مشہور و معروف لوگوں کی ایک پہچان تو اُس فن کے حوالے سے ہوتی ہے جس نے اُن کو فن کی بلندیوں تک پہنچایا ہوتا ہے مگر ایک پہچان اُن کی ذاتی زندگی اور عادات کے حوالے سے بھی ہوتی ہے اور مشہور لوگوں کی یہ دوسری پہچان اکثر بہت دلچسپ ہوتی ہے۔ اب دیکھیں منیر نیازی مرحوم کیسے زبردست شاعر تھے اور شاعر کے طور پر مشاعروں میں شرکت کے لیے یا پھر ادبی نشستوں میں حصہ لینے وہ ریڈیو سٹیشن آیا کرتے تھے۔ مگر ریڈیو میں ہمارے دو سیکشن ہمیشہ اُن سے خوفزدہ رہتے تھے۔ ایک تو ٹرانسپورٹ کا شعبہ جس کے ذمے نیازی صاحب کو گھر سے ریڈیو سٹیشن لانا اور واپس چھوڑنا ہوتا تھا اور دوسرا اکائونٹس سیکشن جس کی ذمہ داری مشاعرے میں شرکت کی فیس کا چیک شاعروں کو دینا ہوتا تھا۔
ریڈیو کا ٹرانسپورٹ سیکشن شروع ہی سے دبائو میں رہا ہے۔ افسروں کا جائز یا ناجائز سرکاری گاڑیوں کا استعمال‘ انجینئروں کی شفٹس لانا‘ انائونسروں کو لانا پھر گھر چھوڑنا اور پھر ان سب کے علاوہ پروگراموں میں حصہ لینے والی اُن اہم شخصیات کو لانا لے جانا جن کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہوتی تھی۔
نیازی صاحب کے پاس بھی کوئی گاڑی وغیرہ نہیں تھی۔ لیکن جب مشاعرہ ختم ہوتا یا وہ ادبی پروگرام جس میں شریک ہوتے وہ ختم ہوتا تو اُن کا اصرار ہوتا تھا کہ اُن کو فوراً گھر بھجوایا جائے۔ نیازی صاحب ٹائون شپ میں رہتے تھے۔ ٹرانسپورٹ سپروائزر کی کوشش ہوتی تھی کہ اُس راستے کی دیگر سواریاں بھی ساتھ بیٹھا دیں اور اگر کوئی سواری تھوڑی دیر بعد اپنے کام سے فارغ ہو رہی ہے تو نیازی صاحب کو درخواست کی جاتی کہ وہ پندرہ بیس منٹ رُک جائیں۔ مگر نیازی صاحب بالکل نہیں مانتے تھے اور فارغ ہوتے ہی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہونے پر اس قدر زور دیتے تھے کہ ٹرانسپورٹ سپروائزر مجبور ہو جاتا تھا۔
اکائونٹس سیکشن والے اس وجہ سے نیازی صاحب سے ڈرتے تھے کہ وہ پروگرام کی ریکارڈنگ ختم ہونے کے فوراً بعد چیک لینے کا تقاضا کرتے تھے چونکہ وی آئی پی سمجھے جاتے تھے لہٰذا اُن کو لٹالنا محال ہوتا تھا۔ اکائونٹس سیکشن والوں کی بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی مجبوری تو یہ ہوتی ہے کہ آیا متعلقہ سیکشن نے بروقت کنٹریکٹ نیازی صاحب سے دستخط کروا کر اور پھر مجاز افسروں سے بھی دستخط کروا کر اکائونٹس سیکشن میں بھجوا دیا ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہوتا تھا کہ نیازی صاحب نے اسی روز ریڈیو سٹیشن آ کر دستخط کئے ہوتے تھے لہٰذا باقی ماندہ کارروائی کے لیے وقت درکار ہوتا تھا۔
بہرحال جب نیازی صاحب چیک کے لیے زور ڈالتے تھے تو پھر بیچارہ اکائونٹس کلرک بھاگ دوڑ کر کے کبھی کسی سے دستخط کروا‘ کبھی کسی سے دستخط کروا‘ پھر چیک بُک اٹھا کر مجاز افسروں سے دستخط کروا کے چیک نیازی صاحب کی خدمت میں پیش کر دیتا تھا۔
ہمارا ایک پروگرام ہوتا تھا ''ریڈیو شو‘‘ یہ ایک سٹیج شو ہوتا تھا جس میں مہمانوں کے ساتھ کوئی سو ڈیڑھ سو حاضرین کو بھی شرکت کی دعوت ہوتی تھی۔ اس سلسلے کے ایک پروگرام میں نیازی صاحب مہمانوں میں شامل تھے۔ ریکارڈنگ والے دن بہت زور کی بارش ہو گئی اور حاضرین کی بہت کم تعداد پہنچ پائی۔ ہمارے ایک افسر نے حکم جاری کیا کہ تمام کلرکوں وغیرہ کو بلا کر لائو تاکہ مہمان یہ محسوس نہ کریں اُن کی باتیں کوئی سننے ہی نہیں آیا۔
اس پروگرام میں نیازی صاحب نے اپنی مشہور نظم سنائی ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘
سامنے سامعین میں ٹرانسپورٹ سپروائزر اور اکائونٹس کلرک بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اکائونٹس کلرک ہمارے ایک میوزیشن کا بیٹا تھا لہٰذا جگت تو اس کا ورثہ تھا۔ نیازی صاحب کی زبانی یہ سُن کر ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘ آہستہ سے ٹرانسپورٹ سپروائزر کے کان میں بولا ''پر نہ گڈی لین وچ دیر کر دے نیں تے ناں چیک لین وچ دیر کر دے نیں‘‘ یعنی نہ گاڑی کے لیے دیر کرتے ہیں اور نہ چیک وصول کرنے میں دیر کرتے ہیں۔
اس قسم کی بات کو پھیلنے سے بھلا کیسے روکا جا سکتا ہے اور ریڈیو کا تو ماحول ہی ایسا ہوتا تھا کہ بات ایک کان سے دوسرے تک اور ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک۔ ہمارے ایک سینئر ساتھی ہوتے تھے، اسلام شاہ۔ انہوں نے یہ بات نیازی صاحب تک بھی پہنچا دی یہ سُن کر زور زور سے ہنسے۔ ذرا برا نہیں منایا۔
ضیاء الحق کے زمانے میں رمضان شریف میں بہت سختی شروع ہو گئی تو ریڈیو کی کینٹین بھی بند ہو گئی۔ کچھ پروڈیوسروں نے اعلیٰ افسران سے چوری ایک کمرے کو مختص کر لیا اور وہاں چائے بننے لگی۔ نیازی صاحب کو کسی نے بتایا تو اسی کی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر چائے والے کمرے میں پہنچ گئے۔ کمرہ پہلے ہی بھرا ہوا تھا لیکن ان کے لیے بھی جگہ نکل آئی۔ اُس روز ریڈیو سٹیشن پر ایک شخص آیا ہوا تھا جس کا دعویٰ تھا کہ جو خوشبو آپ سونگھنا چاہیں اس کا تصور کر لیں وہ اپنے ہاتھ میں موجود ایک پنسل نما چیز کی مدد سے وہی خوشبو آپ کی ناک تک پہنچا دے گا۔یہ شخص بھی ایک پروڈیوسر کے ہمراہ اس چائے والے کمرے میں پہنچ گیا۔
جب منیر نیازی صاحب نے اس کا یہ دعویٰ سنا تو کہنے لگے مجھے تو وہ خوشبو یاد ہے جب تقسیم ہند سے پہلے بھارت میں اپنے آبائی گائوں کی جھاڑیوں میں اُگے پھولوں سے آتی تھی۔ اُس شخص نے اپنی پنسل نما شے کو رگڑا اور نیازی صاحب کے ناک کے قریب کیا۔ وہ پھڑک اُٹھے‘ بولے یہ تو بالکل وہی خوشبو ہے۔ اس کے بعد خاموش ہو گئے اور پھر بولے ''اے شخص تو جو کوئی بھی ہے تو میرے قریب ہی رہا کر‘‘۔ اُس چھوٹے سے کمرے میں جو لوگوں سے کھچا کھچ بھرا تھا اور سب زمین پر بچھی ایک دری پر بیٹھے تھے۔ شہنشاہوں کے انداز میں یہ مکالمہ ادا کر دینا یہ منیر نیازی ہی کا حصہ تھا۔ نیازی صاحب کے مزاج میں ایک عجیب بھولپن بھی تھا اور شہنشاہیت بھی تھی۔
جو شخص خوشبو کا ڈرامہ کر رہا تھا اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ انسانی نفسیات سے کھیلتا ہے جو خوشبو جس کے تصور میں ہوتی ہے وہ اُس کی پنسل پر لگے کسی کیمیکل کی وساطت سے ذہن میں تازہ ہو جاتی ہے۔ سونگھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی خوشبو ہے۔
تو بات ہو رہی تھی نیازی صاحب کے مزاج کے بھولپن کی۔
ایک مرتبہ ایک ریڈیو پروگرام میں نیازی صاحب بھی مہمان تھے اور ایک خاتون ٹی وی آرٹسٹ بھی مہمان تھیں۔ ٹی وی آرٹسٹ سے پروگرام کے میزبان نے پوچھا کہ آپ نے اتنے زیادہ کردار ادا کر لیے ہیں تو کیا آپ کو تمنا ہے کوئی ایسا کردار کرنے کی جو اب تک نہ کیا ہو۔
وہ ٹی وی آرٹسٹ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ نیازی صاحب نے بڑی معصومیت سے کہا میں بتاتا ہوں یہ کیا جواب دیں گی۔ سب نیازی صاحب کی طرف دیکھنے لگے۔ نیازی صاحب بولے‘ یہ کہیں گی مجھے گونگی لڑکی کا کردار کرنے کا شوق ہے۔ وہ ٹی وی آرٹسٹ ہنسنے لگی۔ بولی آپ کو کیسے معلوم ہوا‘ نیازی صاحب بولے، میں نے کئی ایکٹرسوں کے انٹرویو سنے ہیں۔ اس سوال کا ہمیشہ وہ یہی جواب دیتی ہیں۔ سب ہنسنے لگے۔
شعراء کو نیازی صاحب سے شکایت رہتی تھی کہ وہ داد وغیرہ دینے سے مکمل پرہیز کرتے ہیں مگر عام لوگوں سے میل جول میں‘ بات چیت میں‘ پروگراموں میں شرکت کے دوران میں اس طرح گم سم نہیں بیٹھتے تھے جیسے مشاعروں میں بیٹھتے تھے۔ غالباً ان کا شعری معیار کچھ زیادہ ہی بلند تھا۔