صحافی اور اخبار کا موقف صحافتی تنظیموں کی طرح فوج نے بھی قبول کر لیا کہ قصور خبر نگار کا نہیں فیڈ یا پلانٹ کرنے اور چھپوانے والوں کا ہے ؎
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
انگریزی محاورے کے مطابق فوج نے حکومت سے یہی مطالبہ کیا کہ پیغام رساں کو مارنے کی بجائے امریکہ‘ بھارت اور عالمی برادری کو غلط سگنل دینے والوں کی سرکوبی‘ سرزنش کرے۔ کور کمانڈرز نے خبر کی اشاعت کو قومی سلامتی کے منافی قرار دے کر گیند حکومت کی طرف اچھال دی ہے ۔
انتہائی خفیہ اجلاس کی کارروائی لیک کرنے کو جرم تو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے بھی قرار دیا۔ وزیراعظم ہائوس سے تین بار پریس ریلیز کا اجراء‘ اظہار تشویش اور کارروائی کی ہدایت اس جُرم کی سنگینی کا اعتراف ہے۔ پہلے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر حکومت سے خبر لیک اور اخبار کو فیڈ کرنے والے شخص یا اشخاص کا نام ظاہر کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے اب کورکمانڈرز کانفرنس کی توثیق کے بعد یہ پوری فوج کا مطالبہ ہے مسلم لیگ نون کے رہنما محمد زبیر نے تو یہ بھی کہہ ڈالا کہ یہ سٹوری کہیں صحافی کے ذہن کی اختراع نہ ہو مگر اخبار اور صحافی قربانی کا بکرا بننے کے لیے تیار نہ فوج ذمہ داری کا بوجھ اس پر ڈالنے کی خواہش مندہے۔ البتہ کوئلوں کی دلالی سے انکار ممکن نہیں‘ جس نے مادر پدر آزاد صحافت کا مُنہ کالا کیا۔ اس حرمان نصیب ملک میں ایسے دانشوروں‘ صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی کمی نہیں جو عقیدہ‘ ملک اور قوم پر اپنی مرضی کے سچ کو ترجیح دیتے اور مادر پدر آزاد صحافت کی وکالت کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ''میں ہندوستانی تھا‘ میں ہندوستانی ہوں‘‘ کی پارٹی یعنی ایم کیو ایم لندن کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کا موقع اسی سوچ نے فراہم کیا۔ ملا فضل اللہ ‘ براہمداغ بگٹی اور اجیت دودل اس سہولت سے کب فائدہ اٹھائیں گے؟ کوئی آئے آئے کہ دل ہم کشادہ رکھتے ہیں۔
سٹوری چھپنے کے بعد حکومت کے پاس آپشن تھی‘ وہ اس کی تصدیق کئے بغیر خاکی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سٹینڈ لیتی کہ ایک خبر سے خواہ وہ پورا سچ ہے‘ آدھا یا مکمل جھوٹ‘ سول ملٹری تعلقات پر کوئی زد پڑتی ہے‘ نہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے ‘ لہٰذا زیادہ سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں مگر حکمران جانتے تھے کہ یہ محض ایک خبر نہیں پوری چارج شیٹ ہے۔ فوج اور آئی ایس آئی سے زیادہ ریاست کے خلاف۔ میمو گیٹ طرز کا معاملہ‘ جسے میاں نوازشریف صاحب سپریم کورٹ لے گئے تھے۔ جہاد کے لفظ اور فوج کے ادارے سے الرجک جو دانشور یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر ریاست کے مفاد کو حافظ سعید اور مسعود اظہر کی خاطر خطرے میں کیوں ڈالا جائے انہیں الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کیس خارج کرنے کے فیصلے کی ٹائمنگ اور علت پر توجہ دینی چاہیے۔ پانچ لاکھ پائونڈ کی رقم برآمد ہوئی ''را‘‘ کی فنڈنگ کا ثبوت مل گیا اور کراچی کو بندوق کے زور پر یرغمال بنانے کی حکمت عملی بھی سامنے آ گئی مگر پاکستان سے برطانوی تعلقات‘ دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور ایک آزاد و خودمختار ریاست کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے مکروہ منصوبے کو بالائے طاق رکھ کر یہ فیصلہ ہوا‘ براہمداغ بگتی برملا پاکستان میں باغیانہ سرگرمیوں کا اعتراف کرتا ہے مگر بھارت اُسے شہریت دینے کو تیار ہے‘ مُلّا فضل اللہ اور پاکستان کو مطلوب کئی دوسرے افراد امریکی فوج اور کٹھ پتلی حکومت کے زیرسایہ تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں مگر کسی نے پاکستان کی نہیں سنی جس کا مطلب ہے کہ ہر ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور دیگر ریاستی ادارے مخالفانہ پروپیگنڈے اور دبائو کی پروا کئے بغیر اپنے پروردہ نان سٹیٹ ایکٹرز کو تحفظ فراہم کرتی اور سٹرٹیجک فوائد سمیٹتی ہیں۔
خبر پر سٹینڈ نہ لے کر حکومت نے اپنے طور پر فریق ثانی کو مطمئن اور معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کی سعی کی۔ ٹال مٹول سے مہلت حاصل کرنے اور کسی کو قربانی کا بکرا بنانے کی تدبیر ماضی میں ہمیشہ کارگر ثابت ہوئی۔ 1997ء میں سپریم کورٹ پر حملہ کس کے ایما پر ہوا؟ ہر ایک جانتا ہے مگر سزا طارق عزیز (نیلام گھر فیم) اختر رسول اور میاں منیر نے بھگتی۔ شریف برادران صاف مُکر گئے۔ مشاہداللہ کے ساتھ یہی ہوا اور اب بھی شائد قربانی کا کوئی بکرا کام آئے۔ تاہم معاملہ قدرے گمبھیر ہے۔ انگریزی اخبار کو خبر فراہم کرنے والے کسی وزیر‘ مشیر کو اوپن کرنا اپنے خلاف سلطانی گواہ تیار کرنے کے مترادف ہے جس کے میاں صاحب متحمل نہیں۔ اس خبر نے دونوں اطراف بے اعتمادی اور شک و شبہ کی ایسی فضاء پیدا کی ہے کہ باید و شائد۔ آئے روز مشاورت سے چھوٹے موٹے اختلافات طے کرنا اب ممکن نہیں رہا اور اس کے اثرات نئے آرمی چیف کے تقرر پر بھی مرتب ہوں گے جو وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے مگر 1999ء میں فوج بطور ادارہ اس صوابدیدی اختیار کو چیلنج کر چکی ہے۔ وجہ اس وقت بھی اعتماد کا فقدان اور ملک کے مضبوط ادارے کو کمزور کرنے یا ہدف مذاق بنانے کا تاثر تھا۔ اس وقت جبکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ اور نئے چیف کے تقرر کا مرحلہ قریب ہے اور بھارت نے طوفان برپا کر رکھا ہے کہ فوج پاکستان میں ریاستی معاملات کو کنٹرول کرنے کے علاوہ نان سٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ یہ خبر لیک کرنے کا فائدہ کس کو ہوا اور نقصان کس نے اٹھایا ؟کوئی اور سوچے نہ سوچے عسکریت قیادت نے ضرور سوچا اور شائد یہ بھی کہ ہر آرمی چیف کے ساتھ میاں نوازشریف کے تعلقات خراب کیوں ہوتے ہیں اور کمان کی تبدیلی کے مرحلہ پر وہ بے صبری کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں۔
اس خبر کے افشا کی ٹائمنگ خارجہ پالیسی اور امریکہ بھارت تعلقات کے حوالے سے تو خیر اہم ہے ہی‘ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اور تقرر کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو حکمرانوں کے مزاج کی عکاس ہے۔ میاں صاحب کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ جب کمزور ہوں تو جھک جاتے ہیں اور ذرا سی مہلت ملے تو گریباں پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔اعتزاز احسن نے 2014ء میں پیرپگارا کے حوالے سے یہ بات پارلیمنٹ میں دہرائی تھی‘ دھرنے کے دوران جنرل راحیل شریف کو مصالحتی مشن سونپنے اور پھر اپوزیشن کے دبائو پر مُکر جانے کی بات کسے یاد نہیں۔ تاہم جن لوگوں نے بھی میاں صاحب کو یہ مشورہ دیا کہ چاروں طرف سے مشکلات میں گھری فوج پر قابو پانے کا یہ بہترین موقع ہے اور امریکہ و بھارت کے بڑھتے ہوئے دبائو کی بنا پر فوج کو دیوار سے لگا کر عمران خان کا مکّو ٹھپنے کا یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے وہ نادان دوست ہیں۔ 1999ء میں بھی یہی لوگ میاں صاحب کو ''قدم بڑھائو نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے نعروں سے مسحور کر کے 12 اکتوبر کے گھاٹ تک لے گئے تھے اب بھی شاید وہ یہی چاہتے ہیں‘ نہیں جانتے کہ پاکستانی عوام اور محب وطن میڈیا کو فوج اور خفیہ اداروں سے مختلف النوع شکایتیں ہیں وہ مہم جو جرنیلوں کو بھلے پسند نہ کریں مگر امریکہ و بھارت کی خواہش کے مطابق‘ اس قومی ادارے کو کمزور کرنے کے حق میں ہیں نہ اسے دنیا کے سامنے بدنام کرنے والوں سے خوش۔ ہر ذی شعور بھارتی عزائم سے واقف ہے اور امریکی ریشہ دوانیوں کے علاوہ جمہوریت‘ سول بالادستی اور آزادی اظہار کے نام پر ایک طبقہ دشمن سے برسر پیکار فوج کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر داد کے طلب گار طبقے سے بھی آخری معرکے میں پاکستان کا دفاع فوج کرے گی‘ اس کے بہادر سپاہی اور ذہین افسر۔ بھارت کے شردھالو اور امریکہ کے وظیفہ خوارو اطاعت گزار تو بیرون ملک اپنی عشرت گاہوں کی طرف بھاگنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کریں گے۔ آزمائش کی کس گھڑی میں ہماری موجودہ تعیش پسند قیادت نے ملک میں رہنا گوارا کیا۔ بہتر ہے کہ حکومت خبر لیک کرنے والے فرد کو قوم کے سامنے لائے‘ اپنی بُکل کے چور کا پتہ چلائے‘ مقاصد سے آگاہ کرے اور قرار واقعی سزا دے۔ سول ملٹری تعلقات میں رخنہ اندازی‘ دشمن کو بیانیہ فراہم‘ پاکستان کو دہشت گردوں کا گڑھ اور دفاع وطن کے ذمہ دار اداروں کو سٹیٹ ایکٹرز کا سرپرست ثابت کرنے کا مقصد کیا تھا؟؟ ورنہ معاملہ دگرگوں ہے اور ذمہ دار فقط ہموار سول ملٹری تعلقات کو ناہمواری سے دوچار کرنے والے ہیں۔ عسکری قیادت سے چھیڑ چھاڑ کے بغیر جن کو چین نہیں ملتا۔ کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ورلڈ کلاس فوج کو کس تھرڈ کلاس اشرافیہ سے پالا پڑا ہے۔ خدمت کے جذبے‘ اخلاقی برتری‘ اعلیٰ کارکردگی اور تدبّر سے محروم اشرافیہ۔