تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     12-10-2016

ایک ٹی وی سے باہر‘ ایک ملک کے اندر

جنگوں میں عجیب و غریب واقعات ہوتے ہیں۔ ادھر پاکستان اور بھارت جنگی تیاریاں کر رہے تھے‘ ادھر پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی ہمارے شاہی محل کے گھریلو ماحول میں ‘غیرسفارتی طرزپر پرتکلف دعوتیں تناول فرما رہے تھے۔ لیکن دعوتیں ہمارے وزیراعظم کی طرف سے کی گئیں۔پہلی دعوت مودی صاحب نے وزیراعظم بننے کی خوشی میں مختلف ریاستی سربراہوں کو اپنے ملک میں دی تھی لیکن بنیا ‘بنیا ہوتا ہے‘ اس نے وزیراعظم بننے کی خوشی میں متعدد سربراہان مملکت کو جشن میں شریک کرنے کے لئے دِلّی بلایا۔ اس رش میں ہمارے وزیراعظم کو بھی یاد کر لیا گیا۔ حکمرانوں کی خاطرداری کے لئے متعدد تقاریب منعقد کی گئیں۔ میں بڑے غور سے ساری تقریبات کو دیکھتا رہا۔ لیکن کہیں اپنے وزیراعظم کو‘ کسی دعوت میں میزبان کی ضیافت سے لطف اندوز ہوتے نہیں دیکھا۔ میری سمجھ میں اس کی وجہ نہیں آ رہی تھی۔ کافی سوچ بچار کے بعد خیال آیا کہ ہندو کی میزبانی سے ہمارے وزیراعظم کیسے لطف اندوز ہوتے؟ وہاں صرف دالیں‘ سبزیاں‘ بڑیاں‘ آلو کی بھجیا‘ بیسن کی ٹکیاں‘ پوری‘ بھاجی اور اسی قسم کے ''ہندوکھانے‘‘ پیش کئے گئے ہوں گے۔ ہمارے وزیراعظم ‘ شاہی کھانوں کے عادی ہیں۔ وہ عموماً وزارت عظمیٰ کے دوران‘ بیرونی دوروں پر رہتے ہیں اور سب سے زیادہ دورے برادرعرب ملکوں کے کرتے ہیں۔ عربوں کے شاہی کھانوں کا شمار دنیا کے لذیذ ترین کھانوں میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی دوروں کے لئے ہمارے وزیراعظم ہمیشہ عرب شیخوں اور شاہوںکے ملکوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ دورہ نہ بھی ہو‘ تو امریکہ اور برطانیہ آتے جاتے‘ راستے میں کچھ دیر کے لئے شاہی میزبانوں کی ضیافت سے ضرور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مجھے بھی شاہی کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے بہت سے مواقع ملے ہیں لیکن جو کھانے ہمارے وزیراعظم کے دولت خانے پر کھانے کو ملے‘ وہ کہیں اور نصیب نہیں ہوئے۔ 
مودی صاحب کو ہمارے حکمران خاندان کے دسترخوان پر جو کچھ کھانے کو ملا‘ وہ بھارت میں انہیں کہاں نصیب ہو سکتا ہے؟ ایسا نہیں کہ بھارت میں پاکستانیوں سے اچھے کھانے ملتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہر لذیذ کھانے میں گوشت کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے اور ہندوئوں کے ووٹ لینے والا وزیراعظم اپنے ملک میں گوشت کی کوئی چیز کھاتے ہوئے پکڑا جائے‘ تو اس کا الیکشن میں ہارنا لازم ہے۔ مودی صاحب تو خیر سیاستدان ہیں‘ انہیں مسلم کھانوں کا مزہ لینے کے لئے بطور خاص پاکستان کے جاتی عمرہ میں ہمارے شاہی خاندان کی میزبانی کا مرہون منت ہونا پڑتا ہے۔ کیونکہ ہمارے اور بھارتی وزیراعظم کے درمیان رازداری کا جو اہتمام کیا جا سکتا ہے‘ وہ کہیں اور ممکن نہیں۔میں نے بہت سے ہندوئوں کو چوری چھپے گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ لیکن عموماً وہ اپنے ساتھیوں اور میزبانوں سے فرمائش کرتے ہیں کہ ان کے اہل وطن کے سامنے یہ راز نہ کھولا جائے۔ ایسے دھڑلے کے کھانے والے ہندو بہت کم ہوتے ہیں‘ جتناکہ کلدیب نیئر ہیں۔ وہ پاکستان ہو یا بھارت۔ ہر طرح کی دعوت میں‘ ہر طرح کے کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ میں ان کے پسندیدہ کھانوں کا تفصیل سے جائزہ نہیں لے سکا۔ خود کھاتا یا کلدیپ کو دیکھتا؟ اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ کلدیپ نے جو کچھ کھایا‘ جی بھر کے کھایا اور ہندوئوں کی ضیافت طبع کے لئے جو دالیں‘ کڑہی اور سبزیاں تیار کر کے رکھی گئیں‘ ان میں سے اگرکسی نے ایک دو پلیٹیں دالوں ‘سبزیوں یا کڑہی کی لے بھی لیں‘ تو ان کا مزہ صرف مسلمانوں نے لیا۔ہمارے ایک صحافی دوست‘ جنہیں بھارتیوں سے مراسم بنانے کا شوق ہے‘ وہ ہندوئوں کے درمیان کھڑے ہو کر‘ دال اور سبزی انہیں دکھا دکھا کر کھاتے ہیں اور خیرسگالی کے اس مظاہرے کی وجہ سے تعلقات بنانے کی امید رکھتے ہیں۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نہ ہوتی‘ تو بھارت کے ٹیلی وژن مالکان کی کسی تنظیم کے عہدیدار ضرور بن چکے ہوتے۔ 
جب میں نے یہ امکان ظاہر کیاکہ ہمارے دوست ‘ بھارت میں کسی ٹیلی وژن نیٹ ورک کے مالک ہی نہیں‘ تو وہاں کے مالکان کی تنظیم کے عہدیدار کیسے بن سکتے تھے؟ میں نے صرف اتنا پوچھ لیا کہ یہاں وہ کس ٹیلی وژن نیٹ ورک کے مالک ہیں؟ تو سب نے منہ میں پکوڑے ڈال لئے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ جنگ ‘ جسے ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘ محض اس بنا پر خونریزی سے محفوظ ہے کہ دونوں طرف کے وزرائے اعظم کسی کو جانی نقصان پہنچانے سے گریزاں ہیں۔ بھارتی جنرلوں کو اپنے لیڈروں کے باہمی تعلقات کے بارے میں تفصیل کا پتہ نہیں ہو گا۔ ورنہ وہ سرجیکل سٹرائیک کیوں کرتے؟ بات راز کی ہے‘ قیادت نے اصل میں حکم یہی دیا تھا کہ پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک ضرور کرنا‘ مگر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ بھارتی کمانڈروں نے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کر کے‘ میڈیا پر اس کے چرچے کر دیئے۔ دوسری طرف مودی صاحب اپنے قریبی دوست کو راز کی بات بتانا بھول گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ادھر بھارتی کمانڈروں نے سرجیکل سٹرائیک کے چرچے کر دیئے۔ بھارتی میڈیا پنجے جھاڑ کے پاکستانیوں کے پیچھے پڑ گیا۔ دانشوروں اور اپوزیشن لیڈروں نے ثبوت مانگنے شروع کر دیئے کہ وہ سرجیکل سٹرائیک کہاں کی گئی ہے؟ اس کا پتہ تو بتائو؟ گائوں کا نام تو بتائو؟ ڈاک خانہ تو بتائو؟ مگر کسی کو کچھ پتہ ہو تو بتائے؟ 
دوسری طرف پاکستانی فوج کا شعبہ اطلاعات مصیبت میں پڑ گیا۔ دنیا بھر کے صحافی موقع واردات کا مشاہدہ کرنے پاکستان آنے پر اصرار کرنے لگے۔ ہمارے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کو تحقیقات کے بعد جب علم ہو گیا کہ سرجیکل سٹرائیک تو ہوئی ہی نہیں۔ وہ میڈیا والوں کی ایک بس بھر کے ان سرحدی مقامات کی طرف چل نکلے‘ جہاں بھارت نے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا۔ وہ تو اللہ نے عزت رکھ لی کہ جس راستے پر مہمان صحافیوں کی بس گئی تھی‘ اس راستے پر دو دن پہلے سے ٹریکٹر ‘ ٹرک اور ٹرالر کی آمدورفت بند کر دی گئی تھی۔ اگر ٹریفک معمول کے مطابق چل رہا ہوتا‘ تو پندرہ بیس صحافی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہوتے۔ اگر آپ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی تازہ جھڑپوں کے دوران ہونے والے جانی و مالی نقصان کا اندازہ کرتے‘ تو اتنے ہی وقت میں ہلاک اور زخمی ہونے والے صحافیوں کی تعداد ‘ سرجیکل سٹرائیک کے جعلی نقصان سے بہرطور زیادہ ہوتی۔ کم تو ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ نہ کوئی سرجیکل سٹرائیک ہوئی اور نہ اس میں کوئی ہلاک یا زخمی ہوا۔ بھارت میں سارا فساد ہی اس بات پر کھڑا ہے کہ بھارتی فوج سرجیکل سٹرائیک سے ہونے والے نقصان کی تفصیل نہیں بتا رہی۔ جب یہ سوال زیادہ ہی پوچھے جانے لگے‘ تو میڈیا پابندی لگا دی گئی کہ سرجیکل سٹرائیک کے بارے میں کوئی خبر یا سوال نہ پوچھا جائے۔پابندیوں میں پاکستان‘ بھارت سے پیچھے نہیں۔ وہاں میڈیا والوں پر سرجیکل سٹرائیک کی خبروں یا اس کے بارے میں تبصروں پر پابندی لگائی گئی اور ہماری حکومت نے خود صحافیوں کو ہی ممنوع کر دیا۔ ایک ٹی وی چینل کے اینکر بلکہ ''اینگر‘‘ کی نشریات پر 40دن کی پابندی لگا دی گئی۔ اس خدا کے بندے نے بھی چالیسواں گزر جانے کے بعد کیمرے کا منہ دیکھا۔ ایک انگریزی اخبار کے نمائندے نے یہ سوچتے ہوئے کہ ملک میں جمہوریت آ گئی ہے اور مارشل لا کا دوردور تک پتہ نہیں‘ آزادانہ جمہوری صحافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک خبر کبوتر کے پنجے سے باندھ کر اڑا دی۔اگر مظلو م کشمیریوں کی جاں بخشی کر دی جائے‘ تو ہماری ایسی ڈاکومنٹری جنگ سے کسی کا کیا بگڑتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved