تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-10-2016

ڈھول بجے تو کون نہ ناچے!

اس کائنات کا کوئی بھی معاملہ آسان ہے نہ مشکل۔ اس کی نوعیت کبھی نہیں بدلتی۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم اپنی کھوپڑی میں پائے جانے والے دماغ کو بروئے کار لاتے ہوئے ذہن میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اور اگر کرنا چاہتے ہیں تو کس حد تک؟ 
ایک طرف تو یہ دنیا ہے جو چند طے شدہ اصولوں اور کُلیوں کے تحت کام کرتی ہے۔ اس دنیا کے نظام میں کچھ خیر ہے نہ شر۔ اِس دنیا میں کسی بھی چیز یا معاملے کو اچھا یا برا ہم بناتے ہیں۔ دوسری دنیا وہ ہے جو ہمارے دل و دماغ میں آباد ہے۔ یہ ہے خواہش، نیت، ارادے اور فیصلے کی دنیا۔ اس دنیا میں کم ہی ہے جو باہر کی یعنی حقیقی دنیا سے مطابقت رکھتا ہو۔ ایسے لوگ خال خال ہیں جو اندر اور باہر کی دنیا کو ایک صفحے پر لانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ 
دل و دماغ کی دنیا میں کوئی اصول ہوتا ہے نہ کُلیہ۔ یہ دنیا ہر ضابطے، ہر بندھن سے آزاد اور بے نیاز رہتی ہے یعنی کبھی بھی کوئی بھی خواہش ابھر اور پنپ سکتی ہے، کوئی بھی ارادہ یا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ طبعی اصولوں کے مطابق کام کرنے والی دنیا میں خواہش کام کرتی ہے نہ ارادہ۔ اس دنیا میں سب کچھ طے شدہ ہے اس لیے ہوتا چلا جاتا ہے۔ اِسی میں ہمارے لیے مستقل آزمائش کا اہتمام ہے۔ جو کچھ خود بخود ہوتا جارہا ہے اُس میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے کام کا نہیں بلکہ نقصان دہ ہے۔ ایسے میں ہمارے لیے لازم ٹھہرتا ہے کہ اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کی بھرپور کوشش کریں۔ 
خواہشات اور ارادے کی دنیا میں محض سوچ لینے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ بھرپور قوتِ ارادی کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ کرنے کی سکت بھی اپنے اندر پیدا کرنا پڑتی ہے۔ یہی کچھ ہے جو انسان کی تقدیر میں لکھا گیا ہے۔ تقدیر اگر ہے تو بس یہی کہ جو سوچیے اُس پر عمل کا ارادہ بھی کیجیے اور اِس حوالے سے اپنے اندر سکت پیدا کرکے غیر متزلزل لگن اور ولولے کے ساتھ عمل کی راہ پر گامزن رہیے۔ 
انسان کے لیے ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ جو بات جتنی سادہ ہے وہ اُتنی ہی مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ اور اگر غور کیجیے تو یہی اِس کائنات کی ''رنگینی‘‘ ہے! دیکھیے تو سبھی کچھ بہت آسان دکھائی دیتا ہے مگر سمجھنے کی کوشش کیجیے تو دماغ کی چُولیں ہلنے لگتی ہیں۔ اب دیکھیے، کتنی سادہ سی بات ہے کہ سڑک پر لاپروائی سے گاڑی چلائی جائے تو حادثے کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی کے داؤ پر لگنے کا امکان بھی ہر دم تازہ و توانا رہتا ہے۔ مگر پھر بھی لوگ اپنی جان کی پروا کرتے ہیں نہ دوسروں کی۔ 
ہمارے ماحول میں بہت کچھ ہے جو ہماری مرضی کا ہے نہ فائدے کا۔ بگاڑ پیدا ہو رہا ہے مگر ہم اُسے روکنے کی شعوری کوشش سے بے نیاز ہوکر مزید بگاڑ پیدا ہونے دے رہے ہیں۔ ہمیں بظاہر اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کس چیز یا رجحان کے پنپنے سے ہمیں کتنا فائدہ یا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ 
طبعی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس پر بظاہر ہمارا کوئی اختیار نہیں مگر باطن کی دنیا کو بھی ہم نے طبعی دنیا سمجھ لیا ہے۔ ایسا سمجھنا محض حماقت ہی نہیں بلکہ اپنے آپ سے شدید نوعیت کی نا انصافی بھی ہے۔ ظاہر کی دنیا خیر و شر سے بے نیاز ہے۔ اِس دنیا میں کوئی بھی معاملہ خیر یا شر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یعنی کسی بھی معاملے کو جو بھی حتمی شکل ملے گی، ہم سے ملے گی۔ مگر باطن کی دنیا؟ یہ تو سراسر اور صریحاً ہماری اپنی یعنی ہماری مرضی کی دنیا ہے۔ اِس دنیا میں ہم اپنی ضرورت اور مرضی کے مطابق فیصلے کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں اُن کی زندگی میں واضح، مثبت اور فیصلہ کن تبدیلیاں دکھائی بھی دیتی ہیں۔ 
ہماری سمجھ میں نہ آنے والی بہت سی باتیں بچوں کی سمجھ میں تیزی اور آسانی سے آجاتی ہیں۔ اِس کا سبب ناقابل فہم نہیں۔ بچوں کے ذہن غیر متعلق باتوں سے آلودہ یا بھرے ہوئے نہیں ہوتے اِس لیے اُن میں سمجھنے کی صلاحیت تیز ہوتی ہے۔ بڑوں میں سمجھنے کے ساتھ ساتھ سوچنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ اور چونکہ ذہن غیر معمولی حد تک بھرے ہوئے ہوتے ہیں اِس لیے وہ کسی بھی معاملے کو تیزی اور آسانی سے سمجھ نہیں پاتے۔ اور سوچنے کے نام پر محض پریشان ہوکر وہ معاملات کو مزید الجھا دیتے ہیں۔ 
عزیزم عارف انصاری نے بتایا کہ وہ عید کے دن موٹر سائیکل پر اپنے پانچ سالہ ''ولی عہد‘‘ رامش کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ راستے میں ایک مقام پر چند ''ڈھولی‘‘ بیٹھے اپنے فن کا پُرزور اور پُرشور مظاہرہ کر رہے تھے۔ موٹر سائیکل کی ٹنکی پر بیٹھے ہوئے رامش میاں نے سماعت کا حق ادا کرتے ہوئے پہلے پُھدکنا، تِھرکنا اور پھر مٹکنا شروع کیا۔ جب ابا میاں نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو تو خاصا نپا تُلا سوالیہ جواب ملا ''ڈھول بجے تو اور کیا کرنا چاہیے؟‘‘ 
سیدھی سی بات ہے۔ ڈھول بجے تو کون نہ ناچے؟ جیسی صورتِ حال ہو ویسا ہی نتیجہ سامنے آتا ہے۔ سورج آگ برسا رہا ہوگا تو پسینے چُھوٹیں گے۔ بارش ہوگی تو جو خشک ہے وہ تَر ہو رہے گا۔ ہر طرف حیا ہوگی تو بچیاں حیا کا دامن تھامنا سیکھیں گی۔ اور اگر ماحول فحاشی اور عریانی سے آلودہ ہوگا تو لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی بے حیائی کی راہ پر گامزن ہونے میں کوئی قباحت محسوس نہ کریں گے۔ 
اگر ہم بچوں کو تِھرکنے اور مٹکنے سے روکنا چاہتے ہیں تو پہلے ڈھول بجانے کے عمل پر قابو پانا ہوگا۔ جب تک ڈھول بجتا رہے گا، تِھرکنے اور مٹکنے کی ترغیب و تحریک ملتی رہے گی۔ جو معاملہ ڈھول کا ہے وہی دوسری تقریباً تمام چیزوں کا بھی ہے۔ ہمیں ماحول میں جو چیز میسّر ہوگی وہ اپنی طرف بلاتی رہے گی۔ اب یہ ہمیں طے کرنا ہے کہ کوئی بھی چیز اپنی اصل میں کتنی مفید یا مُضر ہے۔ یعنی اُس کی طرف جائیں یا پھر اجتناب برتیں، دامن کش رہیں۔ 
ہر اعتبار سے مُضر اشیاء اور رجحانات کے آگے بے بس ہو جانا حیرت کی بات نہیں۔ یہ تو فطری ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ہم مفید اشیاء اور معاملات کے ہاتھوں بھی اذیت سے دوچار رہتے ہیں۔ اگر کوئی چیز اپنی اصل میں مفید ہے تب بھی بے موقع اور ضرورت سے زائد استعمال کیے جانے کی صورت میں نقصان کا باعث بنتی ہے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے اِس لیے اِس کا سمجھنا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ مگر اے وائے ناکامی کہ ہم بالکل سامنے کی بات بھی سمجھ نہیں پاتے ... یا شاید سمجھنا ہی نہیں چاہتے! 
کتنی سیدھی سی بات ہے کہ زندگی کو ایک خاص ڈگر پر گامزن رکھنے کے لیے غیر ضروری، غیر متعلق اور غیر مفید راہوں کو مسدود یا ترک کرنا پڑتا ہے۔ آگ اور پانی ایک دوسرے کی ضد ہیں یعنی کبھی ایک صفحے پر نہیں آتے مگر ہم ہیں کہ آگ اور پانی جیسی متضاد حقیقتوں کو خلط ملط یا گڈمڈ کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہیں۔ 
خواب دیکھنے پر کوئی قدغن، کوئی پابندی نہیں مگر اِس کے لیے نیند لازم ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جاگتی آنکھوں میں بھی خواب بسانے پر بضد رہتے ہیں۔ اِس ''ڈے ڈریمنگ‘‘ نے ہمارے تقریباً تمام معاملات کا بیڑا غرق کردیا ہے! سب آرزو مند دکھائی دیتے ہیں کہ ع 
اے کاش کہ اب ہوش میں ہم آنے نہ پائیں ! 
اگر کسی راہ کی خرابی ظاہر ہوجائے تو اُس پر چلنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ لوگ کسی راہ کی خرابیاں جانتے ہوئے بھی اُس پر گامزن رہنے پر بضد رہتے ہیں اور کوئی سمجھائے تو اُلٹا اُسے سمجھانے اور جھوٹا ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ ایسا بُرا وقت پہلے کبھی نہیں آیا! ڈھول بج رہا ہے۔ ڈھول کی تھاپ پر ناچنے سے گریز بھی نہیں کیا جارہا اور ڈھول بجائے جانے، ناچنے کو بُرا بھی سمجھا جارہا ہے! سب چاہتے ہیں کہ رند کے رند رہیں اور جنت بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ 
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اِسے کیا کہیے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved