تحریر : آغا مسعود حسین تاریخ اشاعت     10-10-2016

پاکستان ایران تعلقات‘ ایک جائزہ

بھارت کا انتہاپسند اور مسلمان دشمن وزیراعظم مسلسل اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ کسی طرح پاکستان کو تنہا کردیا جائے اورپاکستان کو ہی دہشت گردی کو پھیلانے کا ذمہ دار بھی قرار دیا جائے،لیکن مودی کی یہ خواہش زمینی حقائق کے بر عکس ہے، وہ پاکستان کے خلاف جتنا بھی پروپیگنڈا کرے، دنیا جانتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے علاوہ عالمی سطح پر پاکستان کی کیا اہمیت ہے۔ پاکستان نہ پہلے کبھی تنہا ہوا تھااور نہ آئندہ ہوگا۔ یہ دوسری بات ہے کہ پاکستان کا بھارت کی طرف سے پاکستان کے اندر کی جانے والی دہشت گردی سے متعلق پروپیگنڈا خاصا کمزور اور نحیف ہے، اس کی تازہ مثال اقوام متحدہ میں ہماری طرف سے تقریر سے اخذ کی جاسکتی ہے، جس میں بھارت کی پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں اور ملک کے اندر دہشت گردی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت کے ایجنٹ کی بلوچستان اور کراچی میں ہلاکت خیز دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ذکر نہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ بھارت کا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا عالمی سطح پر توجہ کا باعث بنتا جارہاہے اور ہم معذرت خواہانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں، اگر ملک کی سیاسی قیادت اپنے تجارتی مفادات کو بچانے کے لئے بھارت نواز رویہ اختیار کررہی ہے، تواس کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں، اور ہماری کوتاہیاں بھی!
تاہم پاکستان کو تنہا کردینے کی بھارت کی دھمکی کے پیش نظر ہمیں اپنے جنوبی پڑوسی ایران کے ساتھ تعلقات میں استحکام لانا ہوگا، ایران کے یقینا بھارت کے ساتھ مناسب تعلقات ہیں، لیکن ایران پاکستان کا دشمن نہیں ہے، ایران اور پاکستان کے درمیان سیاسی ، معاشی اور مذہبی تعلقات صدیوں پر محیط ہیں ، ان تعلقات کو قائم اور زندہ رکھنا پاکستان کا فرض ہے، پاکستان کے اندر بعض فرقہ پرست تنظیمیں ایران اور پاکستان کے درمیان باہمی تعلقات میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ان تنظیموں کو باہر سے مالی امداد بھی ملتی ہے، بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کے پُر امن لوگوں کو جن عناصر نے بڑی بے رحمی سے قتل کیا تھا، اس سے متعلق حقائق پاکستان کے عوام کے سامنے آگئے ہیں، اور ان کی تادیب بھی کی جارہی ہے، ہزارہ کمیونٹی کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ عوام میں سے ہیں، جبکہ ایران کے ساتھ ان کے مذہبی اور تجارتی روابط بھی ہیں، جو فرقہ پرست تنظیموں کو بہت ناگوار گزرتے ہیں ان فرقہ پرست تنظیموں نے جان بوجھ کر پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ کامیاب نہیں ہوسکے اور یہ بھی حقیقت اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ ماضی میں ایران اور پاکستان کی افغانستان سے متعلق پالیسیاں مختلف تھیں اور کسی حد تک اب بھی ہیں، بھارتی ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی ایران کے اندر بیٹھ کر پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں کی وجہ سے بھی تعلقات میں بہت بڑا فرق آیا تھا، لیکن ایرانی حکومت نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کرانے کے 
بعد کہ وہ اس سلسلے میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کریں گے، اس کا اچھا اثر ہوا ہے، مزید برآں ایران کے صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ میں وزیراعظم پاکستان سے اپنی ملاقات میں سی پیک میںشمولیت کا اظہار کیا ہے، نیز انہوںنے واشگاف انداز میں یہ بھی کہا ہے کہ گوادر اور چاہ بہار کی بندرگاہیں ایک دوسرے کے لئے کمپلی منٹری حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایران اور پاکستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی شروع ہوچکاہے، پاکستانی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران نے اپنے حصے کی گیس پائپ لائن تعمیر کرلی ہے، اب پاکستان نے اس کی ابتدا کردی ہے، جیسا کہ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں اس کا انکشاف کیاہے، ماضی میں امریکہ نے پاکستان کی حکومت پر ایران پاکستان گیس پائپ لائن سے متعلق بہت دبائو ڈالا تھا ، جس کی وجہ سے پاکستان اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر نہیں کرسکا تھا، لیکن موجودہ حالات میں امریکہ کی طرف سے ایسا دبائو نظر نہیں آرہاہے، بلکہ خود امریکہ نے ایران کے ساتھ اس کے ایٹمی پروگرام سے متعلق سمجھوتہ کرکے ایران کے لئے بیرونی دنیا سے روابط کے دروازے کھول دیئے ہیں، اور بہت حد تک ایران کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیوں کو بھی ہٹالیا ہے، اس طرح سی پیک میں ایران کی جانب سے شمولیت اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن کی پاکستان کی جانب سے تعمیر کا آغاز جہاں ان دونوں ملکوں کے مابین غلط فہمیوں کے دور ہونے کا سبب بن رہا ہے، وہیں ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نئی جہت سامنے آرہی ہے، گوادر کے مجوزہ صنعتی زون میں ایران ایک جدید آئل ریفائنری قائم کرنے کا پہلے ہی عندیہ دے چکا ہے، ایران بلوچستان کے بعض علاقوں کو 100میگاواٹ بجلی نہایت ہی سستے نرخوں میں دے رہاہے، پاکستان کی حکومت ایران سے آئندہ 1000میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے، اس وقت ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم 1.32بلین یو ایس ڈالر کے قریب ہے ، لیکن جلد ہی تجارت کا حجم 5بلین یو ایس ڈالر کے قریب پہنچ جائے گا، ایران اور پاکستان 
کے درمیان تجارت کی بہترین سہولت سڑک اور ریلوے سے منسلک ہے ، ریلوے کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے، جس کی دونوں ملکوں کی جانب سے کوشش ہورہی ہیں، بلوچستان کی صوبائی حکومت کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ایران پاکستان سے ٹیکسٹائل کی مصنوعات کے علاوہ سرجیکل آئٹمز، کھیلوں کا سامان ، چاول، کینو، آم درآمد کرنے میں دلچسپی رکھتاہے، پاکستان کا بناسپتی چاول ایران میں بہت زیادہ پسند کیا جاتاہے، ایران کے پاس ڈیم ، ریلوے لائن، پل اور سڑکوں کی تعمیر کا گہرا تجربہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ہنرمند افراد کی کوئی کمی نہیںہے، چنانچہ حکومت پاکستان کے پالیسی سازوں کو ایران کے ساتھ اقتصادی ومعاشی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لئے نئی سوچ پیدا کرنی ہوگی ۔محض یہ سوچ کر ایران کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ،ہمیں اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر ایران کی طرف مضبوط قدموں سے پیش رفت کرنی چاہئے، ایران ایک مسلمان ملک ہے جو پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا سوچ بھی نہیں سکتا، عالمی امور کے ماہرین کا یہ قول درست ہے کہ قوموں کے مابین نہ دوستی مستقل ہوتی ہے اور نہ ہی دشمنی ، صرف مفادات مستقل ہوتے ہیں، ایران اور پاکستان کا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے، بھارت تمام تر کوششوں کے باوجود ان تعلقات کو کبھی بھی ختم نہیں کرسکتا ہے، خود بھارت کو اس حقیقت کا احساس اور ادراک ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved