سپریم کورٹ بار بارکہہ رہی ہے کہ مردم شماری کے بغیر نئے انتخابات نہیں ہو سکتے۔ انتہائی معزز سپریم کورٹ سے گزارش ہے کہ مردم شماری کا حکم دیتے وقت وہ اس میں''اصلی‘‘کا لفظ بھی شامل کرے اور اگر وہ اس کی شفافیت کی نگرانی کرے تو یہ اس ملک پر بہت بڑا احسان ہو گا۔ جعلی ڈگریوں، جعلی کاغذات اور جعلی انتخابات کے قصے تو سپریم کورٹ سمیت سب نے دیکھ اور سن رکھے ہیں، لیکن ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے کہ یہاں جعلی مردم شماریاں نہ صرف کرائی گئیں بلکہ اس جرم کا مرتکب گروہ ہر بار جعل سازی سے کرائی جانے والی مردم شماری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ نہیں سوچتا کہ وہ جس ملک میں مزے لوٹ رہا ہے، اپنے پورے خاندان اور حاشیہ نشینوں کو عیاشیاں کرا رہا ہے، جعل سازی سے اسی ملک وقوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ بد قسمتی سے یہ سب فراڈ اور دھوکے جمہوریت کے نام پر کئے گئے۔۔۔اس جمہوریت کے نام پر جس کی محبت میں ایثار و قربانی کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ جعلی ڈگری اور دستاویز سے کوئی ایک فرد ملازمت یاگھر حا صل کر لیتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک جعلی مردم شماری سے لاکھوں لوگ ملازمت کے حصول یا رہائشی سہولت سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے وزراء کو اکثر یہ کہتے ہوئے سناہے کہ 2005 ء میں جنرل مشرف کی مدد سے حیدر آباد کو چار اضلاع میں تقسیم کر وا کر ایک لسانی گروہ کو سیا سی فائدہ پہنچایا گیا، لیکن کیا پیپلز پارٹی نے کبھی یہ بھی سوچاکہ اپنے پہلے اقتدار سے اب تک سندھ کی شہری آبادی کے ساتھ اس کے سوتیلے پن کی وجہ کیا ہے؟ پیپلز پارٹی شاید بھول چکی ہے کہ 1972ء کی مردم شماری میں اس نے کس وسیع پیمانے پر جعل سازی کرتے ہوئے سندھ کی شہری آبادیوں کے لئے انتخابی نشستیں کم کرائیں؟کیا ان کا یہ فعل مجرمانہ نہیں؟ کیا یہ سندھ سے تعلق رکھنے والوں کے حقوق پر ڈاکہ نہیں؟ پانی، بجلی، صحت عامہ، تعلیم، ترقیاتی فنڈز اور روزگار کی فراہمی جیسے وسائل کی منصفانہ تقسیم کو اس جعلی مردم شماری کے باعث کس قدر نقصان ہوا؟ سابق ہوم سیکرٹری سندھ محمد خان جونیجو کا تحریری بیان آج بھی سرکاری ریکارڈ میں موجود ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیاکہ 1972ء کی مردم شماری میںکراچی کی آبادی65 لاکھ تھی جسے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حکم سے 35 لاکھ کر دیا گیا تاکہ کراچی سے صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستیں کم ہوں۔ اس جعل سازی کی بنیاد پر کراچی کی پینتیس لاکھ ظاہر کی گئی آبادی کے لیے قومی اسمبلی کی13اورصوبائی اسمبلی کی25 نشستیں مختص کی گئیں۔ اگر اس کی اصل آبادی 65 لاکھ مان لی جاتی تو اس کی قومی اسمبلی کی21 اور صوبائی اسمبلی کی45 نشستیں مختص ہوتیں۔
آج خور شید شاہ اور نثار کھوڑو فرماتے ہیںکہ 2005ء کے بعد سے حیدر آباد کو جو شکل دی گئی اس سے پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچا ہے، وہ یہ بھی تو بتائیں کہ 1972ء سے 2005ء تک کے عرصے میں مردم شماری کے اعداد وشمار میں کرائی گئی جعل سازی سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوا؟ اگر سندھ کے کسی حصے کو اس جعل سازی سے نقصان ہوا ہے تو اس کی سزا کس کو دی جانی چاہئے؟ افسوس ہے کہ1981ء کی مردم شماری میں جس کا اعلان اگست 1973ء میں ہوا، 1972ء کی مردم شماری کو ہی بنیاد بنا کر محض خانہ پری کی گئی۔ اقوام متحدہ کے اصولوں اور پاکستان پلاننگ کمیشن کی رپورٹوں کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی دیہی آبادی تیس سے پینتیس فیصد اور شہری آبادی میںساٹھ سے ستر فیصد اضافہ ہوتا ہے لیکن1972ء میں پیپلز پارٹی کی مردم شماری میں بدین کی آبادی میں 364 فیصد ،دادو کی آبادی میں148فیصد، ہالہ کی آبادی میں99 فیصد، ٹھٹھہ کی آبادی میں70فیصد اور ٹنڈو محمد خان کی آبادی میں72 فیصد اضافہ دکھا کر بین الاقوامی ریکارڈ توڑ دیئے گئے۔ غلط اور جعلی اعداد و شمار دے کر سکھر، شکار پور، جیکب آباد، نواب شاہ، خیر پور، لاڑکانہ ،بدین، تھر پارکر، دادو، سانگھڑ اور ٹھٹھہ کی قومی اور صوبائی نشستوں میں اضافہ کرایا گیا۔ اگر مردم شماری میں یہ جعل سازی نہ کی جاتی تو اس وقت اندرون سندھ قومی اسمبلی کی33 کی بجائے25 اور صوبائی اسمبلی کی72 کی بجائے55 نشستیں ہونی چاہیے تھیں۔ اس طرح کراچی میں قومی اسمبلی کی8 اور صوبائی اسمبلی کی17نشستوں کا اضافہ ہو جاتا جس سے طاقت کا توازن ان کے ہاتھ سے نکل جاتا۔ درحقیقت یہ وہ نشستیں ہیں جن پر کراچی اور حیدر آبادکا حق تھا۔
1981ء کی مردم شما ری میں سکھر ڈویژن کی آبادی65 لاکھ اور کراچی کی آبادی53 لاکھ ظاہر کرتے ہوئے ایک بار پھر کراچی والوں کے ساتھ ہاتھ کیا گیا۔ حکومت نے جو کوٹہ سسٹم نافذ کیا تھا اس میں ساٹھ فیصد دیہی آبادی کے مفروضے کی بنیاد پر وسائل کو مختص کرتے ہوئے کراچی کے شہریوں کو 20 فیصد سے زیادہ کا حق نہیں دیا گیا۔ اگر اس وقت مردم شماری کے اعداد و شمار اصلی ہوتے تو شہری آبادی کے لئے ساٹھ فیصد ملازمتیں اور ساٹھ فیصد ترقیاتی وسائل مہیا ہوتے جس سے پانی سمیت کراچی کی صحت و صفائی کی وہ صورت حال نہ بنتی جو آج سب کو پریشان کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت کراچی کے شہریوں سے مذہب کے نام ووٹ لینے والے تو تھے لیکن ان کو حقوق دلانے والا،ان کے لئے آواز اٹھانے والا اور ان کی خاطر جیل جانے والا کوئی نہیں تھا۔
پیپلز پارٹی کو2005ء سے2010ء تک حیدر آباد کو چار اضلاع میں تقسیم کرنے کا جو دکھ تھا اس کا''ازالہ‘‘ کرنے کی کوششیں تو جاری ہیں، لیکن 1972ء سے اب تک جعلی مردم شما ری کی وجہ سے قومی اور صوبائی نشستوں کی بنیاد پر پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی ہب کو پہنچنے والے نقصان کو کون پورا کرے گا؟ اس جعل سازی سے حاصل کئے گئے اقتدار کا حساب کون دے گا؟1981ء کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی میں دس سالہ اضافہ 45.18 فیصد دکھایا گیا جبکہ گوجرانوالہ میں اضافہ 84.26 فیصد اور پشاور میں 103.30 فیصد دکھایا گیا؛ حالانکہ کراچی کے مقابلے میں یہ شہر صنعت و تجارت، سیر و سیاحت، ملازمت اور روزگارکے معاملے میں چھوٹے مراکز ہیں۔
1985ء کے انتخابات میں 1972ء کی مردم شماری کو ملحوظ رکھتے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں مختص کی گئی تھیں؛ حالانکہ آئین کے تحت1981ء کی مردم شماری کو ملحوظ رکھتے ہوئے نشستیں مختص کی جانی چاہئے تھیں۔ پیپلز پارٹی کے ہاتھوں مردم شماری کی جادوگری سے کراچی ڈویژن تیس سال تک اپنی سیاسی حیثیت حاصل نہ کر سکا۔ ایسا نہ کر کے کراچی کی شہری آبادی کو60 فیصد ملازمتوںاور60 فیصد ترقیاتی وسائل سے محروم رکھا گیا۔ یہ جرم کس نے کیا اور اس کا حساب کون دے گا؟ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈی جی رینجرز نے دو ماہ قبل ایک اجلاس میں کوٹہ سسٹم کو ختم کرتے ہوئے اس کے لئے کوئی مناسب اور بہتر طریقہ اختیار کرنے پر زور دیا تھا تاکہ سندھ کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھنے والوں کے احساس محرومی کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔ اگر مردم شماری کو صاف و شفاف طریقے سے کرایا گیا تو بلا شبہ آصف علی زرداری کے ہاتھ سے سندھ کارڈ نکل جائے گا!