنے کیلئے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو مامُور کیا۔ 
اِس اجلاس میں ہونے والی بحث اور اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بعض پالیسی ایشوز پر اختلافات کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر متحد ہیں اور حکومت کے ساتھ ہیں۔ ٹھیک یہی وہ پیغام ہے جو اِس وقت نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کو پہنچانا چاہئے۔ تا کہ کشمیریوں کی جائز، منصفانہ اور پُر امن جدوجہد کو تقویت ملے۔ اس اجلاس میں پارلیمانی پارٹیوں نے بغیر کسی تحفظات کے شرکت کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ پاکستانی عوام کی سوچ اور جذبات کی صحیح ترجمانی کرتی ہیں۔ اور اس کے تحت اجلاس میں طے کیا گیا کہ پاکستان کے عوام اور حکومت کی جانب سے کشمیریوں کی جدوجہد کی کھُل کر اور مکمل طور پر حمایت کی جائے گی اور اِس سلسلے میں بھارت کی طرف سے کسی قسم کی گیدڑ بھبکیوں کی پروا نہیں کی جائے گی۔ مشترکہ اعلامیہ میں اس اجلاس کے جن فیصلوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ سب کے سب اہم ہیں۔ مگر اُن میں سے بعض بڑے دور رس مضمرات کے حامل ہیں۔ مثلاً اجلاس کے شرکا نے بھارت پر یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر سندھ طاس آبی 
معاہدے کو یک طرفہ طور پر منسوخ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس اقدام کو پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ پاکستان کے اس موقف سے نہ صرف بھارت کو ایسے اقدام سے پہلے دوبار سوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ بلکہ عالمی برادری کو بھی بھارت کے جارحانہ رویہ کا جائزہ لینا پڑے گا۔ اعلامیہ میں گذشتہ تقریباً تین ماہ سے جاری کشمیر کی موجودہ بحرانی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے بھارتی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 110 افراد کی شہادت اور چھرے دار بندوقوں کی مدد سے 700 کے قریب افراد کی بینائی ختم کرنے کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اِس اعلامیہ کے ذریعے دنیا کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم سے آگاہ ہو گی۔ اور ایسا کرنا اِس لئے اشد ضروری ہے تا کہ بھارت دنیا کو گمراہ کر کے پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام عائد کرکے عالمی رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف نہ کر سکے۔ بھارت کو معلوم ہے کہ اِس وقت دنیا کیلئے سب سے زیادہ تشویش ناک مسئلہ دہشت گردی ہے۔ ہر ملک اسے اپنے ہاں امن، تحفظ اور ترقی کیلئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ اِس خطرے کے پیشِ نظر جو کہ دنیا کا ایک مشترکہ خطرہ بن چکا ہے، عالمی برادری کسی بھی سیاسی مقصد کیلئے تشدد کو جائز قرار نہیں دیتی۔ بھارت کی کوشش یہ ہے کہ کشمیری مجاہدین کو دنیا کے سامنے دہشت گرد بنا کر پیش کیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ اِس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ حالانکہ کشمیریوں کی جدوجہد، کشمیریوں کی اپنی جدوجہد ہے اور اِس کا آغاز اُس وقت ہی ہو گیا تھا، جب 1948ء میں بھارت نے کشمیریوں کی مرضی کے خلاف بزور طاقت قبضہ کیا تھا۔ کشمیریوں نے تو صرف اس غاصبانہ قبضے کو چیلنج کیا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں بھارت کی طرف سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی آئے دن خلاف ورزیوں کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی اور بھارت پر واضح کیا گیا کہ وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا خوب جانتا ہے اور وہ ہر قیمت پر اپنی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع کرے گا۔ اجلاس میں بھارت کے اس مضحکہ خیز دعوے کو مسترد کر دیا گیا کہ اُس نے لائن آف کنٹرول کے پار پاکستانی علاقے میں گھُس کر ''سرجیکل سٹرائیک‘‘ کی شکل میں فوجی کارروائی کی ہے۔ اور بقول اُس کے کشمیر میں گھُسنے کیلئے تیار مجاہدین کے ایک اڈے کو تباہ کیا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں بھارت کے اس دعوے کو عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور بھارتی عوام کے گرتے ہوئے مورال کو سہارا دینے کی ایک بھونڈی کوشش کا نام دیا ہے۔ اعلامیہ میں بھارت کی اُن کوششوں کی بھی مذمت کی گئی جن کے ذریعے بلوچستان میں مداخلت کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوموار کے روز بلائے گئے اجلاس کی اصل اہمیت اور قوت دراصل پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے پاکستان کو درپیش سیکورٹی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے باہمی اتحاد اور حکومت کے ساتھ مکمل یک جہتی کے اظہار میں مُضمر ہے۔ 
پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں یہ دوسرا موقعہ ہے جب پارلیمنٹ میں نمایندگی کی حامل سیاسی جماعتوں نے کاندھے سے کاندھا ملا کر عوام کی ایک منتخب جمہوری حکومت کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔ تا کہ حکومت ملک کے دفاع اور عوام کی سلامتی کیلئے موثر اقدامات کر سکے۔ پہلے موقعہ پر تقریباً 2 سال قبل اِن ہی سیاسی پارٹیوں نے پارلیمنٹ اور موجودہ سیاسی نظام پر ایک شب خون کو ناکام بنایا تھا۔ اِس دفعہ بھی انہوں نے سیاسی قوتوں کے باہمی اتحاد کا مظاہرہ کرکے دراصل موجودہ سیاسی نظام اور پارلیمنٹ پر عوام کے اعتماد کو پختہ کیا ہے۔ لیکن اِس اہم موقعہ پر تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان نے سوموار کو آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرکے اور اِس سے اگلے دن یعنی 5 اکتوبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرکے نہ صرف سیاسی قوتوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ کشمیر پر حکومت کے موقف کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر سب کے ساتھ ہیں۔ لیکن آل پارٹیز کانفرنس اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تو کشمیر کے مسئلے پر ہی بلایا گیا ہے۔ نواز شریف کی تاج پوشی یا موجودہ حکومت کی توسیع کیلئے تو نہیں بلایا گیا۔ اگر وہ کشمیر پر باقی تمام سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے ساتھ ہیں تو کشمیر کے مسئلے پر بلائے گئے اِن اجلاس میں شرکت کرکے وہ کشمیر کاز کی تقویت کا باعث کیوں نہیں بنے؟ عمران خان کچھ بھی کہیں، آل پارٹیز کانفرنس سے غیر حاضر رہ کر اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے انہوں نے پاکستانی عوام کو مایوس کیا ہے۔ اُن کی پارٹی اِس وقت پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی ہے۔ قومی اسمبلی، سینٹ اور ملک کی تین صوبائی اسمبلیوں میں اُسے نمایندگی حاصل ہے۔ ایک طرف تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے انہوں نے سب کو حیران کر دیا ہے اور دوسری طرف اپنے فیصلے کے حق میں جو دلیل دی ہے، وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ پاکستان میں پارلیمنٹ اور وزیراعظم نواز شریف کی حکومت ایک آئینی، قانونی اور سیاسی حقیقت ہے جسے نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ عالمی برادری بھی تسلیم کرتی ہے۔ عمران خان اِسے تسلیم نہ کریں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ سوائے اِس کے کہ اس طرح بھارت کو کشمیر پر ایک غلط پیغام پہنچے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved