سوشل میڈیا کے بارے میں غیرملکیتی تحریریں عرصہ ہوا پڑھی جا رہی ہیں۔ ان کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا۔ میری طرح پسند آئی تحریروں کو اپنے کالموں میں گھسیٹ لاتے ہیں۔ چند ماہ سے میں نے بھی یہی دھاندلی شروع کر رکھی ہے۔ سوشلستان میں جب کوئی ٹوٹا اچھا لگتا ہے‘ میں اپنے کسی نہ کسی کالم میں اس کا پیوند لگا دیتا ہوں۔ ضروری نہیں جو چیز مجھے دلچسپ نظر آئے‘ آپ کے لئے بھی ہو۔ سیف کا ایک شعر ہے
سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
میں تو انداز بیان بدلنے کی زحمت بھی نہیں کرتا۔ جہاں کوئی تحریر‘ کسی وجہ سے دل کو بھائی‘ اسے قارئین کے لئے بھی اپنے کالم میں رکھ لیا۔ جیسے ہجوم میں چلتے پھرتے‘ کوئی چہرہ آپ کو خوبصورت نظر آ جائے تو آپ پلٹ کر اسے دوبارہ دیکھ لیتے ہیں۔ بہت سے لوگ دیکھنے والوں کو دیکھ لیتے ہیں۔ مقصد کسی کا کچھ نہیں ہوتا۔ کیا پلٹ کر دیکھنا کوئی مقصد نہیں؟ سرکاری چھاپہ خانوں میں نوٹوں کے سوا کوئی کام کی چیز نہیں چھپتی۔ کئی دنوں سے کالم بھی کچھ اسی طرز کے چھپ رہے ہیں۔ میں نے اپنا ایک معیار رکھ لیا ہے۔ جو کالم عام لوگوں کو پسند ہوں‘ انہیں میں نہیں پڑھتا اور جو مجھے پسند آئیں‘ ان کے بعض حصے اپنے قارئین کے لئے بچا رکھتا ہوں۔ زیادہ اقتباس بی بی سی‘ وائس آف امریکہ یا وائس آف جرمنی سے لیتا ہوں۔ سرکاری چھاپہ خانے والوں کو برا بھی لگے تو امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی کا جو کچھ وہ بگاڑنا چاہیں‘ بگاڑ لیں۔ آئیے! مڑ مڑ کے دیکھتے ہیں۔
''پاکستانی قوم اور اِس قوم کے دل کی آواز ، پاکستانی میڈیا اور کِسی مسئلے پر اکٹھی ہو نہ ہو، ہندوستانی اداکار اوم پوری کے پیار میں، یک زبان نظر آتی ہے۔ جب سے اوم پوری نے ایک انڈین چینل پر امن کے حق میں بات کی ہے، ہندوستان کے 22 کروڑ مسلمانوں کا ذِکر کیا ہے اور جیسا کہ توقع تھی، پورے ہندوستان کے محب وطن لوگوں سے گالیاں کھائیں ہیں، وہ پاکستان کے ہیرو بن گئے ہیں۔ کوئی اْن کی سیاسی بصیرت کو سلام پیش کر رہا ہے۔ کوئی ہندوستان کے جابر میڈیا کے سامنے کلمہ حق کہنے پر، اْن کے حوصلے کی داد دے رہا ہے۔ کوئی اپنے گھر کے دروازے کھولے انہیں اپنے خاندان کا فرد بنانے پر تیار ہے۔ کِسی سیاسی مبصر نے فرط جذبات میں اوم پوری کو اپنے زمانے کا ''مومن‘‘ قرار دے دیا ہے۔
تھوڑی دیر کے لئے بھول جائیں کہ ایک ہندو اداکار، ایسے وقت میں ہمارا ہیرو بنا ہے، جب ایک پاکستانی مسیحی نوجوان، فیس بْک پر خانہ کعبہ کی تصویر لگانے کے جرم میں جان بچاتا پھر رہا ہے۔ جہاں ایک سہمی ہوئی ہندو آبادی کو ہر دوسرے دِن ہمیں یاد کرانا پڑتا ہے کہ وہ ہم سے بھی پرانے پاکستانی ہیں۔ کیا ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ پوری قوم یک زبان ہو کر ایک ایسے شخص کے گْن کیوں گا رہی ہے‘ جِس نے اپنی حکومت اور میڈیا کے بھڑکائے ہوئے جنگی جنون کو چیلنج کیا ہے۔ ہم شاید یہ نعرہ لگانے میں حق بجانب ہیں۔
پاسباں مِل گئے کعبے کو صنم خانے سے
لیکن کیا ہم کبھی یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہماری صفوں میں سے نکل کر کوئی صنم خانے کے دروازے پر پہرہ دینے کی بات کرے تو اْس کا حشر کیا ہوتا ہے؟ اگر کبھی کِسی بزرگ سے تقسیم ہند کے فسادات کے قصے سْنیں تو آپ کو ایک بات بار بار سْنائی دے گی ایک جتھہ ہے جو ہندوؤں‘ مسلمانوں یا سکھوں کی کِسی آبادی یا قافلے کا جلاؤ گھیراؤ کرنا چاہتا ہے۔ اْس کے راستے میں کوئی سر پھرا اکیلی برچھی لے کر یا دامن پھیلا کر، اْنہیں روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے یہ شخص (یا کبھی عورت) ہندو بھی تھا، مسلمان بھی اور سکھ بھی۔ اکثر ہجوم اِس کی لاش کے اوپر سے گزر جاتا تھا۔ بعض معجزاتی کہانیوں میں، ایسے کرداروں نے بستیاں بچائیں۔ قافلے منزلوں تک پہنچائے۔ آج جبکہ ہندوستانی اور پاکستانی قوم ایسے جتھوں میں تبدیل ہو چکی ہے کہ اْن کو علیحدہ رکھنے کے لئے خادردار تاریں اور خندقیں ضروری ہیں، ایسے لوگوں کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے اور سپلائی کم ہو گئی ہے، جو بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے کھڑے ہو کر انہیں بتا سکیںکہ جِس بستی کو جلانے چلے ہو، اْس میں تمہارے بزرگوں کی قبریں بھی ہیں۔ وْہ کمزور دِل پاکستانی، جو ہر سال واہگہ پہ شمعیں جلاتے رہے، ہم انہیں موم بتی مافیا اور را کے پروردہ کہتے ہیں۔ اگر ہندوستان میں کوئی ایسی حرکت کرے تو ہمیں اپنا بچھڑا ہوا بھائی یا بہن لگتا ہے۔ شاید ہم مِن حیث القوم ایسی جذباتی تنہائی کا شکار ہیں (حالانکہ روز رات کو سونے سے پہلے اپنے آپ کو چین کے پیار کی لوری سْناتے ہیں) کہ اگر کوئی بھولے سے یہ بھی کہہ دے کہ سارے پاکستانی دہشت گرد نہیں ہیں تو ہمارا دِل بھر آتا ہے۔
پاکستان میں غالب اور مودودی کے بعد، جو ادیب سب سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں‘ وہ ہیں ارون دھتی رائے اور نوم چومسکی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ دونوں اپنے اپنے ملک کی پالیسیوں پر بڑی بہادری سے تنقید کرتے ہیں۔ ایسے یار لوگ بھی موجود ہیں جو مِس رائے کی تحریروں پر عش عش کرتے ہیں اور حافظ سعید کی طویل العمری کی بھی دعائیں مانگتے ہیں۔ نوم چومسکی کو بھی پیرومرْشد مانتے ہیں اور پاکستان کی شیعہ کْش تحریروں کے بھی حامی ہیں۔ اگر کوئی ہمارے دشمن کی صفوں میں سے نکل کر اپنے ملک، اپنی قوم، اپنے میڈیا کے خلاف بولے تو ہمارا ہیرو۔ اگر کوئی ہمارا اپنا‘ ادب سے بھی سوال کرے کہ کہیں ہم ایک خونخوار ہجوم تو نہیں بنتے جا رہے؟ تو وہ یا کافر یا غدار یا کسی ایسے زندان خانے میں‘ جہاں سے کِسی کو کِسی کی خبر نہیں آتی۔ اوم پوری نے بھی وہی کیا جو ایک بھنایا ہوا باضمیر شخص اْس وقت کرتا ہے، جب اْس کو وطن فروشی کا طعنہ دیا جا رہا ہو۔ ذرا سوچیں اگر کوئی پاکستانی اوم پوری، ٹی وی پر آ کر یہ کہے کہ جو پاکستانی فوجی جوان کشمیر کی یا افغانستان کی یا پشاور کی یا کوئٹہ کی یا کراچی کی جنگ میں مارا گیا، میں نے تو اْسے نہیں کہا تھا کہ وردی پہنو اور اِس جنگ میں جاؤ۔
ذرا سوچیں کہ کوئی پاکستانی ٹی وی پر بیٹھ کر یہ کہے تو اِس کے بعد کتنے دِن زندہ رہ سکے گا؟ تازہ ترین اطلاعات کہ مطابق انہوں نے اپنے کہنے پر معذرت کر لی ہے۔ مودی کے بھارت اور جناح کے پاکستان میں کِسی بھی باضمیر شخص کو زبان کھولنے سے پہلے ہی معذرت کر لینی چاہیے۔ اب ہمارے اوم پوری کے عشق میں مبتلا بھائیوں اور بہنوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ہی صفوں میں حسین تلاش کریں اور جب تک نہیں ملتا کم از کم یہ کریں کہ جب حسینی مارے جائیں تو مرنے والوں کو شہید کہیں نہ کہیں، اْن کے پورے نام بتا دیا کریں‘‘۔
محمد حنیف کی ساری تحریر کو نقل کرنے کا میں ذمہ دار نہیں۔ سامنے کاغذ تھا‘ میں نے نقل کر دیا۔
پاکستان کے موجودہ سفارتی ڈھانچے میں فٹ ہو کر سید مشاہد حسین امریکہ کے دورے پر گئے ہیں۔ انہوں نے امریکیوں سے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر اگر پاکستان کی نہ سنی گئی تو اس کا جھکاؤ روس اور چین کی جانب ہو جائے گا۔ انہوں نے یہ بیان جمعرات کو واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے ایک پروگرام کے دوران دیا۔ مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ ''امریکہ اب عالمی طاقت نہیں ہے۔ اس کی طاقت کم ہو رہی ہے۔ اس کے بارے میں بھول جائیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ روس پہلی بار پاکستان کو ہتھیار فروخت کرنے پر راضی ہو گیا ہے جبکہ چین اس کا انتہائی قریبی دوست ہے اور امریکہ کو اس بدلتے ہوئے علاقائی توازن کو سمجھنا ہو گا۔ مشاہد حسین سید کا یہ بھی کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ایک اور امریکی تھنک ٹینک سمپسن انسٹی ٹیوٹ میں بات کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ سلجھائے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ مشاہد حسین کے مطابق انہیں امریکہ کو بتانا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور امریکہ کو اس مسئلے میں ثالثی کرنی چاہیے۔ مشاہد حسین سید اور رکن قومی اسمبلی شزرا منصب، ان دنوں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے کے لئے امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں ان دونوں نے امریکی محکمہ خارجہ میں حکام سے ملاقاتیں کی ہیں اور کانگریس میں سینیٹروں سے مل رہے ہیں۔ ان خصوصی ایلچیوں کو امریکہ میں ایک سفارتی دباؤ قائم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
مشاہد حسین کے ان بیانات پر امریکہ میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ ''اگر پاکستان امریکہ کو ایک کمزور ہوتی ہوئی طاقت سمجھ رہا ہے تو پھر کشمیر کے مسئلے میں، امریکہ سے مدد کیوں مانگ رہا ہے؟‘‘