تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     15-10-2016

آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا

مسجد کے بڑے ہال کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا تھا کہ ایک بزرگ صورت صاحب نمودار ہوئے۔ یوں تو چٹے سر اور چٹی داڑھی کی وجہ سے میں بھی اچھا خاصا بزرگ لگتا ہوں مگر وہ جینوئن بزرگ دکھائی دے رہے تھے۔ دروازہ کھول کر کھڑا رہا تاکہ وہ پہلے گزریں۔ وہ گزرے مگر یوں جیسے میں کئی نسلوں سے ان کا خاندانی مزارع تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ میری طرح ان پڑھ تھے۔ لباس سے تعلیم یافتہ لگ رہے تھے۔ باہر نکل کر نوٹ کیا کہ وہ جس گاڑی میں بیٹھ رہے تھے‘ وہ پرانی تھی نہ چھوٹی!
آپ ڈرائیو کر رہے ہوں‘ راستہ تنگ ہو یا کسی دوسرے گاڑی والے نے مڑنا ہو‘ اور آپ رک جائیں تاکہ وہ پہلے گزر جائے تو وہ یوں شانِ بے نیازی سے گزرے گا‘ جیسے رکنا آپ کا فرض تھا اور اس کا حق۔ پوری مہذب دنیا میں دوسری گاڑی والا ہاتھ اٹھا کر شکریہ ادا کرتا ہے۔ ہاں! ایک بار ایک ٹیکسی والے نے ہاتھ لہرا کر شکریہ ادا کیا اور موٹر سائیکل پر سوار ایک لڑکے نے‘ جس کے گزرنے کے لیے میں نے بریک لگائی‘ شکریہ ادا کیا۔ مگر یہ شرح اس قدر برائے نام ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے!
آخر ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ ہم شکریہ ادا کرنے میں یا ایک مسکراہٹ بکھیرنے میں‘ جس پر کوئی خرچ بھی نہیں اٹھتا‘ اس قدر تنگ دل کیوں ہیں؟ دو افراد بات کر رہے ہوں تو ان کی گفتگو کے ختم ہونے کا انتظار کیوں نہیں کرتے‘ درمیان میں کیوں کود پڑتے ہیں؟ کسی کو فون کریں تو بات کرنے سے پہلے اپنا تعارف کیوں نہیں کراتے؟ وعدہ کرتے ہیں کہ کسی کو فون کریں گے اور مطلوبہ معلومات مہیا کریں گے‘ مگر اس وعدے کی کوئی اہمیت نہیں۔ دوسری بار پوچھے گا تو دیکھیں گے۔ سیڑھیوں کے پاس کھڑے دو اشخاص بغل گیر ہونے کے بعد باتیں کرنے لگتے ہیں۔ آپ نے اوپر جانا ہے۔ وہ راستہ بند کرکے کھڑے ہیں۔ آپ جب راستہ دینے کے لیے کہتے ہیں تو معذرت کرنے کے بجائے یوں دیکھتے ہیں جیسے آپ نے ان کی خواب گاہ کی پرائیویسی میں خلل ڈالا ہے!
آپ دکاندار سے یا کائونٹر پر بیٹھے ہوئے صاحب سے کچھ پوچھتے ہیں‘ وہ یا تو جواب ہی نہیں دیتا یا انتہائی بددلی سے ایک نامکمل جواب دیتا ہے!
اچھی خاصی پارکنگ کی جگہ چھوڑ کر دکان کے عین سامنے گاڑی کھڑی کرتے ہیں۔ اصل میں بس نہیں چلتا ورنہ گاڑی کو اندر لے جائیں اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی خریداری کریں۔
اتنی بڑی گاڑی اندھے کو بھی نظر آ جائے لیکن ہمیں نہیں نظر آئے گی۔ اس کے عین پیچھے گاڑی پارک کریں گے۔ واپس آئیں گے تو وہ شخص جس کی گاڑی بلاک تھی‘ کہے گا کہ آپ کو یہاں گاڑی کھڑی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ہم اس سے معذرت کے دو بول نہیں کہیں گے۔ ایک بدبخت گائودی کی طرح‘ ایک نیچ کی بے شرمی کے ساتھ ٹھسّے سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چل دیں گے۔
دیکھ رہے ہیں کہ دکاندار ایک گاہک کو اٹنڈ کرنے میں مصروف ہے‘ پھر بھی دکاندار کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں بھی اتنا شعور نہیں کہ انتظار کرنے کی تلقین کرے۔ وہ دو گاہکوں کو بیک وقت اٹنڈ کرنے لگے گا۔ ایک کا کام تسلی بخش ہو گا‘ نہ دوسرے کا! اور تو اور‘ اے ٹی ایم کے کیبن میں کھڑے ہو کر ٹیلی فون پر لمبی بات کریں گے‘ یہ سوچے بغیر کہ باہر لائن لگی ہے!
ترقی یافتہ ملکوں میں یہ قاعدہ عام ہے کہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کا آپ کی توجہ پر زیادہ حق ہے بہ نسبت اس کے جو فون پر بات کرنا چاہتا ہے۔ آپ جب تک اپنی بات یا اپنا کام ختم نہیں کر لیتے‘ وہ فون نہیں سنے گا یا فون کرنے والے کو بتائے گا کہ بعد میں بات ہو گی۔ مگر ہم سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو عجیب و غریب صورت حال میں ڈالنے کے ماہر ہیں۔ فون پر لمبی غیر ضروری بات ہو رہی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا فون اٹنڈ ہو رہا ہے۔ سامنے بیٹھا ہوا سائل یا ضرورت مند‘ یا کلائنٹ‘ اٹھ کر جا سکتا ہے نہ ہی ہماری توجہ حاصل کر پاتا ہے۔
ہماری بداخلاقی سوشل میڈیا پر بھی چھائی ہوئی ہے۔ مہذب دنیا میں جب مارکیٹنگ کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے ای میل کی جاتی ہے تو لامحالہ‘ ای میل کے مضمون کے آخر میں یہ آپشن دیا جاتا ہے کہ اگر آئندہ اس قسم کی میل وصول نہیں کرنا چاہتے تو یہاں کلک کریں۔ اسے UN-Subscribe کرنا کہتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں! ہر شخص اپنے مخصوص مذہبی نظریات یا سیاسی نقطہ نظر کی تبلیغ کرنا چاہتا ہے۔ سو ڈیڑھ سو ای میل ایڈریس نہ جانے کہاں سے اکٹھے کر لے گا۔ پھر اللہ دے اور بندہ لے! دھڑا دھڑ ای میلیں آپ کے ان بکس میں اتریں گی۔ آپ ان ای میلوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں مگر وہ آپشن تو دیا ہی نہیں گیا۔ پھر آپ خصوصی ای میل کرتے ہیں کہ جانِ برادر! اِس طویل فہرست سے میرا ایڈریس ازراہ کرم نکال دیجیے۔ تجربہ یہ ہے کہ صرف دس فیصد لوگ اس درخواست کو درخور اعتنا گردانیں گے! ایک ریٹائرڈ وفاقی سیکرٹری نے چند سیاست دانوں کو دام میں لا کر ایک تھنک ٹینک قسم کی شے قائم کی ہے۔ اب ان صاحب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار کون ہو گا؟ بے شمار رپورٹیں‘ جو ردی کی ٹوکری میں پھینکے جانے کے قابل ہیں‘ دھڑا دھڑ بھیج رہے ہیں۔ زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ بدقسمتی سے ایسی ای میلیں بلاک کرنے کی گنجائش بھی کم از کم میرے آئی پیڈ پر نہیں!
ان بداخلاقیوں کے لیے ایس ایم ایس ہی کیا کم تھا کہ وٹس ایپ بھی پلے پڑا ہوا ہے۔ مذہبی روایات‘ سیاسی بحثیں‘ وڈیوز‘ سب کچھ بھیجا جا رہا ہے۔ ساتھ یہ تلقین بھی کہ جان کی خیر چاہتے ہو تو دس افراد کو آگے روانہ کرو۔ خوش قسمتی سے ایسے فارغ اصحاب کے ایس ایم ایس اور وٹس ایپ بلاک کیے جا سکتے ہیں!
یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ من حیث القوم ہم میں پیدائشی نقص یعنی
manufacturing Defect ہے۔ ہرگز نہیں! خلاّقِ عالم نے ساری صلاحیتیں‘ حواسِ ظاہری اور غیر مرئی اعضا ہماری قوم کو کمال فیاضی سے عطا کیے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو ہم پاکستانی دوسرے ملکوں میں جا کر جون کیسے بدل لیتے؟ کیا آپ نے بارہا نہیں دیکھا کہ پاکستانی لندن یا نیو یارک کے ہوائی اڈوں پر کتنے خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ اپنی باری کا انتظار خوش دلی سے کرتے ہیں۔ گفتگو آہستہ آواز میں کرتے ہیں۔ مسکرا کر تھینک یو اور پلیزکہنا نہیں بھولتے۔ سپر سٹور پر اگر گوشت ختم ہو رہا ہے تو آخری پیس دوسرے گاہک کو خریدنے کا موقع دیتے ہیں اور ساتھ مسکراہٹ بھی بکھیرتے ہیں۔ سفید فام لوگوں کی دعوت میں وقت پر پہنچتے ہیں۔ جہاں ٹیلی فون کرنا ہے‘ ضرور کرتے ہیں اور تاخیر سے گریز کرتے ہیں۔ مگر جیسے ہی کراچی لاہور یا اسلام آباد کے ایئرپورٹ پر اترتے ہیں‘ کایا کلپ ہو جاتی ہے۔ ایئر ہوسٹس کا لہجہ بھی کھردرا ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی اعلان ہوتا ہے کہ ابھی اپنی اپنی نشستوں پر ہی تشریف رکھیے‘ سب یوں اٹھ پڑتے ہیں جیسے نشست پر بجلی کے کرنٹ نے ڈس لیا ہے۔ دوسروں کے سروں کے اوپر سے سامان وحشیانہ سرعت کے ساتھ اتارا جائے گا۔ تھینک یو اور پلیز کے الفاظ لغت میں جیسے کبھی تھے ہی نہیں! چہروں پر مسکراہٹ کی جگہ غیظ و غضب سے بھرے مکروہ نقوش نے لے لی ہے۔ ہر شخص کو جلدی ہے۔ بیلٹ سے سامان اتارتے وقت 
ہمارے اندر کی پاکستانیت عروج پر ہوتی ہے! پھر شاہراہیں تو ہمارے باپ دادا کی ملکیت ہیں۔ سگریٹ کی خالی ڈبیا‘ خالی ماچس‘ پھلوں کے چھلکے‘ خط نکالنے کے بعد خالی لفافہ‘ یہ ساری اشیا صرف ٹیکسیوں اور رکشوں سے باہر نہیں پھینکی جاتیں‘ شاہراہوں پر یہ احسانات بی ایم ڈبلیو‘ مرسڈیز اور پجارو والے بھی کر رہے ہیں۔
بچّے بھی یہی کچھ سیکھ رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں‘ ان کے کورے ذہنوں پر نقش ہو جاتا ہے۔ ہماری اپنی زندگیاں تو جنگلیوں کی طرح گزر گئیں‘ کم ازکم بچوں کے معاملے میں تو ہوش کے ناخن لیں۔ انہیں سکھائیں کہ شکریہ کہنا ہے۔ کسی کو زحمت دینی ہو تو پلیز یا ''مہربانی ہو گی‘‘ کے الفاظ کہیں۔ دوسرے بات کر رہے ہوں تو درمیان میں نہ کودیں‘ بلکہ انتظار کریں۔ کھانے میں نقص نہ نکالیں۔ اگر کوئی ڈش پسند نہیں تو بے شک نہ کھائیں‘ مگر تنقید نہ کریں۔ اندھوں‘ لنگڑوں‘ بہروں کا مذاق نہ اڑائیں۔ ان کے تضحیک آمیز نام نہ رکھیں۔ اگر کوئی حال چال پوچھے تو شکریہ ادا کرکے اس کا حال احوال بھی دریافت کریں۔ مہمان سے ہاتھ ملاتے وقت اس کی طرف دیکھیں۔ دوست کے گھر کھانا کھائیں یا پارٹی اٹنڈ کریں تو اس کے ماں باپ کا شکریہ ضرور ادا کریں۔ کسی کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دستک دیں۔ فون کریں تو پہلے اپنا نام بتائیں اور پھر پوچھیں کہ کیا میں فلاں سے بات کر سکتا ہوں۔ ای میل یا ایس ایم ایس کے ذریعے ضروری پیغام وصول کریں تو وصولی کی اطلاع دیں ''او کے۔ شکریہ‘‘ لکھ کر بھیجنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ کسی کے گھر جا کر کوئی دستاویز یا خط یا پیغام دیتے وقت وصول کرنے والے کا نام ضرور پوچھیں۔ مذاق کرتے وقت کسی کی عزت نفس نہ مجروح ہونے دیں۔ چلتے وقت کسی سے ٹکرا جائیں تو معذرت کریں۔ لوگوں کے سامنے ناک میں انگلی نہ ڈالیں۔ تھوکنے سے گریز کریں۔ کھانستے وقت یا جمائی لیتے وقت منہ پر ہاتھ رکھیں۔
خدا کرے ہماری آئندہ نسل صرف آدمی نہ ہو‘ انسان بھی ہو!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved