تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     14-10-2016

پاکستانی سیاستدان بمقابلہ امریکی سیاستدان

بیس روز میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں عملی طور پر گھر سے نکلا۔ برادرم عرفان یعقوب کے ایک دوست کے گھر دوستوں کی محفل برپا تھی۔ پندرہ سولہ دوست تھے اور مجھے گمان تھا کہ پاکستانی سیاست پر بات ضرور ہو گی لہٰذا حفظ ماتقدم کے طور پر میں نے امریکی الیکشن کا قصہ چھیڑ دیا ۔ پاکستان کی سیاست کے حوالے سے سارے دوست مختلف الخیال سیاسی نظریات کے حامل تھے مسلم لیگ ن ‘ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت ہر سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ان دوستوں کی امریکی سیاست اور اگلے ماہ ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن کے بارے میں رائے بالکل ایک تھی‘ سب ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالف تھے۔
مجھے اس محفل میں بھی بیٹھے ہوئے شفیق کے تجزیے کا خیال آیا۔ شفیق کا خیال ہے کہ کم از کم ہمارے لوگ ہلیری کو اس کی کسی خوبی کے بجائے ٹرمپ کی مخالفت میں ووٹ دیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ خود ہی اس الیکشن کا مرکز ہے۔ ہلیری کے پاس خود کو اوپر لے جانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔ ٹرمپ کی ...''چولیں‘‘ جب اس کا گراف نیچے لاتی ہیں تو ہلیری کے جیتنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں اور جب وہ ذرا کم چولیں مارتا ہے تو اس کا گراف بہتر ہو جاتا ہے دراصل ہلیری کی مقبولیت میں کمی یا زیادتی دراصل ٹرمپ کے رویے پر منحصر ہے۔ ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی یا زیادتی ہو رہی ہے اور اس کمی یا زیادتی کا براہ راست فائدہ یا نقصان ہلیری کو ہوتا ہے۔ اس سارے الیکشن میں فیصلہ کن رول صرف اور صرف ٹرمپ کا ہے۔ ہلیری کا گراف دراصل ٹرمپ پر منحصر ہے اور اسی پر سارے الیکشن اور اس کے نتیجے کا انحصار ہے۔ بقول شفیق یہ صرف پاکستانیوںپر ہی منحصر نہیں۔ امریکہ کی ساری نسلی اور مذہبی اقلیتیں اسی فارمولے کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہیں۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہیں اس لیے ہلیری کے حق میں ہیں۔ ہلیری کے حامیوں کی کیثر تعداد ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین پر مبنی ہے۔
الیاس ڈیمو کریٹک پارٹی کا ورکر ہے۔ وہ اس الیکشن میں خاصا سرگرم ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کے ووٹوں کے لیے بڑے زوروشور سے کوشاں ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ ڈیمو کریٹ ورکر ہے اس کی گفتگو میں استدلال تھا۔ کہیں بھی وہ اپنی تمام تر سیاسی وابستگی کے باوجود غیر منطقی نہیں ہوا۔ کہنے لگا ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالف ہیں کہ وہ تارکین وطن کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ہے۔ یہودیوں کے علاوہ امریکہ میں بسنے والی تمام مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے خلاف ہے۔ ہم اس کے متعصبانہ رویے کے خلاف ہیں اس کی اقلیت دشمنی کے خلاف ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم اس کے پالیسیوں سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ ہمیںاس کے صدر امریکہ بننے میں ذاتی نقصان نظر آ رہا ہے۔ ہماری تمام تر مخالفت اپنی ذات کے حوالے سے ہے۔ وہ ہمارا مخالف ہے اور ہم جواباً اس کے خلاف ہیں۔ لیکن اگر امریکی حوالے سے دیکھیں تو وہ ''نیشنلسٹ‘‘ ہے قوم پرست ہونا کوئی خرابی نہیں۔ اگر میں پاکستانی ہوں اور پاکستان کو پاکستانیوں کے لیے محفوظ بنانا چاہتا ہوں تو اس میں کیا خرابی ہے؟ اگر میں پاکستان میں بسنے والے قانونی یا غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستان بدر کر کے پاکستانیوں کے لیے روزگار‘ ملازمتوں‘ تنخواہوں اور اجرت میں بہتری لانا چاہتا ہوں تو پاکستان کے عام لوگ مجھے اپنا نجات دہندہ اور ہمدرد سمجھیں گے۔ ہم اگر اپنے ہاں اجتماعی قوم پرستی کو خوبی تصور کرتے ہیں تو ٹرمپ کے لیے ہمارا معیار کیوں مختلف ہے؟ ہم لوگ چاہے مانیں یا نہ مانیں مگر ہم اپنی ساری کشتیاں جلا چکے ہیں اور اب واپس نہیں جانا چاہتے۔ ہمیں جس سے بھی ایسا خوف یا خطرہ ہو گا ہم اس کے خلاف ہوں گے ۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اگر متعصب امریکی بن کر دیکھا جائے تو ٹرمپ کی پالیسی دراصل امریکی قوم پرستی کے حوالے سے تو درست ہے اس کی پالیسیوں 
سے امریکہ میں بسنے والے تارکین وطن کو تو خطرہ ہے امریکہ کو نہیں۔ امریکیوں کی اچھی خاصی تعداد اس کی پالیسیوں کو دل سے درست تسلیم کرتی ہے۔ یہی اس کی مقبولیت کی بنیادی وجہ ہے وگرنہ جتنی حماقتیں اس سے سرزد ہوئی ہیں اس کی تو ضمانت ضبط ہو جانی چاہیے۔ امریکی گوروں کی ایک معقول تعداد غیر مشروط طور پر اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ میں یہ بات اپنے ذاتی تجزیے کی بنیاد پر نہیں‘ تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جو اوہائیو‘ پنسلوینیا اور مشی گن میں گوروں کی اکثریت والے علاقے میں ڈور ٹو ڈور کمپین کے دوران مجھے ہوا۔
ایک صاحب کہنے لگے بلا سوچے سمجھے بیان داغنے کی اپنی اس خداداد کے حوالے سے آپ ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی سیاست کا عمران خان کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے صاحب مسکرا کر کہنے لگے۔ میاں صاحب ! آپ دراصل یہ بات میاں نواز شریف صاحب کی محبت میں کہہ رہے ہیں لیکن آپ ایک بنیادی بات فراموش کر رہے ہیں ۔ عمران خان کے بیانات اور تقاریر کے کچے پکے پن پر تو انگلی اٹھائی جا سکتی ہے مگر عمران خان کی ایمانداری پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ بیانات کا بچگانہ پن اپنی جگہ مگر عمران خان کے اخلاص اور نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ ادھر ڈونلڈ ٹرمپ تو ایک کنفرم بے ایمان اور باقاعدہ مکار آدمی ہے۔ وہ خود کہتا ہے کہ اس نے گزشتہ اٹھارہ سال سے ٹیکس نہیں دیا اور ڈھٹائی دیکھیں، اپنی اس چالاکی اور مکاری پر رتی برابر ملال یا شرمندگی محسوس نہیں ہوتی۔ پوچھا کہ آپ ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ جواباً کہنے لگا کہ ''آئی ایم سمارٹ‘‘۔ آپ خدا کا خوف کریں، ایک بے ایمان اور ایماندار کو آپس میں موازنے کے لیے ایک دوسرے کی مثال نہ بنائیں۔ ٹرمپ منہ پھٹ تو ممکن ہے عمران خان جیسا ہو مگر بے ایمان ہمارے حکمرانوں جیسا ہے ۔ عرفان نے پوچھا یہ آپ کی ''حکمرانوں‘‘ سے کیا مراد ہے؟ وہ صاحب کہنے لگے موجودہ اور سابقہ دونوں مراد ہیں آپ میری بات سے اختلاف کرنا چاہیں گے؟ وہ صاحب کہنے لگے ہرگز نہیں۔
وہی صاحب کہنے لگے ۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کو کسی سے مثال دینا چاہتے ہیں تو آپ اسے امریکہ کا نریندر مودی کہہ سکتے ہیں۔ متعصب ‘ مکار‘ بے رحم اور بڑبولا۔ وہ ہندو توا کا دعویدار اور یہ امریکی برتری کا۔ وہ بھارت میں ہندوئوں کے علاوہ دیگر تمام مذہبی اقلیتوں کا مخالف یہاں ٹرمپ تمام غیر عیسائی اور نسلی اقلیتوں کے خلاف۔ وہاں مودی اکثریتی ہندوئوں کی نمائندگی کا دعویدار یہاں ٹرمپ اسی تگ و دو میں مصروف کار۔ ٹرمپ کی اٹھان اسی فلسفے پر تھی اوراس کی تمام تر خرابیوں کے باوجود اسے یہاں تک لانے میں صرف اور صرف اس کا یہی فلسفہ تھا۔ وگرنہ امریکہ کی تاریخ میں ایسا دو نمبر امیدوار اس سے پہلے اول تو شاید کبھی بھی آیا نہیں ہو گا اور اگر آیا ہو گا تو بری طرح ہارا ہو گا؛ تاہم اگر یہ ہاراتو اس میں دو لوگوں کا مرکزی کردار ہو گا ایک خضر خان اوردوسرا خود ڈونلڈ ٹرمپ کا کہ اوپر تلے جتنے بلنڈر اس نے مارے ہیں اگر کوئی اورمارتا تو الیکشن سے دستبردار ہو کر گھر جا چکا ہوتا مگر آپ اندازہ کریں کہ اس کے اور ہلیری کے درمیان ہونے والے پبلک پولز میں فرق محض ایک ڈیڑھ فیصد کا رہ گیا تھا جسے ٹرمپ نے اپنی ذاتی کاوشوں سے اب سات فیصد کر دیا ہے۔
پہلے جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا میں پیدا ہونے والی مس یونیورس اورامریکی اداکارہ گلوکارہ اور ٹی وی میزبان ایلشیا مچاڈو کے وزن کے بارے میں گھٹیا گفتگوکر کے خواتین کو اپنے خلاف کر لیا پھر پہلے صدارتی مباحثے کے دوران ٹیکس نہ دینے کا اعتراف کر کے اپنا معاملہ خراب کیا اور اوپر سے ڈھٹائی کہ خود کو ٹیکس نہ دینے پر ''سمارٹ‘‘ قرار دے دیا۔ اورآخر میں گیارہ سال پرانی اس کی گفتگو کی ٹیپ نے رہی سہی کسر نکال دی جس میں ٹرمپ کسی سے کہہ رہا ہے کہ ''بطور سٹار اور مشہور شخصیت کے وہ عورتوں کا جنسی استحصال کر سکتا ہے‘‘ اس ٹیپ کی واشنگٹن پوسٹ میں اشاعت کے بعد ٹرمپ نے آدھی رات کو اٹھ کر اپنا معافی نامے والا بیان جاری کیا لیکن اس معافی کے باوجود عالم یہ ہے کہ ووٹروں کو چھوڑیں۔ خود ٹرمپ کی پارٹی‘ یعنی ریپبلکن پارٹی کے عہدیداروں نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے، اس صدارتی الیکشن کے ساتھ ساتھ امریکی سینٹ کے ایک تہائی سنیٹرز کا لیکشن بھی ہو رہا ہے اور ریپبلکن پارٹی کے بہت سارے امیدواران برائے سینٹرز نے ٹرمپ سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے بہت سارے پارٹی عہدیداروں نے کھلے لفظوں میں اپنے صدارتی امیدوار کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اس کی خاصی طبیعت صاف کی ہے۔
عرفان یعقوب مجھ سے پوچھنے لگا کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے؟ اپنی پارٹی لیڈر کے خلاف بولنا تو ایک طرف رہا۔ پاکستان میں سیاستدان اپنی اتحادی پارٹی کے بارے میں ایک لفظ منہ سے نہیں پھوٹتے۔ مسلم لیگیوں کو نواز شریف کے بارے میں تو خیر کیا ہمت ہو گی وہ محمود خان اچکزئی‘ مولانا فضل الرحمان اور اسفند یار ولی وغیرہ کے پاکستان مخالف بیانات پر ایک لفظ کہنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ پیپلز پارٹی والے زرداری کے بارے میں سوال کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ عجب بے شرموںسے پالا پڑا ہے جن کو ذاتی مفادات ملکی سالمیت‘ حق سچ اور اصولوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ میرے پاس اس کی کسی بات کا جواب نہیں تھا۔ اللہ بھلا کر ے اس شخص کا جس نے اعلان کیا کہ تمام لوگ بتا دیں کہ وہ قہوے میں چینی کتنی کتنی لیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved