میرا چھوٹا بیٹا سکول سے لوٹا‘ تو منہ لٹکا ہوا تھا۔ افسردہ دیکھ کر میں نے اسے پاس بلا کربٹھایا اور وجہ پوچھی ۔وہ بولا بابا بہت برا ہوا۔ ایک لڑکے کو کل اردو کی میڈم نے ہلکی سے چماٹ لگا دی تھی۔ سکول میں اس کا ایک دوست موبائل فون پر سیلفیاں بنا رہا تھا اور میڈیم اسے لے کر پرنسپل کے پاس جارہی تھی کہ اس لڑکے نے میڈیم کو روکا کہ کیوں اس کے دوست کو لے کر جارہی ہیں۔ اس پر میڈیم نے اسے گال پر ہلکاسے تھپڑ لگا دیا کہ تم اپنے کام سے کام رکھو۔
وہ اگلے دن اپنے باپ کو لے آیا ۔ اس کا باپ مشہور آدمی اورنواز شریف حکومت میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس نے سکول میں رولا ڈال دیا۔ آخر میں میڈم کو اس کے بیٹے سے معافی مانگنی پڑی۔
میرا بیٹا بولا ایسے نہیں ہونا چاہیے تھے۔
مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ میرا یہ بیٹا خود اسی میڈم سے دو دفعہ تھپڑ کھا چکا تھا ۔
مجھے یاد آیا پچھلے سال میرے بڑے بیٹے کو اسی میڈم نے ایک تھپڑ مارا تھا۔ وہ گھر لوٹا تو مسکراتے ہوئے بولاآج میڈیم نے مجھے مارا ہے۔ میں نے کہا بیٹا خوش قسمت ہو ۔ استاد کا تھپڑ آگے لے جاتا ہے۔وہ فوراً بولا نہیں بابا وہ اچھی ہیں۔ میں نے تو ویسے ہی آپ کو کہا ہے۔ اسی استاد اور اس کے تھپڑ کی وجہ سے میرے بیٹے کا اس سال او لیول میں اسی مضمون میں اے گریڈ آیا۔ اب چھوٹا بیٹا بھی ان کے پاس پڑھتا ہے۔ اسے بھی دو دفعہ گالوں پر ہلکا سا تھپڑ پڑ چکا ہے۔وہ ہر دفعہ آکر بتاتا ہے اور مسکراتا ہے۔ میں نے کہا شرمندہ ہونے کی بجائے مسکراتے ہو۔
بائی چانس چار دن قبل اسی میڈیم سے ملاقات ہوگئی۔ میرا چھوٹا بیٹا بھی ساتھ تھا ۔ وہ کہنے لگیں یہ محنت نہیں کررہا۔ میں نے کہا میڈم آپ نے پچھلے سال بڑے بیٹے کو ایک تھپڑ مارا تھا وہ ٹھیک ہوگیا تھا اور اس نے اے گریڈ لیا۔ ایک آدھ اس کو بھی جڑ دیں تو شاید اس کے نصیب بدل جائیں...وہ بولیں آپ کو اعتراض تو نہیں ہوگا؟ میں نے کہا‘ کیا پچھلے سال میں کوئی احتجاج کرنے آیا تھا ؟ میں نے کہا یہ شکر کریں کہ آپ لوگ گالوں پر ہلکا پھلکا تھپڑ جڑ دیتی ہیں۔ میں گائوں سے آیا ہوں وہاں تو سارے گائوں والے استاد سے منت ترلے کر کے ہم بچوں کو سزا سے بچاتے تھے ورنہ استاد کا جب تک دل چاہتا کان پکڑا کر چھترول کرتا۔ میں خود کئی دفعہ استادوں کے ہاتھوں پٹ چکا ہوں۔ میں نے ہتھیلی آگے کر کے کہا ان ہاتھوں پر کئی دفعہ ڈنڈے کھائے ہیں اور ایسی کئی جگہوں پر ڈنڈے کھائے ہیں جن کا بتایا تک نہیں جاسکتا....وہ ہنس پڑیں۔میرے دونوں بچے حیرانی سے مجھے دیکھ رہے تھے کہ ان کا باپ بھی استادوں سے پٹتا رہا ہے۔
تشدد اور گالوں پر ہلکا تھپڑ مارنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ ہمارے دور میں تو باقاعدہ بچوں پر تشدد ہوتا تھا جو کہ غلط تھا۔ مجھے خود یاد ہے کہ خوف کے مارے میں سکول جانے سے گھبراتا تھا ۔ یہ درست ہے کہ بچوں پر سکول میں تشدد نہیں ہونا چاہیے اور آج کے جدید سکول تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ماں باپ ڈنڈا لے کر پہنچ جاتے ہیں۔
مجھے اپنے لندن میں مقیم دوست شعیب کی بیگم عالیہ کی ایک بات یاد آئی۔ دو ہزار گیارہ کے لندن میں فسادات کے بعد پولیس نے والدین کو کہا کہ وہ اپنے بچوں پر سختی کریں کیونکہ یہ بگڑ گئے ہیں۔ اس پر عالیہ نے خوبصورت تبصرہ کیا تھا کہ پہلے ہمیں کہا گیا کسی نے بچے پر سختی کی تو بچہ چھین لیا جائے گا۔ سکولوں میں بچوں کو کہا گیا گھر پر اگر کوئی سختی کرے تو پولیس کو رپورٹ کرو اور اب وہی پولیس کہتی ہے کہ بچوں پر سختی کرو کیونکہ وہ فسادات کررہے ہیں۔
بچوں کو کچھ نہیں کہنے والے کلچر کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسلام آباد کے کچھ سکولوں کے بارے میںمشہور ہے وہاں آٹھویں سے لے کر دسویں یا اے لیول تک کچھ بچے کھلے عام سگریٹ پیتے اور دیگر نشہ کرتے ہیں کیونکہ استادوں سے والدین نے جرأت چھین لی ہے کہ وہ اپنے شاگرد کو کسی غلط بات پر منع کر سکیں یا اسے ہلکی پھلکی سزا دے سکیں۔
کچھ سال قبل میرے چھوٹے بیٹے نے جس کی عمر اس وقت بمشکل آٹھ برس ہوگی مجھے کہا کہ بابا ہمارا گینگ ہے۔ میں نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا تو وہ بولا، کل ہمارے ایک دوست کو کچھ لڑکوں نے مارا تھا۔ آج ہم دوستوں نے انہیں مارا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ ہم اکٹھے لڑیں گے۔ یہ وہی سکول ہے جہاں بچے کچھ بھی کرتے رہیں استاد انہیں روک نہیں سکتے۔ میں نے اسی دن اپنے بیٹے کو سکول سے نکال کر موجودہ سکول میں ڈال دیا جس کا پڑھائی کے علاوہ ڈسپلن بہت اچھا ہے۔ یہاں کسی گینگ کا سوال تک پیدا نہیں ہوتا ۔
کبھی کلچر ہوتا تھا لوگ کسی کے بچے کو غلط کام کرتے دیکھ کر اسے روکتے تھے اور بچہ بھی رک جاتا تھا۔ ڈر جاتا تھا کہ اگر اس کی شکایت لگ گئی تو گھر والے اور ڈانٹیں گے۔ وہ بچہ پورے گائوں کا بچہ ہوتا تھا۔ گائوں کا بڑا جب چاہے اس کو روک سکتا تھا۔ اسے سزا بھی دے سکتا تھا۔ اور پھر اچانک ماحول بدلنا شروع ہوا اور پڑھی لکھی مائوں اور ان کے باپ نے نیا دستور اپنا لیا کہ ہمارے بچہ کچھ بھی کرتا ہو تم کون ہوتے ہو اسے روکنے والے۔ میں نے اپنی بیوی کو سختی سے کہا ہوا تھا کہ ہمارے بچوں کو اگر کوئی بڑا روکے اور اگر کچھ سخت کہہ بھی دے تو کبھی ان کے گھر جا کر مت لڑنا۔ یقینا ہمار بچہ کوئی غلط کام کررہا ہوگا جس پر اس نے روکا ہوگا۔
کچھ عرصہ قبل میں جہاں رہتا تھا وہاں ایک بارہ سالہ بچے نے گاڑی چلانا شروع کردی۔ اس کا باپ فخر سے گاڑی اسے سکھا رہا تھا۔ ایک دن بچہ خود تیز گاڑی چلا رہا تھا۔ میں نے اسے روک کر منع کیا اور کہا‘ بیٹا پہلے تو تمہیں اس عمر میں گاڑی نہیں چلانی چاہیے کہ تم بہت چھوٹے ہو۔ دوسرے اتنی تیز چلا رہے ہو۔ بولا، آپ کو کیا۔میرے بابا نے اجازت دے رکھی ہے ا ٓپ کیوں روک رہے ہیں۔ میں نے کہا بیٹا کیونکہ تم میرے بیٹے کی عمرکے ہو۔تمہیں اگر تکلیف پہنچی تو مجھے پریشانی ہو گی ۔دوسرے دن اس کا باپ ملا تو وہ ناراض ہونے لگا ۔ میں نے کہا بات سنیں آپ کو میرا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا۔ آپ الٹا ناراض ہورہے ہیں۔ اپ کیسے باپ ہیں جو بچے کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں۔ وہ بولا وہ بہت اچھا ڈرائیور ہے۔ میںنے کہا وہ معاشرے بیوقوف ہیں جنہوں نے ڈرائیونگ کی عمر اٹھارہ برس رکھی ہے؟ اپ زیادہ سمجھدار نکلے ہیں اور اس عمر کو بارہ سال کر دیا ہے۔ ڈرائیونگ کوئی کھیل نہیں ہے۔ میں کئی واقعات جانتا ہوں جب اس طرح بچے گاڑیاں لے کر دوستوں کے ساتھ نکل جاتے ہیں اور اکثر حادثے ہوتے ہیں کیونکہ ڈرائیونگ میں فوری فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے، حاضر دماغی چاہیے ہوتی ہے، اور سب سے بڑا کر جذباتی ٹھہرائو کی ضرورت ہے جو بارہ سالہ بچے میں نہیں پائی جاتی لہٰذا عمرا اٹھارہ برس کی گئی ہے۔ ایک آپ ہیں کہ آپ الٹا مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ اپنے ایک دوست کا بتایا جس کا اکلوتا بیٹا اپنے باپ کی گاڑی لے کر دوستوں کے ساتھ نکل گیا۔ دریا پر نہانے گیا اور ڈوب گیا۔ میں باپ سے تعزیت کرنے گیا تو وہ بولا‘ میں نے لاڈ میں بچے کو کم عمری میں گاڑی چلانے کی اجازت دے رکھی تھی۔ وہ زارو قطار رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا غلطی ہوگئی۔
اس میڈیم سے بھی غلطی ہوگئی تھی۔ اسے کیا پڑی ہے کہ وہ امیروں کے بچوں کو تمیز اور سلیقہ سکھانے کی کوشش کرے۔ اگر اگلے دن میں نے سکول جا کر اس سے پورے سکول کے سامنے اپنے بیٹے سے معافی منگوانی ہے تووہ کیوں میرے بچے پر سختی کرے۔ وہ کیوں خیال کرے میرے بچے کو تمیز اور آداب کا پتہ ہو۔ اسے پتہ ہو کہ استاد کو کیسے احترام دکھانا ہے۔ اگر اس پر سختی نہ کی تو وہ شاید تعلیم میں پیچھے رہ جائے۔ایک ہلکا سا گال پر تھپڑ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔
تشدد اور اس ہلکے پھلکے تھپڑ میں ہم تمیز نہیں کرسکتے۔؟
مجھے اپنے گائوں کے سکول سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک کے استاد یاد آئے۔ جن کے فیض کے بقول یہاں تک پہنچا ہوں۔کہیں سے پیار تو کہیں سے مار ملی لیکن ان سب کا مقصد میری بھلائی تھا ۔ کہاں گئے رومی جیسے عظیم شاگرد جو اپنے گرو شمس تبریز کے حکم پر ایک شراب خانے پر قطار میں لگ کر کھڑے تھے کہ رومی کی انا توڑنا مقصود تھا یا پھر رومی کے گھر جب ایک طوائف شمس تبریز سے ملنے آئی تھی تو ہر کوئی کانپ گیا تھا ۔ رومی کے گھروالوں نے کہا ایک طوائف اور رومی کے گھر کی چھت کے نیچے؟
نیلے آسمان کی طرف اشارہ کر کے بے نیاز شمس بولا تھا اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پہلے بھی تو ہم سب ایک ہی چھت کے نیچے رہ رہے ہیں؟
رومی کا بیٹا ناراض ہوگیا تھا لیکن کیا رومی اپنے استاد کو ناں کر سکا۔محبت کے چالیس لازوال اصولوں نے ایسے ہی جنم نہیں لے لیا تھا۔رومی کو اپنے استاد شمس کے کئی امتحان پاس کرنے پڑے تھے۔ آج کے بچے تو استادوں سے ہی معافی منگواکر فخر کرتے ہیں!
سقراط کو بڑا آدمی اس کے شاگرد افلاطون نے بنایا تھا۔افلاطون اگر اپنے استاد کے آخری دنوں کی داستان نہ لکھتا تو آج سقراط کو کون جانتا؟
کہاں گئے عباسی بادشاہ ہارون الرشید کے بچوں جیسے شاگرد جن کے بارے میں سنا تھا کہ وہ دونوں بھائی ایک دن اس بات پر ایک دوسرے سے لڑ پڑے تھے کہ آج اپنے استاد کے سامنے جوتی پائوں میں کون رکھے گا !کہاں گئے ایسے استاد اور ایسے شاگرد؟ شاید وقت کے صحرا کی پرانی دُھول نے سب کچھ چاٹ لیا !