تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-10-2016

پنجاب رنگ

تتیاں چھاواں
یہ پروفیسر حسن عسکری کاظمی کا مجموعۂ کلام ہے جسے گلشن ادب پبلی کیشنز آئوٹ فال روڈ نے چھاپا اور قیمت 300روپے رکھی ہے۔ پس سرورق درج تفصیل کے مطابق شاعر کے 17شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ پنجابی میں یہ ان کا دوسرا مجموعہ ہے۔کتاب کا انتساب پیر گجراتی فضل کے نام ہے۔ ہمارے ہاں پنجابی شاعری کی روایت کو اچھی طرح پنپنے کا موقع نہیں ملا اور بالعموم یہ خاصی پسماندگی کا شکار ہے جبکہ زبان اور اس کی ترویج و ترقی کو بُری طرح نظر انداز کیا گیا ہے جس میں حکومتوں اور بیورو کریسی کے ساتھ قصور ہم پنجابیوں کا بھی ہے جو اپنی مادری زبان کی ملکیت کے حوالے سے بھی کوئی خاص پرجوش نہیں ہیں بلکہ ہم میں سے بیشتر لوگ اردو کو پنجابی ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل قرار دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں حالانکہ پنجابی ایک الگ تھلگ قدیم اور اردو سے کہیں بڑی زبان ہے۔
کاظمی صاحب نے اپنی افتادِ طبع کے باعث اپنی اردو شاعری کو بھی جدّت کی ہوا نہیں لگنے دی اور وہ اسی لیے اس شعبے میں کوئی امتیاز حاصل نہیں کر سکے اور زبان کے ساتھ ہماری الفاضی اور لاپروائی ہی نے یہ صورت حال پیدا کی ہے جبکہ بھارتی پنجاب میں اس نے اپنا رنگ خوب جمایا ہے اور وہاں کی شاعری میں انقلاب اور انحراف کا عنصر بے حد نمایاں صورت اختیار کر گیا ہے جبکہ ہمارے ہاں ایسے شعراء کی تعداد اُنگلیوں پر گنی جا سکتی ہے جنہوں نے پنجابی شاعری کو ایک عمومی یبوست زدگی سے نکال کر اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں نظمیں بھی ہیں اور غزلیں بھی۔ ایک غزل بطور نمونہ مشتے از خروارے پیش ہے۔
ایتھے سودے ہون‘ ضمیراں دے
مُل پیندے ایتھے ہیراں دے 
تیرا اکھّ بھڑولا خالی اے
نئیں بھرنا باجھ فقیراں دے
اک بھیت نہ کُھلیا جگ اندر
ہتھاں اچ کھینو لیراں دے
ایہہ کھیڈ کھلارا دنیا دا
کجھ رولے نیں تقدیراں دے
توں رُکھی سُکھی کھانی اے
اج بہہ جا سنگ فقیراں دے
ایہہ دُنیا آنی جانی اے
کُل سفنے نے تصویراں دے
گل ٹُردی ایتھے رُک جاندی 
جے واہ پئے بے پیراں دے
پروفیسر صاحب16اکتوبر 1931کو پیدا ہوئے تعلیم ایم اے اردو‘ ملازمت کے سلسلے میں افسر تعلقات عامہ محکمہ ترقی دیہات وغیرہ اورصدر شعبہ اردو گورنمنٹ کالج باغبانپورہ اور متعدد اعزازات بھی پائے۔ جو کچھ ایسے قابل ذکر نہیں۔اس کتاب کے دیباچے پروفیسر عاشق رحیل اور محمد عباس مرزا نے لکھے اور پیش لفظ خود مصنف نے۔
بولیاں
بولیاں پنجابی کی ایک معروف اور مقبول صنفِ سخن ہے۔ ان کی بیشتر تعداد کلاسیکی ہونے کی وجہ سے اکثر بولیوں کے خالق نامعلوم ہیں بولیاں زندگی سے اس قدر قریب اور بھر پور ہیں کہ کوئی بھی دوسری ... ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے‘ کچھ بولیاں جو مجھے یاد ہیں‘ پیش خدمت ہیں۔
کوٹھے کوٹھے آ لچھیے
تینوں بنتو دا یار وکھاواں
تانگہ آ گیا کچہریوں خالی
سجناں نوں قید بول گئی
گُھٹ گُھٹ پا جپھیاں
تیری نکلے ہڈاں دی گرمی
تیری ہک تے ملائیاں آئیاں
نی کچّا دودھ پین والیے
اکھ مار کے چرھی وچ وڑگئی
ایڈا کی جرُوری کم سی
سانوں مسیاچ پین بھلیکھے
تیری وے سندھوری پگ دے
کھنگھ کے نہ لنگھ منڈیا
میری سس وہماں دی ماری
تیری ہِک تے آہلنا پایا
نی جانگلی کبُوتر نے
تازہ اور خوشی کی خبر یہ ہے کہ شاعرہ‘ کالم نویس‘ ہماری دوست اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر (بلاک) کی ڈائریکٹر ڈاکٹر صغریٰ صدف کی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر ترقی ہو گئی ہے۔ ان کے چاہنے والوں کی طرف سے ڈھیر ساری مُبارک باد!
اَج دا مقطع
کلّیاں بَیہ کے کھاندا
ظفرا یار کریلے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved