وزیر داخلہ اور ہمارے کرم فرما چوہدری نثار علی خاں نے غلط خبر چھاپنے والے صحافی کا نام لیتے ہوئے بتایا کہ اُسے بُلایا ہے مگر وہ آیا نہیں۔ اسے آنا بھی نہیں تھا کیونکہ اُسے اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ تاہم چوہدری صاحب نے واقعی اُسے بلایا تھا اور وہ نہیں آیا تو چوہدری صاحب خود اُس کے پاس چلے جاتے۔ جس نے اتنی بڑی خدمت سرانجام دی ہو‘ اسے اتنا تو پروٹوکول ملنا ہی چاہیے بلکہ جس سمدھی زادے نے مبینہ طور پر صحافی کو ایسی خبر چھاپنے کے لیے کہا تھا‘ اسے بھی گھر بُلایا جاتا تو وہ بھی نہ آتا کیونکہ دراصل تو نہ کسی کو بلانے کی ضرورت تھی نہ کسی کے آنے کی‘ البتہ رسمی انکوائری ضرور شروع کر دی گئی ہے بلکہ ایک کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔
ہمارے لیے یہ بات باعث صد اطمینان ہے کہ بالآخر حکومت نے اپنی اتھارٹی باقاعدہ اسرٹ کرنا شروع کر دی ہے بلکہ آنکھیں دکھانے کا آغاز بھی کر دیا گیا اور حالات و واقعات سے یہ بات ثابت بھی ہوتی ہے ورنہ پہلے صورتحال کافی مختلف تھی اور اس حکایت کے مطابق کہ ایک بار کوئی شخص فائیو سٹار ہوٹل میں ایک اُونٹ اور بکری کو لے کر آیا کہ یہ گانا بہت اچھا گاتے ہیں‘ اگر آپ کو پسند آ جائیں تو انہیں فروخت بھی کر سکتا ہوں۔ ہوٹل انتظامیہ نے بڑا ہال سجایا اور اپنے جملہ مہمانوں کو اس میں لا بیٹھایا۔ اُونٹ اور بکری نے اتنا عمدہ گانا گایا کہ ہال کافی دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ انتظامیہ بہت خوش ہوئی اور بھائو تائو کے بعد انہوں نے اپنے مہمانوں کی تواضع اور تفریح کے لیے دونوں جانور خرید لیے۔ جب رقم وغیرہ ادا ہو چکی تو شخص مذکور نے کہا کہ دیانتداری کا تقاضا ہے کہ میں آپ کو بتا دوں کہ گانا بکری گاتی ہے جبکہ اُونٹ صرف ہونٹ ہلاتا ہے!۔
ظاہر ہے کہ اب تک تو گانا بکری ہی گاتی رہی ہے لیکن اب حکومت کا شُتر بھی کافی بے مہار ہو چلا ہے اور شُتر غمزے دکھانے لگا ہے اس لیے اب وہ صورت نہیں رہی اور بکری اگر کسی بکرے کی ماں ہے تو وہ اُس کی خیر مناتی رہے۔ بلکہ اب تو حکومت کے لیے اور بھی بہت سی آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں کیونکہ دوسری سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کر دیا ہے کہ مودی کا جو بھی یار ہے‘ غدار نہیں بلکہ مُحب وطن ہے اور انہوں نے الطاف حسین کو انکل بھی کہہ دیا ہے جبکہ وزیراعظم موصوف کے تایا جان پہلے سے ہی ہیں اور یہ بھی ہے کہ حکومت خود اگر الطاف حسین کو مُحب وطن نہ سمجھتی تو ''را‘‘ کا ایجنٹ ہونے اور اس سے پیسے لیتے رہنے کی بنا پر غدّاری کا مقدمہ چلا سکتی تھی۔ اس لیے اب کوئی بھی غدار نہیں رہا‘ سب ایک دوسرے سے بڑھ کر مُحب وطن ہیں‘ جلنے والوں کا مُنہ کالا۔
مودی کے ساتھ ہمارا سب سے بڑا جھگڑا کشمیر کا ہے اور وزیراعظم چونکہ خود بھی کشمیری ہیں اس لیے اس معاملے پر ان کی سنجیدگی سمجھ میں آتی ہے اور جو اس سے ہی ظاہر ہے کہ پچھلے دنوں کشمیر کے موضوع پر پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں میاں صاحب اس لیے تشریف نہیں لے گئے کہ پارلیمنٹ اپنا کام کر رہی تھی اور میاں صاحب کشمیریوں کے حق میں دلی دعائوں میں مصروف تھے۔ تاہم میاں صاحب نے کشمیر اور مودی کے حوالے سے نہ سہی‘ بصورت دیگر دلیری کا ثبوت دے کر سب کو حیران ضرور کر دیا ہے۔
دوسری طر ف وہ جمہوریت کے فکر میں غلطاں رہتے ہیں اور اسے مضبوط بنانے اور مکمل طور پر موروثی بنانے کی بھی انہوں نے پُرزور کوشش کی کہ کسی طرح مریم نواز کو نواز لیگ کا صدر بنوا لیں لیکن میاں شہبازشریف آڑے آ گئے اور یہ جمہوریت نواز منصوبہ ناکام ہو کر رہ گیا جبکہ میاں شہبازشریف کے پاس جمہوریت کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک اپنا فارمولا ہے جس کے تحت وہ خود میاں نوازشریف کی جگہ لیتے کیونکہ ان کی صحت حکومت کا مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتی اور حمزہ شہباز کو اپنی جگہ پر فٹ کرنا ہے‘ کیونکہ موجودہ صورتحال میں جمہوریت موروثیت ہی کے ذریعے مضبوط ہو سکتی ہے کہ جتنا اس کے وارث مضبوط ہوںگے اتنی ہی جمہوریت پھولے پھلے گی جبکہ اس کے خلاف اُٹھنے والے بادل اور گھرتی ہوئی گھٹائیں چھٹتی جا رہی ہیں۔
تازہ ترین درفنطنی یہ ہے کہ ادھر کچھ منچلوں نے شرطیں لگانا شروع کر دی ہیں کہ وزیراعظم آذر بائیجان سے واپس نہیں آئیں گے بلکہ کسی پسندیدہ اور بڑے ملک میں جا کر سیاسی پناہ کی درخواست دیں گے‘ یا کسی ملک میں جا کر لاپتہ ہو جائیں گے جیسا کہ پچھلے دنوںایک افریقی ملک کا صدر امریکہ جا کر لاپتہ ہو گیا تھا‘ یا وہ چپکے سے کسی تیسرے درجے کے کلینک میں حسب سابق پہلے اپنا چیک اپ کرائیں گے اور پھر اسی میں داخل ہو کر ایک ماہ تک زیر علاج رہیں گے جبکہ پچھلی بار غلطی یہ ہو گئی تھی کہ اوپن ہارٹ سرجری کے بعد انہوں نے تیسرے چوتھے دن ہی سیڑھیاں اُترنا چڑھنا اور باہر جا کر شاپنگ وغیرہ شروع کر دی تھی اور جہاں تک مُلک اور حکومت کا معاملہ ہے تو ان کی غیر حاضری میں اسحاق ڈار انہیں زیادہ مہارت سے چلا رہے تھے۔
عدنان خالد
پچھلے دنوں عدنان خالد کی ایک غزل موصول ہوئی تھی‘زمین جانی پہچانی تھی‘ میں نے بھی تھوڑے تصّرف کے ساتھ اس پر طبع آزمائی کی تھی جو اگلے روز پیش کر چکا ہوں۔ ان کی یہ غزل دیکھیے :
بس اُس کو لاجواب کیا اور چل پڑا
سائے کا انتخاب کیا اور چل پڑا
ملنا نہیں تھا اس کو بہانہ کہ چھوڑ دے
خود میں نے دستیاب کیا اور چل پڑا
دُنیا میں آ کے میں نے کیا کون سا کمال
جینے کا ارتکاب کیا اور چل پڑا
کچھ دیر پیشتر بڑی شفاف تھی ندی
چھو کر اسے خراب کیا اور چل پڑا
اس تیرگی میں مجھ سے قناعت نصیب نے
جُگنو کو ماہتاب کیا اور چل پڑا
یہ دیکھئے کہ دشت سے نالاں ہے کس لیے
خود کو سپرد آبِ کیا اور چل پڑا
آج کا مقطع
جو ڈاکوئوں سے ظفرؔ بچ رہیں گے وہ خوش بخت
محافظوں کی حفاظت میں مارے جائیں گے