آذربائیجان دو براعظموں یعنی ایشیا اور یورپ کے آس پاس کہیں پایا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے سمندر کے ساحل کا دو چارگز ٹکڑا‘ اس عظیم مملکت کو ساحلی تجارت کے مواقع بھی فراہم کرتا ہو ۔ میرے اندازے کے مطابق‘ دنیا میں نئے تجارتی راستوں کا جو نیا نظام معرض وجود میں آرہا ہے‘ یہ اس کی کسی سڑک کے کنارے کے‘ بس سٹاپ پر واقع ہے۔اس کی کل آبادی دو لاکھ کم ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ایک ایئرپورٹ بھی پایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی پروازوں کی آمدورفت کثرت سے رہتی ہے۔پائلٹوں کو اکثر مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔ اکثر کوئی لینڈ کرتا ہواجہاز‘ تھوڑی دور آگے نکل کر کسی دوسرے ملک کے اندر جا رکتا ہے۔ اگر کسی جہاز میں وی آئی پی‘ آذربائیجان کے دورے پر آرہے ہوں تو جہاز میں احتیاطاً مہمانوں کی تعداد کے مطابق ‘ پیراشوٹ رکھ دئیے جاتے ہیں۔ جیسے ہی طیارہ آذربائیجان کے ہوائی اڈے کے قریب آتا ہے‘ تو مہمان پیراشوٹ باندھ لیتے ہیں۔ جہاز کے دروازے کھل جاتے ہیں اور مہمان ‘ آذربائیجان کے کسی بھی مقام پر چھلانگ لگا دیتے ہیں اور اس طرح مہمان بحفاظت اترنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔جیسے ہی مہمان اپنے پیراشوٹ اتار کے‘ سنبھلتے ہیں تو انہیں فوراً ہی ایک اورنج بس میں سوار کر کے‘ وہاں پہنچا دیا جاتا ہے‘ جہاں ان کے لئے گارڈ آف آنر کا بندوبست کیا گیا ہو۔رسمی تقریبات سے فارغ ہونے کے بعد‘ معزز مہمانوں کواس اورنج بس میں بٹھا کر‘ شاہی قیام گاہ کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے۔ وضاحت کے لئے عرض ہے کہ آذر بائیجان میں‘ اورنج بس سروس نہیں پائی جاتی۔ وہاں صرف حکمران خاندان کے لئے‘ بھارت سے سکینڈ ہینڈ کالی پیلی بسیں خریدی جاتی ہیں جو حکمران خاندان کے استعمال میں رہتی ہیں۔عوامی سواری کے طور پر سائیکل رکشہ استعمال کیا جاتا ہے۔ انصاف کا نظام رائج ہے۔مسافر چاہے تو اپنی مرضی سے سفر کے مطابق‘ کرایہ ادا کر دیتا ہے ورنہ سفر کی طوالت کا آدھا آدھا حصہ تقسیم کر کے‘مسافر اور سائیکل رکشہ ڈرائیور کے درمیان‘ بانٹ لیا جاتا ہے۔ آدھے سفر کے لئے سواری‘ سائیکل رکشہ چلاتی ہے اور باقی آدھے کے لئے ڈرائیور ذمہ داری نبھاتا ہے۔اگر سواری اور رکشہ ڈرائیور میں ‘کوئی تنازع پیدا ہو جائے تو معاملہ حکمران خاندان کے سامنے پیش ہوتا ہے اور اگر سواری لاپتہ ہو جائے تو حکمران خاندان کا ایک صحت مند شخص‘ ڈرائیو رکو باقی ماندہ سفر طے کراتا ہے۔
قارئین کو معلوم ہے کہ ہمارے وزیراعظم‘ میاں محمد نوازشریف‘ دنیا میں ہر جگہ شاپنگ کا شوق رکھتے ہیں۔ لیکن باکو میں کوئی اچھا شاپنگ سٹور موجود نہیں۔جب سے'' آذربھائی جان ‘‘کے دورے کا پروگرام بنا تو مقامی حکمران خاندان نے‘ اپنے معزز مہمان کی دلچسپیوں کا سامان فراہم کرنا شروع کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دورے میں مہمانوں کا شوق خریداری پورا کرنے کے لئے ‘اسی وقت سے ہیرڈذ کی شاخ‘ باکو میں آراستہ کی جانے لگی تھی‘ جب ہمارے حکمران خاندان نے سعودی عرب کی جلاوطنی ختم کر کے‘ پاکستان واپسی کے لئے رخت سفر باندھا ۔ہیرڈز کی باکو میں ایک برانچ کھولی گئی۔لندن کے تمام رئیسانہ سٹورز کے مالکان ‘اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم اور ان کے اہل خاندان‘ خریداری کے لئے کیا کیا شوق رکھتے ہیں؟ ہر ایسی چیز جو مہمانوں کے ذوق نگاہ پر پوری اترتی ہو‘ باکو میں پہنچا دی گئی ۔ شاہی خاندان اور ان کے دو تین حاشیہ بردار‘ پیدل ہی باکو کی سیر کرتے رہے۔ تھوڑی سی چہل قدمی کے بعد‘ مہمانوں نے رکنا شروع کر دیا کہ شاید باکو کا شہر ختم ہو گیا ۔ جب میزبانوں سے دریافت کیا گیا کہ'' اب شہر ختم ہونے والا ہو گا‘‘۔
میزبانوں نے بتایا کہ ''نہیں جناب! ملک ختم ہونے والا ہے‘‘۔
یہ سن کر ہمارے وزیراعظم بہت خوش ہوئے اور اسحاق ڈار کو بتایا کہ '' اگرآپ نے مجھے کبھی حکومت سے فارغ کیا تو فرصت کے اوقات میں اپنا سفر نامہ لکھتے ہوئے ‘اس کا تذکرہ ضرور کروں گا کہ میں نے ایک پورا ملک‘ چہل قدمی کرتے ہوئے عبور کر لیا تھا‘‘۔
بازار کی چہل قدمی کے دوران ہمارے وزیراعظم نے مقامی وزیر سے پوچھا کہ'' آپ کے ملک میں مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے؟‘‘۔
اس نے مودب ہو کر بتایا''عالی جناب کے سامنے کھڑی ہے‘‘۔
جس پر ہمارے وزیراعظم‘ متعجب ہوئے اور پوچھا'' کیا آپ درست کہہ رہے ہیں؟‘‘۔
پروٹوکول چیف نے بتایا'' ہمارے آس پاس کے ملکوں میں تو مسلمان پائے جاتے ہیں لیکن آذربائیجان میں ڈھونڈنے سے ملتے ہیں۔ جب ہمارا کوئی رئیس خاندان دعوت کرنے کے لئے‘ اردگرد کے ملکوں سے کوئی بکرا یا بھیڈو منگواتا ہے تو ان کے سری پائے کھانے کے لئے‘ مسلمانوں کی تلاش کی جاتی ہے‘‘۔
جس پر مہمان وفد کے ایک رکن نے آہستہ سے کہا''بے وقوف‘ تم نے سری پائے کھانے کے لئے بیرونی ملکوں سے مسلمان درآمد کئے؟۔ اگر تم ہمارے وفدکا انتظار کر لیتے تو تمہاری دعوت کو ہمارے شاہی خاندان کی پسندیدہ ترین غذا تصور کیا جاتا اور ممکن ہے یہاں سے رخصت ہوتے وقت معزز مہمان کی طرف سے ‘آپ کو بھنے مغز کی ایک پلیٹ عطا ہو جاتی‘‘۔
عزت مآب مہمان وزیراعظم کو دوران خرام جب بتایا گیا کہ'' جس ملک میں آپ اس وقت چہل قدمی فرما رہے ہیں‘ یہ ایک جمہوریہ ہے‘‘۔
تومہمان وزیراعظم نے تعجب سے پوچھا'' کیا یہاں انتخابات بھی ہوتے ہیں؟‘‘
میزبان احترام سے ‘جھک کر عرض کرتا ہے''حضور یہاں ایک ہی حلقہ ہے۔ایک ہی منتخب وزیراعظم ہے۔ایک ہی ایوان ہے۔ایک ہی ووٹر ہے جو سپیکر اور وزیراعظم کا انتخاب کرتا ہے‘‘۔
جان کی امان پائو ںتو عرض کروں؟ کہ حضور والا کا انتخاب کتنی اکثریت سے کیا گیا؟‘‘۔
''کسی کی مجال ہے جو میرے سوا کسی اور کو‘وزارت عظمی کا ووٹ دے سکے۔ یہاں صرف میں ہوں‘‘۔
''سپیکر کون صاحب ہیں؟‘‘۔
''میں ہوں‘‘۔
قائد حزب اختلاف کون ہے؟‘‘۔
'' میں ہوں‘‘۔
''وزیر خارجہ کون ہے؟‘‘۔
'' میں ہوں‘‘۔
''وزیر خزانہ کون ہے؟‘‘۔
'' میں ہوں‘‘۔
''ایوا ن کے اندر بیٹھے ہوئے تمام منتخب اراکین کون ہیں؟‘‘
'' میں ہوں‘‘۔
''آئین کیسا ہے؟‘‘۔
'' میں ہوں‘‘۔
''آپ کے معزز وفد میں شامل اراکین کون ہیں؟‘‘۔
'' میں ہوں‘‘۔
''آپ کے ووٹر کون ہیں؟‘‘۔
'' میں ہوں‘‘۔
''سر! یہ پانامالیکس کیا ہے؟‘‘
''اٹھ او تیری۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ خبر بھی یہاں پہنچ گئی؟‘‘۔