تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-10-2016

سُرخیاں‘ متن اور ٹوٹے

راہداری منصوبے سے ترقی کے
راستے کھلیں گے : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''راہداری منصوبے سے ترقی کے راستے کھلیں گے اور بجلی سستی ہو گی‘‘ اگرچہ صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے اس پر شدید تحفظات ہیں اور اسے پنجاب چین منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا پنجاب پاکستان کا حصہ نہیں ہے اور کیا پنجاب کی ترقی سے ملک کی ترقی نہیں ہو گی۔ ہیں جی؟ یہ اگر صوبے چھوٹے ہیں تو انہیں کم از کم دل تو بڑا کرنا چاہیے اور ایک خاندان اگر دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے تو کیا یہ پوری قوم کی ترقی نہیں کیونکہ ترقی ہر جگہ مرحلہ وار ہی آتی ہے مثلاً جب ہمارا ٹارگٹ پورا ہو گیا تو تاجر برادری کی باری آئے گی اور اس کے بعد رفتہ رفتہ عوام بھی ترقی کر جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''معیشت درست سمت پر گامزن اور ترقی کر رہی ہے‘‘ اور ریلوے‘ موٹروے کو گروی رکھا جا رہا ہے تاکہ ملک کو کوئی فائدہ پہنچے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
30 اکتوبر کو اسلام آباد کسی صورت بند
نہیں ہو گا : سردار ایاز صادق
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ ''30 اکتوبر کو اسلام آباد کسی صورت بند نہیں ہو گا‘‘ اور اگر ہوا بھی تو اس کی اور وجوہات ہونگی‘ عمران خان نہیں۔ مثلاً وہ اتوار کا دن ہو گا اور دفاتر‘ تعلیمی ادارے وغیرہ ویسے ہی بند ہوں گے اور ٹرانسپورٹ وغیرہ ویسے ہی گاڑیاں بند کر کے تماشہ دیکھیں گے کیونکہ عمران خان کے جلسے کو ایک تماشے سے زیادہ کی حیثیت حاصل نہیں ہے‘ جو لوگ گھروں کی چھت سے بھی دیکھیں گے کیونکہ سڑکوں پر تو رش کی وجہ سے گنجائش ہی باقی نہیں رہی ہو گی اور عمران خان اس شکست پر شرمندہ ہوتے رہیں گے اور آئندہ ایسا کرنے سے توبہ کر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہونگے کہ ع
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
انہوں نے کہا کہ ''اسمبلی میں کسی رکن کا منہ بند نہیں کر سکتے‘‘ البتہ مائیک بند کر دینے کا آپشن موجود رہتا ہے۔ آپ اگلے روز کوئین میری کالج کے نئے بلاک کا افتتاح کر رہے تھے۔
صاف حکومت‘ گنداپانی
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق آبی آلودگی کے خاتمے کا کوئی منصوبہ شروع نہ ہو سکا اور شہری مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور‘ شیخوپورہ‘ گوجرانوالہ ‘قصور اور دیگر شہروں سے اکٹھے کئے جانے والے پانی کے نمونوں میں آرسینک (زہریلا مواد) موجود ہے جبکہ مختلف مقامات کے 280 نمونوں میں سے 180 مضر صحت قرار پائے۔ کہا گیا ہے کہ محکمہ ماحولیات کی استعداد کار کم ہونے سے پنجاب میں آبی آلودگی کے منصوبے شروع نہ کئے جا سکے جبکہ شہری و صنعتی فضلے اور دیگر عوامل سے نہروں اور دریائوں کا پانی بھی آلودہ ہو رہا ہے۔
اس رپورٹ میں پانی کے پائپوں میں گٹروں والے پانی کی آمیزش والا معاملہ شامل نہیں ہے۔ یہ حکومتی ترجیحات کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے جبکہ دوسرے محکموں مثلاً صحت اور تعلیم کے شعبوں پر حکومت کی توجہ کی کہانیاں آئے دن الگ سے اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں‘ جبکہ حکومت کا خیال ہے کہ جو لوگ اس آلودہ پانی سے بچ رہیں گے انہیں اورنج لائن ٹرین کی سہولت تو بہرحال حاصل ہو جائے گی جو بعد میں آہستہ آہستہ اپنے انجام کو پہنچتے رہیں گے۔
ای او بی آئی کی صورتحال
اسلام آباد سے ایک رپورٹ کے مطابق آڈیٹرز نے اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور خوربرد کے ضمن میں 71 بلین روپے کا حشر نشر ہونے کا سراغ لگایا ہے۔ اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ یہ روزمرہ کا معاملہ ہے اور آئے دن کرپشن کی جوداستانیں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ ایسی اطلاعات پر حکومت پر نہ تو کوئی اثر پڑتا ہے نہ اس کے لیے باعث تشویش ہوتے ہیں اور نہ ہی ایسے کسی معاملے کی وضاحت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے گویا وہ اسے کوئی مسئلہ ہی نہیں گردانتی اس لیے وہ اپنی کرپشن بلکہ میگا کرپشن کو پرکاہ کی اہمیت بھی دینے کو تیار نہیں ہے ورنہ حکومت اگر خود گوڈے گوڈے کرپشن میں دھنسی ہوئی نہ ہو تو اس کے ماتحت افسر اس قدر بے خوفی کے ساتھ اس کے کیسے مرتکب ہو سکتے ہیں جبکہ وہ بھی حکمرانوں کی سنت پر ہی عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ 
پارلیمنٹ میں پیش کی گئی رپورٹس برائے تحقیقات 
ماضی کے سراسر برعکس اس بار آڈیٹر جنرل کی طرف سے پارلیمنٹ میں سکروٹنی کے لیے جو رپورٹس پیش کی گئی ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے جبکہ کم رپورٹس کا مطلب کم پیرے ہیں جو کہ حکومت کے حق میں جاتا ہے۔ یہ رپورٹس سکروٹنی کے لیے پبلک اکائونٹس کمیٹی میں پیش کی جائیں گی۔ کرپشن اور دیگر بے ضابطگیوں اور ناجوازیوں کو چھپانے کا ہی ایک طریقہ ہے جو مبینہ طور پر آڈیٹر جنرل نے اپنا کھایا ہوا نمک حلال کرنے کے لیے آزمایا ہے۔ یہ تو خیر رپورٹس یعنی پیرے ہیں جو حکومت کو فائدہ پہنچا سکتے اور قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہیں‘ یہاں تو یہ بھی ہو رہا ہے کہ وزیراعظم کے حکم پر تحقیقات کرنے کے لیے کمیٹیاں مقرر کی جاتی ہیں اور وہ اپنی تحقیقات کے بعد کرپشن کے ثبوتوں کے ساتھ اپنی رپورٹس بھی پیش کر دیتی ہیں مگر ان پر کسی بھی طرح کی کارروائی نہیں ہوتی اور وہ بیورو کریسی کے درازوں میں ہمیشہ کے لیے بند کر دی جاتی ہیں۔ (کر لو جو کرنا) 
آج کا مقطع
دیواں ہی اپنے نام سے چھپوا دیا ظفرؔ
اے سینہ زور کیا کوئی ایسا بھی چور ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved