تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     10-10-2016

فیصلہ کن موڑ

آج قوم کو فیصلہ کن راہنمائی کی ضرورت ہے؟ کیا سیاسی اور فکری قیادت کو اس کا احساس ہے؟ کیا اہلِ دانش اور اہلِ سیاست کواپنی ذمہ داری کا اندازہ ہے؟
میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ ملک و قوم کے معاملات کو کسی فردِ واحد کے ساتھ محبت یا نفرت کی نظر سے دیکھوں۔ پروردگار وہ دن نہ دکھائے کہ ہم کرپشن یا کسی اخلاقی برائی کے وکیل بن جائیں۔ ہم سب کو اپنے پروردگار کے حضورمیں پیش ہونا ہے۔ وہاں باطن اور ظاہرکا فرق باقی نہیں رہنا۔ اس دن ہمارے اعضاگواہ بنیں گے۔ اس دن کی آمد اتنی ہی یقینی ہے جتنا یقینی آج کا دن ہے۔ اس احساس کے ساتھ مجھے اپنی بات کہنی چاہیے۔کسی کی ملامت کا اندیشہ، کسی الزام کا خوف۔۔۔۔مجھے ہر بات سے بلندتر ہو کروہ کچھ کہنا چاہیے جسے میں صحیح سمجھتا ہوں۔
میں یہ بات لکھ چکا کہ 30ستمبر کو عمران خان نے جو موقف اپنایا ہے،اس کے بعد پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں یہ موقف اور رویہ پہلے کبھی اختیارنہیں کیا گیا۔ اس میں صرف دو استثنا ہیں۔ ایک مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کا اور دوسرا سندھ میں پیپلزپارٹی کا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو اس کے جائز حق سے محروم کیا گیا۔ انتخابات میں کامیابی کے باوجود،اسے اقتدار منتقل نہیں کیا گیا۔ یہی نہیں، ریاست نے ان کی آواز کو طاقت سے دبانے کا فیصلہ کیا۔ عوامی لیگ نے موجود حکومت کو ماننے سے انکار کیا۔ اس کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکلا۔ ریاست بے بس ہو گئی۔ باقی سب تاریخ ہے۔
بھٹوصاحب کی پھانسی کے خلاف سندھ میں پیپلزپارٹی کے جیالوں کے جذبات مشتعل تھے۔ اے آر ڈی کی تحریک اٹھی توہنگامہ برپا ہوا۔ احتجاج بغاوت کی سرحدوں کو چھونے لگا۔ مشرقی پاکستان کے بر عکس، یہاں ریاست بروئے کار آئی۔ ہنگامہ ختم ہو گیا لیکن وفاق کے وجود پر ایک گہرا گھاؤ لگا۔ یہ آج تک مندمل نہیں ہو سکا۔ ان دونوں واقعات میں ایک مماثلت بھی ہے۔ دونوں مرتبہ ملک میں فوجی آمریت تھی۔ آئین اور بنیادی حقوق معطل تھے۔ میڈیا پر پابندیاں تھیں۔ عدالتیں بھی آزاد نہیں تھیں۔کسی کے پاس حکومت کے خلاف اپنی بات کہنے اور رائے عامہ ہموار کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس جبرکو لاقانونیت کے خلاف کوئی چاہے تو جواز بنا سکتا ہے۔ اس کے باوجود ان واقعات کا نتیجہ ایک ہی ہے۔ جب لوگ قانون ہاتھ میں لیتے اور ریاست کے نظام کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو پھر فساد جنم لیتا ہے۔ قرآن مجید فساد کو قتل سے بڑا جرم قرار دیتا ہے۔ عمران خان کے موقف سے اگر کسی کو سو فیصد اتفاق ہو، تو بھی وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ان کی حکمتِ عملی کا لازمی نتیجہ فساد اور خانہ جنگی ہے۔
آج ملک میں پھر اُسی طرح کی صورت حال جنم لے رہی ہے۔ مو جودہ وزیراعظم کو کرپٹ مان بھی لیا جائے، تو بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ منتخب وزیراعظم ہیں اور انہیں ملک کے ایک بڑے طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ پھر ملک میں مارشل لا ہے نہ آزادی رائے پر کوئی پابندی۔ اس فضا میں ہر سیاسی جماعت کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنا مقدمہ عوام کے سامنے رکھے۔ عوام اگر اس کی رائے سے اتفاق کر لیں تو پھر اس کو اقتدارکا حق دے سکتے ہیں۔ عمران خان کا موقف یہ ہے کہ ادارے انصاف نہیں کر سکتے۔ اس لیے انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ حکومت کو معطل کردیں گے۔ میں پچھلے کالم میں لکھ چکا کہ اس کا ناگزیر نتیجہ عوام کے ایک طبقے اور ریاست کے مابین تصادم اور خانہ جنگی ہے۔
عمران خان کی تائید کا مطلب ملک کو فساد کے حوالے کرنا ہے۔ میں یہ بھی لکھ چکا کہ یہ انقلابی جد وجہد کا لائحہ عمل ہے اور ایسی جدوجہد میں پہلے ہی دن سے طے ہوتا ہے کہ کسی حکومت اور آئین کو نہیں ماننا۔اس میں یہ بھی طے ہو تا ہے کہ جان دینی بھی ہے اور لینی بھی ہے۔ انقلاب میں لوگ مرنے اور مارنے کا جذبہ لے کر نکلتے ہیں۔ شیخ رشید نے بھی رائے ونڈ کے جلسے میں یہی کہا کہ تبدیلی کے لیے خون بہانا ضروری ہے۔ عمران خان کہہ چکے کہ وہ نوازشریف کو وزیراعظم نہیں مانتے۔ اس کو وہ اپنی ذات تک محدود نہیں کر رہے، وہ عوام کو بھی بغاوت پر ابھار رہے ہیں۔ میں پورے شرحِ صدر کے ساتھ کہتا ہوںکہ آئین اوراس موقف کی تائید، ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ 
اس موقف کا عقلی تجزیہ کیا جائے تو بھی واضح ہے کہ اس سے وہ نتیجہ کسی طرح نہیں نکل سکتا جو عمران خان نکالنا چاہتے ہیں۔ سادہ سوال ہے: حکومت کو معطل کرنے کے بعد کرپشن کا خاتمہ کیسے ہوگا؟ صرف دوصورتیں ممکن ہیں: اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں نوازشریف کی حکومت باقی رہے گی یا نہیں؟ اگر باقی رہے گی تو اس ہنگامے کا فائدہ؟ اگر نہیں رہے گی تو اس کا واحد عملی متبادل مارشل لا ہے۔ اس سے ملک اور عمران خان کو کیا ملے گا؟ ملک کو ہر صورت میں آئین کی طرف لوٹنا ہے اور تبدیلی کا آئینی راستہ انتخابات ہیں۔
ہیجان اور رومان میں پہلا قتل عقل کا ہوتا ہے۔ یہ دونوں کیفیتیں انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کومعطل کردیتی ہیں۔ رومان میں لڑکی اور لڑکا یہی سمجھتے ہیں کہ گھر سے بھاگ جائیں گے تو سماج کی بندشوں سے آزاد ہو جائیں گے۔ اس کے بعد ایک من پسند زندگی ان کی منتظر ہو گی۔ یہ بھاگنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ سماج صرف گھر کا نام نہیں۔ وہ جتنا بھاگنا چاہیں بھاگ لیں، سماج سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے۔
عمران خان نے اسی ہیجان اور رومان کو کامیابی سے استعمال کرتے ہوئے، اپنے حامیوں کے سوچنے کی صلاحیت معطل کر دی ہے۔ اب کوئی ان کی مخالف کرے تو اس کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ مخالفت کرنے والا نوازشریف کے ہاتھوں بکا ہوا ہے۔ یا تنقیدکا صرف ایک مطلب ہے: کرپشن کی تائید۔ یوں تنقید کو غور و فکر سے پہلے ہی مسترد کر دیا جاتا ہے۔ یہ کام اس سے پہلے سوشلزم اور اسلام کے نام پر ہو چکا۔ جو سوشلزم کی مخالفت کرتا تھا، اس کے بارے میں سوشلزم کے حامی سمجھتے تھے کہ وہ استعمارکا ایجنٹ ہے۔ جو اسلامی انقلاب کے نعرے پر تنقید کرتا تھا، اس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ لادین ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ کوئی عالمِ دین ہی کیوں نہ ہو۔
اس ملک کی سیاست اور دانش کا امتحان یہ ہے کہ پاکستان کو اس صورتِ حال سے کیسے نکا لا جائے۔ اس باب میں میری دو تجاویز ہیں:
1۔ مجیب الرحمن شامی صاحب، الطاف حسن قریشی صاحب، ارشاد احمد عارف صاحب، ہارون الرشید صاحب اور عطاالرحمن صاحب جیسے سینئر اہل صحافت پر مشتمل ایک وفد ترتیب دیا جائے جو عمران خان، وزیراعظم، بلاول بھٹو، سراج الحق، مو لانا فضل الرحمٰن اوردیگر اہلِ سیاست سے ملے اور اہلِ سیاست کے مابین دو امور پر اتفاقِ رائے پیدا کرے۔ ایک یہ کہ کوئی ایسی سیاسی حکمتِ عملی اختیار نہیں کی جائے گی جو آئین سے ماورا ہو اور جس کا انجام فساد ہو۔ دوسرا یہ کہ احتساب کا ایک ایسا ادارہ تشکیل دیا جائے گا جو پاناما سمیت کرپشن کی جملہ صورتوں کو ختم کرنے اور الزامات کی چھان بین کے لیے ایک سریع الحرکت لائحہ عمل ترتیب دے گا، جس میں یہ لازم ہوگا کہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے پاناما اور قرضوں کی ناجائز معافی سمیت کرپشن کی تمام صورتوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
2۔ سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور اس پر اتفاقِ رائے کا اعلان کریںکہ وہ آئین سے ماورا کسی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گی، چاہے اس کی کوشش کسی سیاسی قوت کی طرف سے ہو یا غیر سیاسی ادارے کی طرف سے۔ 
کوئی چاہے تو اس سے بہتر تجاویز بھی سامنے لا سکتا ہے۔ میرا اصرار صرف اس پر ہے کہ 30 ستمبر کے بعدہم ایک نئے دور میں داخل ہو چکے۔ یہ غیر معمولی صورتِ حال ہے۔اب اہلِ دانش اوراہلِ سیاست کو اپنی ذمہ داری ادا کر نا ہوگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved