تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     10-10-2016

اپوزیشن غدار۔۔۔۔ جمہوریت کا حسن

عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نہ جانے کا فیصلہ اور پھر اعلان کیا۔ ہر پارٹی اپنے فیصلے خود کرنے میں آزاد ہے۔
اس کے باوجود کہا گیا پارلیمنٹ سے پی ٹی آئی کی غیر حاضری نے قومی یکجہتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیا۔ دوسری جانب ہفتے کے دن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کشمیریوں کے ساتھ قومی یکجہتی کے لیے قرار داد پیش ہوئی۔ وزیراعظم نواز شریف نے بغیر کسی اعلان کے پارلیمنٹ کے اجلاس میں نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قرارداد پاس ہوتے وقت نہ وزیراعظم نواز شریف پارلیمنٹ میں حاضر ہوئے اور نہ ہی پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان موجود تھے۔ ان دونوں حضرات کے فیصلوں میں صرف نام کا ہی فرق ہے۔ ایک فیصلہ عمران خان نامی لیڈر کا تھا جبکہ دوسرا فیصلہ حضرتِ نواز شریف کا۔ ذرا ٹھہریے، ایک فیصلہ آپ بھی کرتے جائیں کہ آیا ان دونوںکے ایک ہی جیسے فیصلے میں مزید کیا فرق ہے؟ عمران خان نے کہا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس قومی یکجہتی کی وجہ سے نہیں بلایا گیا بلکہ نواز شریف اینڈ کمپنی کو پاناما لیکس کے مقدمات سے بچانے کے لیے طلب کیا گیا ہے۔
اب چلیے دوسری طرف، ذرا پارلیمنٹ کے اندر بھی جھانک لیتے ہیں۔ بظاہر یکجہتی کے داعی عرف فرینڈلی اپوزیشن بینڈ باجے کے ساتھ مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں جا پہنچی۔ پھر فلور آف دی ہاؤس پر خوشامدانہ ادائیں، تابعدارانہ جملوںکے تبادلے جمہوریت کا حسن کہلاتے رہے۔ پرانے زمانے کے پرنس آف نو لینڈ عرف عاشق مزاج شاعر نے معشوق کے چہرے پر ایک تِل کے بدلے ثمر قند اور بخارا قربان کرنے کا اعلان کیا تھا؛ حالانکہ شاعر اپنے ملک کا وزیراعظم تھا نہ کسی سرکاری پارٹی کا سربراہ ۔ ظاہر ہے شاعر شاعر ہوتا ہے، بہادر شاہ ظفر کی طرح بادشاہ نہیں، لہٰذا وہ بر سر اقتدار بھی نہیں تھا۔ہماری قومی پارلیمان کا ''میرا سلطان‘‘ شاعر سے بھی کئی ہاتھ آگے بڑھ گیا۔ چنانچہ میرا سلطان نے اپنے محبوب قبلہ شاہ صاحب آف سکھر شریف پر وزارتِ عظمیٰ کی کرسی قربان کرنے کا اعلان کر ڈالا۔ انہیں اپوزیشن لیڈرکی تقریر اس قدر''لذیذ‘‘ اور روح افزا لگتی ہے جیسے پھجے کے پائے، جیسے جٹے دی دال، جیسے مولا بخش دا پان، جیسے کشمیری نمکین کلچہ اور میٹھا تافتان۔ یا پھر شب بھر میں پک کرتیار ہونے والی گونگلو گوشت کی شب دیگ۔ یا جدہ کی مشہور ِزمانہ ریڈ سنائپر مچھلی۔
نون لیگ سرکار کی طرف سے قومی اسمبلی میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ اپوزیشن کے سردار قبلہ شاہ صاحب کی تقریرکی لذت اس وقت برباد ہوگئی جب ایک سینیٹر صاحب نے آزادانہ خیالات کے اظہار کی گستاخی کر دی۔ جابر سلطان سے پوچھے بغیرکلمۂ حق کہنے کی گستاخی کے جواب میں قومی یکجہتی سے بھرپور جمہوریت فوراً بولی حزبِ اختلاف غدار ہے۔ اس موقع پرسرکاری بنچوں کی جانب سے قومی یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا اور یکجہتی کے اظہار کے لیے سینیٹ کے اپوزیشن لیڈرکو نون لیگ نے سرکاری طور پر تصدیق شدہ غدار قراردیا۔ غداری کے اس سرٹیفیکیٹ پر قومی اسمبلی کے ''غیر جانبدار‘‘ سپیکر صاحب نے اپنی خامو شی کی پارلیمانی مہرِ تصدیق بھی ثبت کر ڈالی۔ قوم کی پارلیمانی تاریخ کے اس تاریخی یکجہتی اجلاس میں اپوزیشن صرف اور صرف اپنی بھرپور ''عزت افزائی‘‘ کروا سکی۔ نہ حکومت فارغ تھی کہ مودی کو دہشت گرد کہتی اور نہ ہی اپوزیشن کے پاس وقت تھا کہ وہ کشمیر میں بھارتی فوج کے جنگی جرائم کا ذکر فرما دیتے۔ باقی رہا کروڑوں روپے روزانہ کے خرچ سے برپا ہونے والا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تو اس میں کسی نے بھی کسی عالمی ادارے کے ذریعے کشمیر میں بھارتی فوج کے مسلسل انسانیت سوز جنگی جرائم کو اٹھانے کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں بتایا۔
جب کوئی بظاہر عزت دار شخص اپنی بھرپور بے عزتی کروانے کا فیصلہ کر لے تو ایسے موقع پر پوٹھوہاری وسیب میں پوٹھوہاری زبان کا ایک مشہور مقولہ بولتے ہیں۔ جس کا ترجمہ تقریباً یوں بنتا ہے۔۔۔۔ ''بھاری بھرکم شخصیت والے کہاں جا رہے ہو؟ جواب ملا ذر اہلکا ہو نے کے لیے‘‘۔ ہمارے سیاسی پنساریوں کی دکانوں پرہلکا، سبک یا بے توقیر ہونے کے اور بھی آزمودہ سیاسی نسخے پائے جاتے ہیں۔ مثلًا پاکستان کی پارلیمنٹ میں جس کسی کو حکومت تسلیم کر لے کہ اصلی (Genuine) اپوزیشن یہی ہے اور اسے بھاری سمجھ کر اپوزیشن کے سربراہ کی کرسی عطا کر دے۔ پاکستان کے لوگوں نے ایسی اپوزیشن کو سِرے سے کبھی حزبِ اختلاف مانا ہی نہیں۔ اس سلسلے کی ایک بہترین مثال مشرف دور سے ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ مشرف کی شرف یافتہ اسمبلی کے سپیکر بھی ایاز صادق کی طرح مکمل طور پر ''آزاد‘‘ اور غیر جانبدار ہواکرتے تھے۔ وہی ہمارے سیالکوٹ والے وکیل دوست۔ انہوں نے قائد حزبِ اختلاف کی کرسی کو ہم سب کے ساتھی مولانا فضل الرحمن کے ارد گرد رقصِ درویش کی ڈیوٹی پرفارم کرنے پر لگا دیا تھا۔ فارمولہ نہایت سلیس اور سادہ تھا۔۔۔۔ جیتوں تو تجھے پاؤں، ہاروں تو پیا تیری۔ مشرف دور میں اپوزیشن لیڈرکی کرسی پر مولانا صاحب بیٹھتے رہے، لیکن اپوزیشن لیڈر کا کردار پی پی پی پی کے سربراہ مرحوم مخدوم امین فہیم صاحب نے ادا کیا۔ مولانا کے پی کے کی حکومت میں سرکاری بنچوں پر براجمان تھے، لیکن خیرآباد کا پل کراس کرتے ہی وہ اپوزیشن لیڈر والا ڈبل رول ادا کرنا شروع کر دیتے۔ آج کل سرکاری طور پر تسلیم شدہ اپوزیشن کے بنچوںکا حال مشرف دورکی تسلیم شدہ اپوزیشن کے ''عین‘‘ مطابق ہے۔ تاریخ دانوں نے سچ کہہ رکھا ہے، تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی ہے، بلکہ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ سیاست کی تاریخ ایسی ہے جس سے کوئی بھی سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
جمعہ کے روز حالیہ سینیٹ اجلاس کا اختتامی دن تھا۔ مستعد رپورٹروں نے پارلیمنٹ کے دروازے پر مجھے گھیر لیا۔ سوال کئی تھے،کہنے لگے پوڈیم پر چل کر میڈیا ٹاک کر لیں۔ میڈ یا ٹاک میں پہلا سوال حسبِ توقع آیا۔ سوال تھا آپ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کی؟ جواب میں عرض کیا اگر میں بھی اجلاس میں شریک ہوتا تو زیادہ سے زیادہ کیا کر لیتا؟ یہی کر سکتا تھا کہ اٹھ کر کسی کو غدار کہہ دیتا اور جواب ِآں غزل میں وہ مجھے غدار ٹھہرا دیتے۔
لانگری بٹالین کے جو لوگ سمجھتے ہیں عمران نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س میں نہ جا کر جمہوری اداروں کو شدید نقصان پہنچایا ان کے حوالے سے بات آئی تو عرض کیا آپ جسے جمہوریت کہتے ہیں وہ ادنیٰ تر ین درجے کی خاندانی بادشاہت ہے۔ ایسی بادشاہت جوعالمی بادشاہوں کے ذریعے بھیک میں ملتی ہے۔ اسی لیے بیچاری عالمی سرپرستوںکو راضی کرنے میں پانچ سال گزار دیتی ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ جس جس ملک کے بینک ہمارے بادشاہوں کی دولت سے بھرے پڑے ہیں، جن کی سڑکوں پر منی لانڈرنگ سے بنائے گئے ٹاورایستادہ ہیں وہ عالمی پناہ گاہیں کوئی غیرت مند حکمران کیسے چھوڑ دے؟
قومی یکجہتی کے اس نادرموقع پریہ سرکاری بیان آیا ''ملکی سلامتی پر قوم کا بچہ بچہ قربان ہو جائے گا‘‘۔ رہے حکمرانوں کے بچے تو وہ اس وقت فارغ نہیں۔ آخر پاناما کا طوفان بھی تو کسی نے سنبھالنا ہے!
شریفانہ جمہوریت کے تیسرے راؤنڈکے تیسرے سال میں تین عدد کام ایسے ہوئے جو کمال سے بڑھ کر معجزے کی حد چھو رہے ہیں۔ لیکن ہیں تینوں آپس میں ملتے جلتے۔
پہلا، انڈیا کی طرف سے سرجیکل سٹرائیک۔ دوسرا، وزیراعظم صاحب کی اوپن ہارٹ سرجری۔ تیسرا، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی یکجہتی۔ان تینوں میں کوئی فرق نہیں۔رتی برابر بھی نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں سٹرائیک اوپن ہارٹ یکجہتی۔۔۔کب ہوئی؟ کہاں ہوئی؟ کیسے ہوئی؟ کچھ پتہ نہیں چل سکا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved