تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     15-10-2016

ترک ماڈ ل اور پاکستان

اس وقت جب کہ ہم سول ملٹری تنائو کے ایک اور دور سے گزررہے ہیں، ایک اور ملک کی طرف، جو عشروںسے ایسے ہی تنائو کا شکار رہا، دیکھنا اور اس کے حالات کا جائزہ لینا سبق آموز ہوسکتا ہے ۔ ترکی میں فوج کا ہی حکم چلتا تھا، یہاں تک کہ اس صدی میں ایک مرحلے پر حالات کا رخ تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔ یہ وہ وقت تھا جب طیب رجب اردوان کی سویلین جماعت، اے کے پارٹی نے رفتہ رفتہ ملک کی طاقتور مسلح افواج کو واپس بیرکس میں بھیجا اور سویلین اقتدار کو مضبوط کیا۔ناکامی سے دوچار ہونے والا حالیہ شب خون غالباً کچھ جنرلوں کی طرف سے اقتدار پر براہ ِ راست قبضے کی آخری کوشش تھا۔ 
طیب اردوان اس کوشش میں کیسے کامیاب ہوئے جب کہ ہمارے سویلین رہنما بار بار کوشش کرنے کے باوجود ناکام کیوں رہے ؟ وہ اسٹیبلشمنٹ کو سویلین کنٹرول میں نہ لاسکے ۔ اس ناکامی کی بہت سی وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ ترکی طویل عرصے سے یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتا تھا۔ اس خواہش نے اُس وقت کے وزیر ِاعظم، اب صدر اردوان، کو موقع دیا کہ وہ جنرلوں کو قائل کرسکیں کہ وہ سیاست سے دور رہیں۔ یورپی یونین کی کڑی شرط ہے کہ رکن ریاستوں میں سویلینز کو بالا دستی حاصل ہو۔ دوسری بات یہ کہ اردوان نے طویل عرصے سے معاشی ترقی کے سفر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ سال ترکی میں فی کس جی ڈی پی 11, 500 ڈالر رہا۔ اے کے پارٹی کی انتخابی کامیابی سے پہلے ملک میں فوجی 
جنرلوں اور مغربی ذہنیت رکھنے والی ترک اشرافیہ کی حکومت تھی۔ اناطولیہ سے تعلق رکھنے والے روایتی ترکوں کو سائیڈ لائن کر دیا گیا تھا۔ استنبول میں کسی عورت کے سکارف استعمال کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ مذہبی نظریات رکھنے والے طیب اردوان کی سیاسی مقبولیت نے سیکولر سوچ رکھنے والے جنرلوں اورترک اشرافیہ کے لبرل حلقوں کو ناراض کردیا لیکن ایسی سوچ رکھنے والے عام ترک حلقوں میں اُنہیں پذیرائی ملی۔ اس مقبولیت نے اُنہیں یہ حوصلہ اور اعتما د بخشا کہ وہ جنرلوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں۔ ہم نے دیکھا کہ موجودہ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے عام شہری ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوگئے ۔ عام شہریوں نے مسلح فوجیوں کے سامنے مزاحمت کی اور جمہوری حکومت کا دفاع کیا۔ 
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ان میں کسی صورت ِحال کا یہاں کے سیاسی معروضات پر اطلاق نہیں ہوتا۔ چونکہ ہمارے ہاں بھارت دشمنی کے جذبات کبھی ماند نہیں پڑتے ،ا س لیے قوم فوج کو وطن کے محافظ کے طور پر بے حد تکریم دیتی ہے ۔ ترک فوج ایک سیکولر فورس تھی ، لیکن پاک فوج کو ایک اسلامی سوچ رکھنے والی فورس سمجھا جاتا ہے ۔ آخرمیں،بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات ہماری سویلین حکومتوں کے مستقل تعاقب میں رہتے ہیں۔ یہ تمام عوامل فوج کو مستقل مقبولیت کی سند دیتے ہیں جبکہ سویلین حکومتوں پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے ۔ اور پھر فوج کسی معاشی اور سماجی مسئلے پر قوم کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ پاکستان جیسے مسائل کے شکار ملک میں اسے نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے ۔ تاہم ہمارا تجربہ یہ کہتا ہے (اگر چہ ہم اس سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں) کہ جب یہ اقتدار پر قبضہ کرلیتی ہے تو اس کی کارکردگی سویلینز سے بھی مایوس کن ہوتی ہے ۔ 
ترکی میں فوج کی پارٹنر سیکولر اشرافیہ رہی ہے ، لیکن پاکستان میں مذہبی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے دفاع کے لیے ہر آن موجود رہتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی طبقہ جانتا ہے کہ وہ براہ راست انتخابات میں کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکے گا، چنانچہ وہ دفاعی ادارے کا سہارا حاصل کرتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں ، پاکستان اور ترکی، کے درمیان ایک اور موازنہ پریس کی افسوس ناک حالت کو ظاہر کرتا ہے ۔ پاکستان پریس کی آزادی کے انڈیکس میں 147ویں، جبکہ ترکی 151 ویں نمبر ہے ۔ یہ انڈیکس ترکی میں گولن کے حامیوں کے خلاف ہونے والے کریک ڈائون سے پہلے کا مرتب کیا ہوا ہے ۔ حالیہ کریک ڈائون میں درجنوں میڈیا ہائوسز کو بند اور بے شمار صحافیوں کوجیلوں میں ڈال دیا گیا ۔ چنانچہ مجھے اس میںکوئی شک نہیں کہ ترکی کا درجہ مزید نیچے چلا گیا ہوگا۔ 
دونوں ممالک کی مسلح افواج میں اہم فرق یہ ہے کہ ترک جنرل کھل کر امریکہ نواز ہیں۔ دوسری طرف ہمارے جنرل بظاہر امریکہ مخالف نظریات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ ہم نے دیکھا کہ واشنگٹن نے بہت خوشی سے ہماری فوجی آمروں کے ساتھ کام کیا لیکن آہستہ آہستہ امریکی قانون ساز فوجی آمروں کی دہری پالیسیوں اور انسانی حقوق کے ریکارڈ سے متنفر ہوتے گئے۔ یہ بھی غلط نہیں کہ ہمارے سویلین حکمران ترکی کی مثال کی من وعن پیروی نہیں کرسکتے ۔اس کی ایک وجہ سیاسی طبقے کے درمیان پائی جانے والی شدید رقابت اور مخاصمت ہے ۔ وہ اپنے سیاسی حریف سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ فوجی مداخلت کے وقت وہ جمہوری اقدار کو بچانے کے لیے مل کر کھڑے نہیں ہوتے ۔ مثال کے طور پر اس وقت عمران خان کے حوالے سے یہ تاثر عام ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے موجودہ حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ وہ گزشتہ کئی برسوںسے اسی کوشش میں ہیں۔ 
ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ترکی کے برعکس پاکستان ایک ایسی ''نرم ریاست ‘‘ ہے جہاں قانون کی حکمرانی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یہاں کالعدم مسلح تنظیمیں کھلے عام کام کرنے ، چندہ جمع کرنے، رضاکار بھرتی کرنے‘ روایتی اور غیر روایتی میڈیا کے ذریعے اپنے نظریات کی ترویج کے لیے آزا د ہیں۔ جب دبائو آئے تووہ نام تبدیل کرکے پھر کام شروع کردیتی ہیں۔ ان کا تمام ڈھانچہ اور شخصیات وہی رہتی ہیں اور کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ ترکی میں قانون کی حکمرانی بہت سخت ہے ۔ اگرچہ اس نے گزشتہ چند ایک ماہ کے دوران دہشت گردحملوں کے زخم برداشت کیے ہیں، لیکن یہاں کسی مولوی کی جرات نہیں کہ وہ مساجد میں دہشت گردوں کی کھل کر حمایت کرے یا نفرت انگیز خطاب کرے ۔ جمعے کا خطبہ انقرہ سے تمام مساجد میں فیکس کردیا جاتا ہے ، اور امام مسجد ریاست کے ملازم ہوتے ہیں ۔ وہ خطبہ پڑھ کر سنا دیتے ہیں۔ پاکستان میں ایسا ناممکن ہے ۔ یہاں حکومت مدرسوں اور ان کے نصاب کو ریگولیٹ کرنے کی جرات نہیں رکھتی۔ اس کے علاوہ یہاں غربت اور جہالت کا دوردورہ ہے ۔ سویلین رہنما اپنے تمام تر بیانات کے باوجود، ان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ جب تک وہ گورننس کو درست نہیں کرتے، طالع آزمائوں کو چیلنج کرنا مشکل ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved