تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     15-10-2016

متفرقات

بڑا جسم چھوٹا دماغ:
ایک کالم میں بھارتی مسلح افواج پر دی اکانومسٹ یاکسی مغربی اخبار کا یہ تبصرہ نظر سے گزرا:''بھارتی افواج کی مثا ل ہے: بڑاجسم اور چھوٹادماغ‘‘۔ یعنی اس کا سائز اور حجم تو یقینابڑا ہے ،کیونکہ افواج کے سائز کا مدار جوانوں اور افسروں کی تعداد، ہر قسم کے اسلحے کی مقدار اور دستیاب وسائل پر ہوتا ہے ۔ ان تمام شعبہ جات میں بھارتی افواج پاکستانی افواج سے کئی گنا زائد ہیں،رقبے کی وسعت کی بنا پر بھارت میں ہر جہت سے گہرائی اور گیرائی بھی زیادہ ہے۔
اس کے برعکس ''دماغ چھوٹا‘‘ہونے کا جو استعارہ استعمال ہوا ہے ،اس سے مراد یہ ہے کہ جنگی ہتھیار قابلِ استعمال حالت میں نہیں ہیں، فرسودہ ہیں، ان کی دیکھ بھال اور مرمت ٹھیک طور پر نہیں کی جاتی ۔ فوج کا ایک بڑا حصہ ملک کے مختلف حصوں میں آزادی کی تحریکوں کو کچلنے میں مصروف عمل ہیں، جو ایک اکتادینے والا عمل ہے ۔ اسلحہ حریت پسندوں اور باغیوں کے ہاتھ فروخت ہونے کی بھی اطلاعات ہیں ،جو فوج میں کرپشن کی علامت ہے اوربھارتی فوج کے جذبے پر بھی سوالیہ نشان ہے ۔
لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ دنیا میںآبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر،رقبے کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر اوردنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار ملک بھارت کی سیاسی قیادت نہایت پست ذہنی سطح کی حامل ہے۔ملک کے دستور کی اساس جن اصولوں پر قائم ہے، اُن میں سیکولرازم سرِ فہرست ہے ،اس سے مراد یہ ہے کہ ریاست مذہب کے معاملے میںفریق نہیں ہے اور کسی خاص مذہب کی سرپرستی اُس کے منشور میں شامل نہیں ہے ۔
لیکن ملک کے وزیرِ اعظم کی شہرت ایک شدت پسند مذہبی نظریات کے حامل قوم پرست کی ہے ، حالانکہ ملک میں مذہبی ، لسانی اور نسلی اعتبار سے تکثُّر اورتعدُّد(Plurality)ہے۔ ایک جانب بھارت اُسے اپنا افتخار قرار دیتا ہے اور دوسری جانب مذہب کی بنیاد پر نفرت اور شدت پسندی کا علمبردار ہے اور اُس کا وزیرِ اعظم اس ساری فکری تحریک کا سرخیل ہے۔ مُلک میں خالصتان، تامل نائو ، ناگالینڈ ،تری پورہ اور منی پور کی صورت میں علیحدگی کی تحریکیں جاری ہیں اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے حقِ حُرِیّت کو تو اقوامِ متحدہ نے بھی تسلیم کر رکھا ہے ۔نریندر سنگھ مودی نے ہندو انتہا پسند تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشد، سنگھ پریوار اور اُن کی ذیلی تنظیموں کی مدد سے 2014کا الیکشن جیتا۔بھارتیہ جنتا پارٹی کا پہلا جنم انتہاپسند ہندونوجوانوں کی تنظیم ''جَنْ سنگھ ‘‘کے نام پر ہوا تھا ۔ پاکستان میں مذہبی عسکریت تو امریکہ اور اہلِ مغرب کا مَن پسند موضوع ہے ،لیکن ہندوستان میں حکومتی سرپرستی میں اُس کی حامی شدت پسند ہندو تنظیموں کی برپا کردہ نفرت انگیزی اور فرقہ ورانہ تصادم سے وہ آنکھیں بند رکھتے ہیں ،کیونکہ اُن کے لیے ہندوستان کی سوا ارب کی مارکیٹ نہایت پُر کشش ہے اور ہندوستان کو چین کے مقابل ایک متوازی فوجی قوت کے طور پرکھڑاکرنا اُن کاترجیحی ہدف ہے ۔مگر حالیہ سارک کانفرنس کے اِلتواء سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ موجودہ بھارت ''ہندو توا‘‘کے استعماری نظریے کا عَلَم بردار ہے اوروہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر چلنے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات:
امریکی ہمیشہ فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہم ایک سیکولر مُلک ہیں اور ہمارے آئین کی دوسری ترمیم یہ ہے : ''کانگریس کسی خاص مذہب کواستحکام دینے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کرے گی‘‘۔ نائن الیون کے بعد مغرب میں ''اسلاموفوبیا‘‘ کی اصطلاح وجود میں آئی ،لیکن حالیہ صدارتی انتخاب کی مہم نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا،یہ تو 8نومبرکو معلوم ہوگا کہ امریکی کسے اپنا صدر منتخب کرتے ہیں ۔لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں ایک اَوسَط ذہنکے شخص کا تمام انتخابی مراحل سے گزرتے ہوئے کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت کی حامل ریپبلکن پارٹی کا باقاعدہ صدارتی امیدوار بن جانا ،پوری دنیا کے لیے حیرت کا باعث ہے۔ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے روزِ اول سے مسلمانوں ،اسپینش باشندوں ،سیاہ فام امریکیوں اور تارکینِ وطن کے خلاف اپنے بغض اور نفرت کو ایک لمحے کے لیے بھی چھپایا نہیں ہے ۔یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ ریپبلکن پارٹی امریکہ میں دائیں بازو کے سرمایہ داروں اور کارپوریٹ اجارہ داروں کے مفادات کی نمائندہ جماعت ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مالی طور پر کمزور طبقات کے لیے ہیلتھ کیئر اور فوڈ اسٹیمپ پروگرام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ٹیکس میں کمی کی بات کرتے ہیں اور یہی چیز بڑے سرمایہ داروں کے لیے پر کشش ہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوں یا نہ ہوں ،ہر صورت میں دنیا کو اُن کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ امریکی سفید فام طبقات اور اُمراء کے دلوں میں معاشی اعتبار سے نچلے طبقات کے لیے جو انتہا درجے کی نفرت مستور تھی ،انہوں نے اُس پر سے پردہ اٹھادیا ہے اور آنے والے زمانے میں امریکہ کا دامن تارکینِ وطن اور مسلمانوں کے لیے سمٹتا چلا جائے گا۔پس اہلِ مغرب کے ذہن بھی اب دوسروں کے لیے نفرت کی آماجگاہ بن چکے ہیں اور تنگ ہوتے جارہے ہیں۔ جرمن چانسلرانجیلا مرکل نے شامی پناہ گزینوں کی ایک مُعتَدبہ تعداد کو اپنے ملک میں قبول کرنے کا فیصلہ کیا تو وہاں کی قوم پرست جماعت نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ، اُس کے بعد وہ بعض مقامی اور صوبائی انتخابات ہارچکی ہیں۔سو یہ صورتِ حال بھی خطرے کی گھنٹی ہے ،اسی طرح برطانیہ ،فرانس اور دیگر یورپین ممالک میں بھی نیشنلسٹ جماعتیں پہلے سے زیادہ مقبولیت حاصل کر رہی ہیں،الغرض مغرب دنیا کی قیادت کا اخلاقی جواز کھوچکا ہے ۔ اہلِ مغرب اپنے ذہنوں میں موجود نفرت کے الائو کو جمہوریت اوراظہارِ رائے کی آزادی کے پردوں میں چھپائے رکھتے ہیں، جب کہ ہماری بعض کمزوریوں کو دس تہوںسے بھی باہر نکال کر ہمیں بلیک میل کرتے ہیں اور ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رکھتے ہیں،کیونکہ ہم خود اپنی پیدا کردہ کمزوریوں کے باعث مکالمے میں جارحانہ پوزیشن اختیار نہیں
 کرپاتے ۔
 
دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر،رقبے کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر اوردنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار ملک بھارت کی سیاسی قیادت نہایت پست ذہنی سطح کی حامل ہے
 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved