تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     14-10-2016

کشمیر ی اور کشمیر کا مقدمہ

سپریم کورٹ آزاد کشمیر کے سابق جج جسٹس منظور حسین گیلانی کا تعلق سر ی نگر سے ہے۔ وہ وہیں پیدا ہوئے ، تعلیم مکمل کی اور وکالت کرنے لگے۔1976ء میں مظفرآباد آئے تو خاندان کے اصرار پر یہیں مقیم ہوگئے۔آزاد کشمیرمیں وکالت شروع کی اور پھر وقت آیا کہ سپریم کورٹ کے جج بن گئے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میاں نواز شریف کی درخواست پر مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے مگر الیکشن وغیرہ کے جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے اپنی توجہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے درمیان قانونی تعلق مضبوط بنانے پر ہی مرکوز رکھی البتہ یہ ضرور ہوا کہ اسی برس آزاد کشمیر کے الیکشن ان کی جماعت نے جس منشور پر لڑے وہ انہی کا لکھا ہوا تھا۔الیکشن کے بعد جب آزاد کشمیر کے صدر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو ان کا نام بھی صدارت کے ممکنہ امیدواروں میں شامل تھا لیکن پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے، نجانے کہاں سے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے سابق افسر مسعود خان کا نام سامنے آگیا اوروہ منصبِ صدارت پر فائز ہوگئے۔ ذرا تصور کیجیے کہ آج کل کے حالات میں مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص آزاد کشمیر کا صدر ہوتا تو پاکستان کو دنیا میں کتنا فائدہ ہوتا اور کشمیر کی تحریک آزادی کو کتنی تقویت پہنچتی، بہرحال میدانِ سیاست ہمیشہ سے ایسا ہی تھا اور ایسا ہی رہے گا کہ یہاں قابلیت سے زیادہ نقصان پہنچانے کی صلاحیت فیصلہ کن ہوتی ہے۔ 
جسٹس صاحب سری نگر آتے جاتے رہتے ہیں ۔ برہان وانی کی شہادت سے کچھ عرصہ قبل وہ سری نگر گئے تو ان کے دوست وکلاء انہیں کھینچ کھانچ کر ڈسٹرکٹ بار میں لے گئے جہاں بحث چل پڑی تھی کہ پاکستان جموں کشمیر کی بھارت سے آزادی کے لیے کیا کرسکتا ہے۔کچھ وکلاء کا خیال تھا کہ پاکستان کو کشمیر کے لیے جنگ سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے اور کچھ سوچ رہے تھے کہ عسکری جنگ نہ سہی تو سفارتی جنگ تو ضرور بالضرور شروع کرنی چاہیے۔اس ''جنگی‘‘ اختلاف کے باوجود دونوں مکتبہء فکر سے تعلق رکھنے والے وکلاء اس بات پر متفق تھے پاکستان کشمیر کی آزادی کے لیے جو کچھ بھی کررہا ہے وہ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والوں کی توقعات سے بہت کم ہے۔ 'پاکستان کو کیا کرنا چاہیے ‘ کا موضوع کھنچتا چلا گیا اور بار روم وکلاء سے بھرتا گیا۔ آخر میں تجویز ہوا کہ آزاد کشمیر سے آئے مہمان پاکستان کی صورتحال واضح کریں۔ اس دعوت پر جو کچھ جسٹس صاحب نے کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ پاکستا نی کشمیر کی آزادی کے لیے جنگ کر چکے، اپنا آدھا وجود گنوا چکے لہذا اب پاکستان سے کوئی شکوہ کشمیریوں کا بنتا نہیں، البتہ کشمیریوں کا کیس دنیا کے سامنے پیش کرنے کا کام جس انداز سے ہورہا ہے اس پر بات ہوسکتی ہے کہ یہ کام زیادہ مؤثر انداز میں کس طرح ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے مخاطبین کو بتایا کہ کشمیر کی آزادی کشمیریو ں کے ہاتھ میں ہے جتنی بڑی تحریک آزادی مقبوضہ کشمیر میں چلے گی اتنی ہی زیادہ سفارتی و اخلاقی مدد پاکستان سے ملتی جائے گی۔ 
جسٹس صاحب کی بات درست ثابت ہوئی اوربرہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں آزادی کی تحریک ایک نئی آب و تاب سے ابھری اور پاکستان نے بھی مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر میں اٹھانے کی اپنی سی کوشش کی ۔پاکستان کی ان تازہ سفارتی کوششوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں رہنے والا کا یہ شکوہ بے وزن نہیں کہ پاکستان ان کی پوری سفارتی مدد نہیں کررہا۔ اس تاثر کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے ریاستی نظام میں شاید ہی کوئی ایسا شخص باقی بچا ہے جس کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہو۔ کسی ایسے شخص کی عدم موجودگی کی وجہ سے جہاں دوسری طرف کے کشمیریوں سے ہمارے رابطے نہیں ہیں وہاں دارالحکومت اسلام آباد میں کسی کے پاس مقبوضہ کشمیر کے بارے میں پوری خبر بھی نہیں ہے۔ ہماری حکومت کے پاس مقبوضہ کشمیر سے آنے والی خبروں کا نظام پہلے ہی کوئی زیادہ اچھا نہیں تھا لیکن اب تو حالت یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے کچی پکی خبریں اٹھا کر ہی کام چلالیا جاتا ہے۔ مصدقہ خبر کا نہ ہونا اتنی بڑی کمزوری ہے جو پاکستان کے مؤقف کو دنیا میں تہہ وبالا کرسکتی ہے۔ لارڈ نذیر احمد راوی ہیں کہ 1990ء کی دہائی میں برطانوی اور نارویجین اراکینِ پارلیمنٹ کا ایک وفد لے کر وہ پاکستان آئے تاکہ انہیں کشمیر کی اصل صورتحال سے آگاہ کیا جاسکے۔ خیر یہ وفد وزیراعظم آزاد کشمیر سے لے کر صدرِ پاکستان تک سب سے ملا ، ہر ایک نے کشمیر میں بھارت کے ظلم و ستم پر ڈٹ کر بات کی مگر ہر اعلیٰ عہدیدار نے کشمیر میں شہدا کی تعداد مختلف بتائی گویا کسی کو کشمیری شہدا کی اصل تعدا د کا سرے سے علم ہی نہیں تھا۔ بیانات یا بیانیے کی اس غلطی کا اثر یہ ہوا کہ یورپ کے منتخب لوگ پاکستانی مؤقف کو مبالغہ آمیز قرار دے کر رخصت ہوگئے۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں متفقہ اعدادوشمار اور مصدقہ خبریں وہ پہلا قدم ہے جو حکومت کو اٹھانا ہے اور اس کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے نہ دفاتر کی بس وزارتِ اطلاعات میں کوئی ڈھنگ کا آدمی ڈھونڈ کر اس کی ذمہ داری لگانی ہے اور یقینی بنانا ہے کہ صرف اسی ایک ذریعے سے آنے والی خبریں بین الاقوامی سطح پر اپنے مؤقف کے حق میں استعمال ہوں گی۔ 
وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے اراکین کے ذریعے دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر اجاگرکرنے کی جو کوشش کی اس کا صرف ایک فائدہ ہوا ہے کہ ہمیں آئندہ ایسے کام سے پرہیز کرنا چاہیے اور کرنا ہی ہے تو پھر ارکان کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ ہمارے جتنے بھی اراکین پارلیمنٹ باہر گئے وہ رانا افضل کی طرح میزبان ملک کے اعتراضات سن کر گھبرا گئے یا سید مشاہد حسین کی طرح امریکہ میں بدلتے ہوئے ورلڈ آرڈر پر بے فائدہ گفتگو فرماتے رہے ۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں میں اہلیت نہیں ، معاملہ یہ ہے کہ مسئلہء کشمیر کی نزاکتوں سے یہ لوگ پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ اگر یہی کام مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے سپرد کیا جاتا اور ہمارے اراکینِ پارلیمنٹ اس کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ساتھ جاتے تو دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر زیادہ بہتر انداز میں اجاگر کیا جاسکتا تھا۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میںچلنے والی تحریک آزادی کے لیے پاکستان کی طرف سے بہترین مدد یہی ہوگی کہ جہاں ہم نے بھانت بھانت کے وزیر مشیر مقرر کررکھے ہیں وہاں مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو وزیراعظم کا معاون یا ایلچی مقرر کرکے دنیا کے ہر چھوٹے بڑے دارالحکومت میں بھیجا جائے تاکہ اس معاملے پر ہماری سفارتی جارحیت دنیا کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھی نظر آئے۔ 
مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو وزیراعظم کا معاون بنانا کوئی نیا تصور نہیں ہے، پاکستان ماضی میںسری نگر سے تعلق رکھنے والے یوسف بچ صاحب پاکستان کی مدد سے دنیا بھر میں کشمیریوں کا مقدمہ لڑتے رہے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹونے انہیں معاون خصوصی کا درجہ دے رکھا تھا بعد میں انہیں سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کا سفیر بھی لگایا لیکن جنرل ضیاء کے مارشل لاء نے انہیں کسی قابل نہ سمجھ کر سفارت سے ہٹا دیا۔ انہوں نے پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان سے لے کر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تک سب کے ساتھ کام کیا اور پاکستان کی مدد سے اقوامِ متحدہ میں فری کشمیر سنٹر بھی چلاتے رہے اور جب پاکستان نے ان سے دامن چھڑا لیا تو وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مشیر ہوگئے اور کشمیر کا مقدمہ لڑتے رہے۔یہ مقدمہ لڑنے کے لیے آج بھی یوسف بچ جیسا کوئی شخص بھی مل سکتا ہے، شرط صرف یہ ہے کہ کوئی ذوالفقار علی بھٹو اس کی مدد کے لیے تیار ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved