تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     14-10-2016

زندہ باد سے مردہ باد تک

سخی سلطان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر بنے۔ تعلق ہزارہ سے تھا‘ روزگار کوئٹہ سے وابستہ۔ سخی سلطان نے کوئٹہ میں آنکھ کھولی‘ زندگی کی 56 بہاریں دیکھیں۔ اس دوران شہید بینظیر بھٹو کے زمانے میں پی پی پی کی فیڈرل کونسل کے رکن بن گئے۔ 18 اکتوبر کے کچھ دن بعد بلاول ہاؤس کراچی میں بی بی نے فیڈرل کونسل اور پارٹی سی ای سی کا مشترکہ اجلاس بلایا‘ جس میں پارٹی کے چیدہ چیدہ ارکان شریک ہوئے۔ اس روز سخی سلطان سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ سخی سلطان اور سیاسی جج کے حامی وکیل صاحب نے بی بی سے شکایت کی، میں سیاسی جج کے ٹرک پر سوار ہوتا ہوں نہ ہی اس کے جلوس میں شامل۔ محترمہ نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ عرض کیا: یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں اور میرے اس فیصلے کی دو وجوہ ہیں۔
پہلی‘ یہ کہ میں کسی حاضر سروس، ملازم پیشہ، پینشن دار آدمی کا جانثار کہلانا وکالت کی توہین سمجھتا ہوں‘ یہی وجہ ہے میں نے نوکری کرنے کی بجائے وکا لت کا آزاد و خود مختار پیشہ اپنایا۔ دوسری وجہ یہ ہے، کسی بھی جج کے حق میں زندہ باد کا نعرہ لگانا توہینِ عدل ہے۔ انصاف خدائی صفت ہے‘ اور وکیل اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی میں سے ایک اسمِ اعظم۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اس جواب کے بعد کوشش کے باوجود کسی کو مزید بات کرنے کی اجازت نہ دی۔
انہی دنوں ایک دن ٹی وی شو میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور میں اکٹھے ہوئے۔ عمران خان نے یہی سوال پوچھا‘ الفاظ ان کے اپنے تھے۔ میں نے بحث چھیڑنے کی بجائے مختصراً کہا: بہتر ہو گا آپ بھی اس ٹرک سے نیچے اتر آئیں اور بات ہنسی میں اڑ گئی۔ آئین کے آرٹیکل 204 میں واضح طور پر لکھا ہے: عدلیہ اور فوج کو سکینڈلائز نہ کیا جائے۔ وفاقی پولیس نے جنرل راحیل شریف زندہ باد کہنے پر مقدمہ در ج کیا۔ میں اس ایشو پر آن ریکارڈ کہتا آیا ہوں، جج زندہ باد کہنا توہینِ عدالت ہے اور جج مردہ باد کہنا بھی۔ ایک توہین اس سے بھی بڑی ہے۔ وہ ہے توہینِ عدل‘ جس کا آغاز توہین بار ایسوسی ایشن سے ہوتا ہے‘ کیونکہ عدل، انصاف اور قانون کی آزادی براہ راست بار ایسوسی ایشن کی آزادی سے وابستہ ہے۔ اگر بار آزاد نہیں تو عدل و انصاف کی آزادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ کون نہیں جانتا بار ایسوسی ایشن پاکستان کا سب سے بڑا جمہوری، آزاد اور بہادر ادارہ ہے‘ جس میں شامل وکیل نہ تنخواہ لیتا ہے نہ پینشن، نہ میڈیکل الاؤنس نہ لاسٹ ڈریون کار گھر لے جاتا ہے۔ اور یہ بھی ناقابلِ تردید اٹل حقیقت ہے کوئی شخص جج بن ہی نہیں سکتا جب تک وہ پہلے وکیل نہ بنے‘ لہٰذا میں بلا خوفِ تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ عدلیہ، جمہوریت اور اعلیٰ ترین پارلیمانی روایات کے تابندہ ستارے پیدا کرنے والی نرسری کا نام بار ایسوسی ایشن اور وکیل ہیں، قائد اعظم، لارڈ ڈیننگ، شاعرِ مشرق اور قائدِ عوام سمیت۔ ضرورت کے وقت ڈِس مِس ہونے والی حکومت ہو یا عدلیہ، آرمی چیف ہو یا چیف ایگزیکٹو، چیف جسٹس ہو یا بورے والا کا مزدور حمیدا بوری والا‘ ہمیشہ ان سب کی آخری اور پہلی امید وکیل ہی رہا ہے۔ 
حال ہی میں جن وکیل صاحبان کے لائسنس معطل ہوئے ان کی معطلی سے متعلقہ کوئی مواد میرے سامنے نہیں‘ اس لیے غلطی کس کی ہے؟ جھگڑا کہاں سے شروع ہوا؟ عدالت کے اندر رونما ہونے والے ناپسندیدہ واقعہ میں کس فریق کا حصہ 10 فیصد اور کس کا 90 فیصد ہے‘ میں اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہاں البتہ ہم سب اسی معاشرے میں جیتے ہیں جہاں نہ کوئی فرشتہ صفت ہے نہ کوئی شیطان جیسا، سب انسان ہیں۔ سب کسی ایک معاملے میں بہت اچھے اور کسی دوسرے حوالے سے خطاکار‘ بلکہ کچھ کچھ سیاہ کار بھی۔ہمارے ہاں تالی کم از کم تین ہاتھوں سے بجتی ہے۔ دو ایک دوسرے کے گریبان تک پہنچنے والے ہاتھ، تیسراHidden hand جسے عام زبان میں وجہء عناد بھی کہا جا سکتا ہے۔ قانون، ضابطہ اور اپنا کوڈ آف کنڈکٹ وکیل توڑے یا جج، بیوروکریٹ توڑے یا قانون نافذ کرنے والے اسے پامال کریں‘ سب کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوتی ہے۔ زندگی کے کسی شعبے میں بھی ہاتھ کی 5 انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں‘ مگر بوجھل دل سے کہنا پڑتا ہے کہ آزاد میڈیا کے مخصوص حلقوں نے وکیلوں کے ہر جھگڑے کو''وکلا گردی‘‘ کا عنوان دے رکھا ہے۔
یادش بخیر، مشرف دور میں نوکری سے نکالی گئی عدلیہ کی موجودگی میں لاہور کے پنج ستارہ ہوٹل میں وکیل پر حملہ ہوا۔ سپریم کورٹ کے احاطے میں باوردی وکیلوں کے کپڑے پھاڑے گئے۔ ایسے بے شمار دیگر واقعات ہوئے‘ تب بدتمیزی کی ترغیب دینے والے، اس کی تشہیر کرنے والے اور تشدد کرنے والے ہیرو ٹھہرے۔ آج وہی ''ہیرو‘‘ بروزنِ دہشت گرد، وکیل گرد ہیں۔ فراز نے گرگٹ موسم کے ایسے ہی پنچھیوں کے لیے کہا تھا: ؎
ہم کو موسم کی ادا دیکھ کے یاد آتا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
ہمارے آئین کا ایک آرٹیکل بھولا بِسرا بلکہ بیکار ہے۔ عدالتی مباحث اور فیصلوںمیں اسے مردار لفظ (Dead Letter) کہا گیا۔ بے چارہ ستم کا مارا آرٹیکل209۔ اچھی بات ہے‘ عدل کے ایوانوں پر اٹھنے والی نظریں نیچی رہیں بلکہ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر الزام جھوٹا ہے تو فرضی درخواست یا ریفرنس بھیجنے والے کو فوراً سزا ملنی چاہیے‘ لیکن اگر تہمت سچی ہے تو پھر مقدس گائے (Holy Cow) اور نظریہء ضرورت (Kolsen`s Doctrine of Necessity) کو دفنا کر آگے بڑھنا ہو گا۔ دنیا کے سب سے بڑے قانون دان اور محسنِ انسانیت حضرت محمدﷺ نے اسی دو عملی کے بارے میں یہ قول فیصل ارشاد فرمایا:
''پہلی امتوں کی تباہی کا سبب یہی تھا کہ جب ان میں سے کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دیتے اور اگر طاقتور وہی جرم کرتا تو ان کی سزا موقوف کر دی جاتی‘‘۔
(میرا اشارہ جنرل مشرف کے 209 والے زیرِ التوا ریفرنس کی طرف نہیں۔ نہ ہی اس مرحلے پر مجھے جسٹس فقیر محمدکھوکھر، سجاد حسین شاہ، مولوی انوار، میاں نجم الزمان، رمضان چوہدری سمیت 120 مظلوم جج یاد آتے ہیں)
یہ بھی درست روایت ہے کہ جس منصف پر انصاف کی اجرت وصول کرنے کا الزام لگ جائے‘ اسے بلا کر آپشن دیا جاتا ہے‘ استعفیٰ دیں یا سامنا کریں۔ وکلا گردی کا لیبل لگانے کی رِیت ایک ہی گاڑی کے دو پہیوں سے غیر مساوی سلوک کی روشن مثال ہے۔ ایسی گاڑی خاک چلے گی جس کا ایک پہیہ ٹریکٹر کا ہو اور دوسرا سکوٹر کا۔
وکیل کتنا مظلوم‘ بے بس ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کے وارث کتنے لاوارث۔ اس بے وارثی کی تازہ داستان سنیے۔ جاویداللہ خٹک پشاور کا وکیل تھا۔ بیٹی کی تعلیم اسے پنڈی کھینچ لائی۔ پھر پنڈی سے اسلام آباد منتقل ہوا۔ وکالت سے لگن کی وجہ سے وہ میری وزارتِ قانون کے دوران سٹینڈنگ کونسل بنا۔ 8 ماہ پہلے جاوید تمام کائنات کے آخری منصف کی عدالت میں اپنا کیس لڑنے پیش ہو گیا۔ اس کی صاحبزادی مجھے ملنے آئیں۔ ماسٹرز کی طالبہ، یتیم، بے آسرا۔ بار فنڈز سے اپنے والد کا حصہ مانگنے کے پی بار کونسل پہنچی۔ بار کونسل نے کہا: لاہور جاؤ‘ تمہارے والد کی ممبرشپ ٹرانسفر ہو گئی تھی۔ جاوید کی بیٹی پہلے پنجاب بار، پھر اسلام آباد بار کونسل اور آج کل پاکستان بار کے دروازے پر کھڑی ہے۔ سمجھ نہیں آتی گرد و غبار میں ڈوبے جاوید کے خاندان کو کون سا گرد کہوں۔ بات چلی تھی زندہ باد سے۔ موسم بدلا مردہ باد شروع ہو گیا۔
کیا ہم آنکھیں کھول کر یہ دیکھ نہیں سکتے کوئی زندہ باد کہلائے یا مردہ باد عام آدمی انصاف اور قانون سے بیزار ہو چلا ہے۔ قانون بڑوں کی جیب کا رومال، انصاف ہاتھ کی گھڑی۔ مظلوم عوام کے لیے لِتر، جیل اور ہتھ کڑی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved