تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     09-10-2016

مدینہ و نجف و کرب و بلا میں رہتا ہے

واقعہ کربلا اللہ کی راہ میں آلِ رسولﷺ کی عظیم قربانی کی روداد ہے۔ اس لہو لہو داستان میں ایک طرف ہمیں ظلم‘ جبر اور بے حِسّی کی انتہا نظر آتی ہے تو دوسری جانب حق گوئی‘ سچائی‘ پاکیزگی‘ یقین کامل‘ دنیا سے بے نیازی‘ آخرت پر ایمان اوردین حق کے لیے قربان ہو جانے کا اعلیٰ و ارفع جذبہ اپنی بلندیوں پر نظر آتا ہے۔
شاعری جو انسانی احساسات اور جذبات کو لفظوں کا پیرہن دیتی اور زندگی کے مختلف منظر ناموں میں انسانی کیفیات کو شعر کے آہنگ میں ڈھالتی ہے، بھلا کیسے ممکن تھا کہ شعر و سخن سے وابستہ اہل درد کے دل اس عظیم سانحے پر نہ تڑپتے اورپگھلتے ۔ ان کے دلوں کی تڑپ نے شاعری میں اپنا اظہار کیا اور شعرو ادب کو مرثیہ نگاری کی نئی صنفِ سخن عطا ہوئی۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ حضرت امِّ ربابؓ نے امام کی یاد میں درد ناک اشعار کہے۔ غالباً مرثیہ نگاری کی ابتدا وہیں سے ہوتی ہے۔ مرثیہ عربی زبان کا لفظ ہے جو رثاء سے نکلا ہے جس کا مطلب میت پر بین کرنا‘ نوحہ کرنا اور اس کی یاد میں ایسے اشعار پڑھنا جس میں مرنے والے کی خوبیاں بیان کی گئی ہوں۔
واقعہ کربلا کے حوالے سے جب بھی شاعری کا تذکرہ ہوتا ہے تو ذہن فوراً میر انیسؔ کے مرثیوں کی طرف جاتا ہے۔
برصغیر میں مرثیے کا آغاز16ویں صدی میں ہوتا ہے۔ دکن کی ریاست کے حکمران قلی قطب شاہ اردو کے پہلے مرثیہ گوشاعر تھے۔ مرثیے کو بلندیوں تک پہنچانے کے لیے اردو ادب کو میرانیس میسر آیا، جن کے خاندان کی سات پشتوں سے مرثیہ نگاری میں نام بنایا۔ میر انیس پانچویں پشت سے تھے۔ شعر و سخن اہل بیت رسول کے لیے وقف کرنا ان کا اعزاز تھا اور وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں: ؎
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیّر کی مداحی میں
میر انیس اردو کی رزمیہ شاعری میں جس مقام پر پہنچے کوئی دوسرا ان کا ہمسر دکھائی نہیں دیتا۔ سوائے مرزا دبیر کے جو ان کے ہی دور میں مرثیہ کہنے والے ایک اور بڑے شاعر تھے۔ مرزا دبیر نے تین ہزار مرثیے کہے۔ ان کے قلم سے نکلا ہوا یہ شعر ضرب المثل بن چکا ہے ؎
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے!
میر انیس اورمرزا دبیر کے مرثیوں میں مماثلت یہ ہے کہ طویل ترین نظمیں کہی گئیں۔ جنگ سے پہلے کی صورتحال‘ کربلا کی گرمی‘ فرات کے کنارے کے اہل بیت کے خیموں کا احوال، یزیدی فوجوں کی طرف سے پانی کی بندش، پیاس کی شدت، امام حسین ؓاور ان کے ساتھیوں کی بہادری اورشجاعت غرض ایک ایک منظر کو پوری تفصیل سے بیان کیا گیا۔ اس کے بعد 19ویں صدی میں جوش ملیح آبادی نے مرثیہ کی صنف میں طبع آزمائی کی اور اس کو نئی جہتیں عطا کیں۔ میر انیس اور مرزا دبیر کے اسلوب سے ہٹ کر جوش ملیح آبادی نے اپنا راستہ بنایا۔ ان کا ایک مشہور شعر پڑھ لیجیے ؎
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
اردو کا شاید ہی کوئی شاعر ہو جس نے امام علی مقام کی عظیم شہادت اور سانحہ کربلا پر کچھ نہ کہا ہو۔ واقعہ کربلا نے اردو زبان کو نئے استعارے دیے۔ محسن نقوی اورافتخار عارف کی شاعری میں واقعہ کربلا کی علامتیں اور استعارے موجود ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے انداز میں واقعہ کربلا کو یوں خراج عقیدت پیش کیا: ؎
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتداء ہے اسماعیلؑ
فیض احمد فیض نے شامِ شہرِ یاراں میں مرثیہ امام کے عنوان سے بارہ بندوں پر مشتمل نہایت دل گداز مرثیہ پڑھا جس میں میر انیسؔ کا رنگ جھلکتا ہے:
رات آئی ہے شبیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
تنہائی کی‘ غربت کی پریشانی کی شب ہے
یہ خانۂ شبیّر کی ویرانی کی شب ہے
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی ہے
یہ رات بہت آلِ محمد پہ کڑی ہے
فیض کو خالص کمیونسٹ سمجھنے والے ذرا ان اشعار پر بھی غور فرمائیں!
سید الشہداء کے حضور افتخار عارف نے بھی خوب صورت اشعار کہے:
شرف کے شہر میں ہر بام و در حسینؓ کا ہے
زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسینؓ کا ہے
حسینؓ تم نہیں رہے تمہارا گھر نہیں رہا
مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا
''کربلا گواہی دے‘‘ کے نام سے ایک نظم حضرت زینبؓ کو یوں خراج پیش کرتی ہے: ؎
وقت نے گواہی دی
جبر کے مقابل میں
صبر کا سبق زینبؓ
مصحف شہادت کا
آخری ورق زینبؓ
کربلا کے میدان میں آلِ رسول نے جو صعوبتیں اٹھائیں، امام حسینؓ اور ان کے ساتھی درد کے جس صحرا سے گزرے سعود عثمانی نے کس پُراثر انداز میں اس کی منظر کشی کی ہے: 
گزر چلی ہے شبِ دل فگار آخری بار
بچھڑنے والے ہیں یاروں سے یار آخری بار
یہ بات خیموں کے جلتے دیے بھی جانتے ہیں
کہ ہم کو بجھنا ہے ترتیب وار آخری بار
سُموں سے اڑتی ہوئی ریگِ دشت ڈھونڈتی ہے
غبار ہوتے ہوئے شہ سوار آخری بار 
کسی قریب کے ٹیلے پہ راہ دیکھتی ہے
مدینہ جاتی ہوئی رہ گزار آخری بار
واقعہ کربلا دنیا کی تاریخ میں واحد واقعہ ہے جس کے بیان کے لیے شاعری کی ایک صنف مخصوص ہوئی۔ ہر زبان کا شاعر اپنے اپنے انداز میں یہاں سے درد کی دولت سمیٹتا ہے اور اُسے اپنے اشعار میں بیان کرتا ہے۔
ہم سرکار دو عالم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو آلِ رسول پر بھی سلام بھیجتے ہیں۔ اہل بیت رسول کے مدح سرائی کرنا بھی محبت کے اسی بیان کا تسلسل ہے جس کا آغاز اور اظہار نعتِ رسول مقبولﷺ میں ہوتا ہے۔ افتخار عارف نے کیا اچھا کہا: ؎
مدینہ و نجف و کرب و بلا میں رہتا ہے
دِل ایک طرح کی آب و ہوا میں رہتا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved