تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     08-10-2016

عمران خان اور طالبان

کیا عمران خان طالبان کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سرگرداں ہیں؟
طالبان کا ایجنڈا کیا تھا؟ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا اور اس کی آڑ میں حکومت پر قابض ہونا۔ طالبان نے جو مقدمہ مذہب کے نام پرقائم کیا، عمران خان وہی مقدمہ احتساب کے نام پر پیش کر رہے ہیں۔ طالبان کا مقدمہ کیا تھا؟ پاکستان کے حکمران مرتد ہوچکے۔ یہ طاغوت کے ساتھی ہیں۔ ان کی حکومت ناجائز ہے، اس لیے اس کے خلاف خروج جائز ہی نہیں، اب لازم ہے۔ عمران خان کا مقدمہ کیا ہے؟ پاکستان کے حکمران کرپٹ ہیں۔ نوازشریف حقِ اقتدار کھو چکے۔ ان کی حکومت ناجائز ہے۔ اس لیے ہم انہیں حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں کہ ایک کی زبان اور اصطلاحیں مذہبی ہیں اور دوسرے کی عصری سیاست سے مرتب ہوئی ہیں۔ اگر طالبان غلط تھے تو عمران خان کیسے درست ہیں؟ اگر عمران خان ٹھیک کر رہے ہیں تو طالبان کیسے غلط کر رہے تھے؟
مجھے تشویش ہے کہ اس ملک کے دانش ورطبقے کو معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں، الا ما شااللہ۔ یہ عمران خان اور نواز شریف کے مابین معرکہ نہیں ہے۔ لوگ ظلم کرتے ہیں جب اس کی یہ تعبیر کرتے ہیں۔ یہ تصادم آئین اور آئین شکنی کا ہے۔ یہ جمہوریت اور انقلاب کا ہے۔ اس بحث میں یہ بات بے معنی ہے کہ وزیرِ اعظم کون ہے اور اس کی مخالفت کرنے والے کا نام کیا ہے۔ سادہ سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں آئین موجود ہے، ادارے موجود ہیں، تبدیلی کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ اس لیے آج اہم سوال یہ نہیں کہ عمران خان درست کہہ رہے ہیں یا غلط۔ سوال یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرنے جا رہے ہیں، اس کا انجام کیا ہوگا؟
یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ تصادم عوام اور حکمران طبقے کے مابین نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے جسے عوامی اعتماد حاصل ہے۔ وہ اس پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت ہے جسے عوام نے منتخب کیا۔ حکومت کے افراد کو کرپٹ مان لیا جائے تو بھی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں عوام کے سب سے بڑے طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ یہ مشرف جیسے کسی آمر کے خلاف مقدمہ نہیں ہے جس نے مرضی کا فیصلہ نہ دینے پر عدالتِ عظمیٰ کو معطل کردیا تھا۔ ایسی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت شرعاً، اخلاقاً اور قانوناً جرم ہے۔ عمران خان نے دراصل بغاوت کا اعلان کیا ہے۔ یہی وہ اہم بات ہے جسے رائے ساز طبقہ نظر انداز کر رہا ہے۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں فوجی آمریتوں کے خلاف بغاوت نہیں ہوتی، آئینی اور منتخب حکمرانوں کے خلاف ہوتی ہے جب میڈیا اور عدلیہ آزاد ہوتے ہیں اور لوگ احتجاج کاحق بھی استعمال کر تے ہیں۔
عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اگر وزیرِ اعظم نے استعفیٰ نہ دیا یا اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش نہ کیا تو وہ انہیں حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ عملاً اس کی دوصورتیں ممکن ہیں: ہجوم سرکاری دفاتر پر قبضہ کر لے یا ان کے دروازے بند کر دے تاکہ اہلکار اندر نہ جا سکیں۔ موجودہ دور میں حکومت کسی فردِ واحد کا نام نہیں۔ نواز شریف بھی اداروں کے توسط سے حکومت کرتے ہیں۔ حکومت کو کام سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام حکومتی اداروں کو معطل کردیا جائے۔ عمران خان کے الفاظ میں وہ اسلام آباد کو بند کردیں گے۔ انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ یہ دھرنا نہیں ہے۔ کیا اس نقطہ نظر کو کیانام دیا جا سکتا ہے؟ کیا اسے کوئی سنجیدہ آدمی ''احتجاج جمہوری حق ہے‘‘ کی دلیل فراہم کرسکتا ہے۔ عمران خان کا موقف اگر درست مان لیا جائے تو بھی اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ایک غیر آئینی اقدام ہوگا۔ 
اب اس موقف کو سیاسی حوالے سے دیکھیے؛ نوازشریف ایک مقبول سیاست دان ہیں۔ اس ملک میں ان کا ایک حلقہ ہے۔ جب عمران خان نوازشریف کواس طرح للکاریں گے تو کیا ان کے حامی خاموش رہیں گے؟ اگر کے پی میں کوئی صوبائی حکومت کے خلاف یہی رویہ اپنائے توایک ردِ عمل تو وہ ہے جو حکومت کی طرف سے سامنے آئے گا۔ دوسرا وہ ہے جو تحریکِ انصاف کے کارکنوں کے غصے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ نوازشریف سے کوئی اختلاف کرے یا اتفاق، وہ ایک سیاسی عصبیت کی علامت ہیں۔ جب ان کی حکومت کو اس طرح غیرآئینی طورپر ختم کر نے کی کوشش ہو گی تو اس کا ردِ عمل ہوگا۔گویاایک تصادم ناگزیر ہے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جو اگر خدا نخواستہ پیدا ہو گئی تو پھر پاکستان کو خانہ جنگی سے نہیں بچا یا جا سکے گا؟ کیا عمران خان اسی کے لیے سرگرداں ہیں؟
یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ دیگر سیاسی جماعتیں ان کی تائید میں نہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ بھی مختلف سیاسی عصبیتوں کی نمائندہ ہیں، جیسے پیپلزپارٹی یا جمعیت علمائے اسلام۔ اس سے بھی واضح ہے کہ عمران خان ایک اقلیتی گروہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ایک اقلیتی گروہ کو اگر یہ حق دے دیا جائے کہ وہ خود ہی مدعی ہو، خود ہی منصف اور ساتھ ہی وہ قوتِ نافذہ بھی ہاتھ میں لے لے تو پھر دنیا کا کوئی نظام نہیں چل سکتا۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ مذہبی انتہا پسند بھی اس ہجوم کا حصہ بن جائیں اوراس کی آڑ میں دارالحکومت پر قبضے کی کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ اس سے بہتر موقع انہیں کبھی نہیں مل سکتا۔
یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ جب دارالحکومت کو بند کیا جائے گا تو ریاست بھی ردِ عمل کا اظہار کرے گی۔ ایسے صورتِ حال میں قانون حکومت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرے۔ پہلے مرحلے پر پولیس متحرک ہوگی اور اگر معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جا تے ہیں تو وزیراعظم فوج بھی طلب کر سکتے ہیں۔ فوج کے لیے لازم ہے کہ وہ حکومت کا حکم مانے۔ انکار کی صورت میں مارشل لا کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا، الّا یہ کہ نوازشریف اردوان ثابت ہوں۔ یہ حالات عام شہریوں کے جان و مال کو کس طرح ارزاں بنا دیں گے، اس کا اندازہ مشکل نہیں۔
پرویز خٹک نے ایک اور ظلم کیا ہے۔ انہوں نے اسے پختونوں کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے سنڑل کمیٹی میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکم دیں تو وہ سب پختون باہر نکل آئیں گے جو راولپنڈی اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ نوازشریف کے بارے میں ایک گروہ پہلے ہی مسلسل پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ وہ پنجاب کے راہنما ہیں۔کیا پرویز خٹک اس کوپختون پنجابی جھگڑا بنانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ یہ سوچ ملک کے لیے کتنی خطرناک ہے؟ کیا اس سے بڑھ کر کوئی صریع الاثر زہر ہے جو اس ملک کی رگوں میں اتا را جا سکتا ہے؟ 
یہ و قت معاملات کو افراد کے تناظر میں دیکھنے کا نہیں۔ ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جو کام طالبان اسلام اور طاغوت کے نام پر نہیں کر سکے، مجھے خدشہ ہے کہ عمران خان،خاکم بدہن، احتساب اور کرپشن کے نام پر کرگزریں گے۔ سخت ظلم ہو گا اگر اس ملک کے دانش ور اس قضیے کو نوازشریف اور عمران خان کے تناظر میں دیکھیںگے۔ یہ فیصلہ کن گھڑیاں ہیں، پاکستان کے لیے بھی اورعمران خان کے لیے بھی۔ میں اب بھی عمران خان کے بارے میں خوش گمان ہوں کہ وہ دل سے فساد نہیں چاہتے۔ 
کاش وہ اپنے طرزِ عمل کے نتائج پر غور کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان پر رحم کرے اور عمران خان پر بھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved