پاکستان کی ''گڑھتی‘‘ میں خدا معلوم کیا رکھا گیا ہے کہ یہاں ہنگامے ختم ہی نہیں ہوتے۔ مارشل لا تو خیر مارشل لا ہے، جمہوری ادوار میں بھی ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ پارلیمانی نظامِ حکومت ہمیں انگریزوں سے ورثے میں ملا ہے، اور ہمارے نزدیک جمہوریت اسی کا نام ہے۔ صدارتی طرزِ حکومت چونکہ فوجی حکمرانوں کو مرغوب رہا، اِس لیے یہ ہمیں آمریت کا پرتو نظر آتا ہے۔ بھارت کو بھی پارلیمانی نظام مرغوب ہے، لیکن وہ آزادی کے بعد سے آج تک اسے بخیر و خوبی چلا رہا ہے۔ اُس کے ہمسائے چین نے مرکزیت اور یک جماعتی ''جمہوریت‘‘ کو اپنایا ہے، اور صدقِ دِل کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کو اپنی قیادت کا مستحق ٹھہرایا ہے۔ آج بھی وہاں یہی جماعت اپنا پرچم لہرا رہی ہے، اور ''گراں خواب‘‘ چینی ایسے سنبھلے ہیں کہ دُنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گئے ہیں۔ اگر سفر جاری رہا تو وہ دن آ جائے گا، جب یہ امریکہ کو پچھاڑ جائیں گے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ کی آبادی بہت کم، اس کی فی کس آمدن بہت زیادہ اور ٹیکنالوجی میں اس کی دسترس بے حد و حساب ہے، اس کی تخلیقی صلاحیتوں کا نہ صرف انکار ممکن نہیں، بلکہ اِس دوڑ میں اُس سے آگے نکلنے کا (فی الحال) تصور بھی محال ہے۔ بھارت کے مقابلے میں چین نے تیزی سے ترقی کی ہے، اور آج بھی دونوں کی معیشتوں کا کوئی موازنہ ممکن نہیں۔ دونوں ایک ارب سے زائد آبادی اور بہت وسیع رقبے کے حامل ہیں، لیکن بھارتی ہاتھی کے مقابلے میں چینی چیتے کے سامنے زمین و آسماں بے کراں نہیں۔ ایک ہی جست میں وہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے، بلکہ یہ کہیے کہ پہنچ سکتا ہے۔
پاکستان نے آنکھ کھولی تو ڈھیروں مشکلات کے باوجود اس کے اربابِ اختیار اور عوام کے جنوں نے اسے تیز رفتار ترقی پذیر مُلک بنا دیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں قائم ہونے والے اس مُلک کے بارے میں اس کے ''شریکوں‘‘ یعنی ہندوستانی رہنمائوں کا خیال تھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں یہ مُنہ کے بل گرے گا، اور انڈین یونین میں واپسی کے لیے بے قرار ہو جائے گا، لیکن اس نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کیے، اور بھارت کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ معاشی، سماجی، تعلیمی اور دفاعی ہر میدان میں نیا مُلک چوکڑیاں بھر رہا تھا۔ ڈھیلے ڈھالے پارلیمانی نظام میں دور اندیشی سے اس کی بنیادیں استوار کی جا رہی تھیں، اور ایسی ادارہ سازی کی طرف توجہ دی جا رہی تھی کہ ہر آنے والا دن گزرنے والے سے بہتر ہو جائے۔ جنرل ایوب خان فوج کے سربراہ تھے اور (میجر جنرل) سکند مرزا سیکرٹری ڈیفنس، یہ اور ان جیسے دیگر حضرات تیز رفتاری کے خبط میں ایسے مبتلا ہوئے کہ اتفاق رائے سے تیار کئے جانے والے دستور کو منسوخ کرکے صدارتی نظام نافذ کرنے کی ٹھانی۔ سکندر مرزا کی بھول یہ تھی کہ شجر دستور کٹ کر گرا تو بھی ان کا آشیانہ جوں کا توں رہے گا۔ ان کی ذہانت و فطانت اُس وقت چوکڑی بھول گئی جب چند فوجی افسروں نے اُنہیں سوتے سے جگا کر اور دھکے دے کر ایوان صدر سے نکال باہر کیا۔ طاقت کا سرچشمہ فوج تھی، تو پھر فوجی ہائی کمان کے مقابل کون کھڑا ہو سکتا تھا؟ سکندر مرزا کو دیس نکالا دے دیا گیا۔ انہوں نے زندگی برطانیہ میں (کوئی معمولی سی) ملازمت کرتے ہوئے گزاری، اور پھر آنکھیں موند کر ایران میں روضۂ امام رضا کی حدود میں جا دفن ہوئے۔
ایوب خان کے دور میں صدارتی نظام قائم کیا گیا۔ بالواسطہ انتخاب کے ذریعے اسمبلیوں کا قیام عمل میں آیا۔ معاشی اور سماجی ترقی کا پہیہ تیز ہوا، لیکن سیاسی پسماندگی کا علاج نہ ڈھونڈا جا سکا۔ پاکستان ایک ایسا وفاق تھا، جس کے دو حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا، صدارتی نظام نے مشرقی پاکستان کو اقتدار سے محرومی کا تاثر دیا۔ وہاں کے سیاست دان اپنے آپ کو ایوان اقتدار میں دوسرے درجے کا شہری سمجھنے لگے۔ فیصلہ سازی کا دائرہ یوں محدود ہوا کہ بھارت کے ساتھ طبل جنگ بج گیا۔ کشمیر میں گوریلا کارروائی کے آغاز کے لیے آپریشن جبرالٹر کا آغاز کیا گیا، جس کے نتیجے میں کنٹرول لائن پر جنگ شروع ہوئی اور بالآخر اس نے بین الاقوامی سرحد کو لپیٹ میں لے لیا۔ 1965ء کی جنگ قوم نے بڑے اتحاد اور جذبے سے لڑی، اور اپنے جغرافیے کی حفاظت کرنے میں کامیاب رہی، لیکن جنوبی ایشیا کی فضا ایسی مسموم ہوئی کہ اب تک صاف نہیں ہو پا رہی، اور خدا معلوم کبھی صاف ہو بھی پائے گی یا نہیں۔ لطیفہ ملاحظہ ہو کہ ہمارے ہاں آج بھی آپریشن جبرالٹر پر بحث جاری ہے، اور اس کی ذمہ داری کے تعین پر اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا۔ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے سر اس کا سہرا سجانے اور ایوب خان کو ''معصوم‘‘ قرار دینے والے آج بھی موجود ہیں۔ ایوب خان کے دست راست، اُن کے سیکرٹری اطلاعات اور سوانح نگار الطاف گوہر کے بقول جب بھارت نے حملہ کیا‘ تو سب سے زیادہ جو شخص حیران ہوا، وہ خود ایوب خان تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے بہترین فوجی حکمران بھی نوشتہ ٔ دیوار پڑھنے میں کتنے کوتاہ نظر تھے۔ 1965ء کے بعد 1971ء کی جنگ سے ہمیں دوچار ہونا پڑا، اور ایک دوسرے فوجی حکمران کے زیر کمان ہماری تاریخ سرنڈر کی ذلت سے آشنا ہوئی۔ ایوب خانی اثرات سے ہم آج تک نکل نہیں پائے۔ سول اور فوجی قیادتوں میں اعتماد کا جو فقدان پیدا ہوا، وہ کسی نہ کسی رنگ میں آج تک اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تو تنائو تھا ہی، افغانستان بھی پہلے سے بڑا دردِ سر بن گیا ہے، اور ہم بحیثیت قوم ذمہ داری اٹھانے کے بجائے اسے ایک دوسرے کے سر ڈالنے کو کامیابی سمجھ رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے ابتدائی عشرے ''نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ نام کی بلا سے واقف نہیں تھے، لیکن اب یہ ہمیں خوابوں ہی میں نہیں، دن دیہاڑے وحشت میں مبتلا کرتی ہے۔ چند روز پہلے قومی سلامتی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی کارروائی موقر انگریزی اخبار ''ڈان‘‘ نے اس طرح چھاپی کہ ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ اِس مبینہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سول حکام کی طرف سے فوجی حکام کو بتا دیا گیا ہے کہ اگر نان اسٹیٹ ایکٹرز کو قابو نہ کیا گیا تو ہم اپنی عالمی تنہائی کا مداوا نہیں کر سکیں گے‘ اور تو اور چین کو بھی اضطراب میں مبتلا کر دیں گے۔ اِس رپورٹ کو ایک معمول کی ''اخباری گپ شپ‘‘ قرار دینے کے بجائے بہت زیادہ سنجیدگی سے لیا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے اس کی چار بار تردید جاری کی گئی۔ پہلے اسے ادھوری سچائی اور جھوٹ کا آمیزہ بتایا گیا، بعد میں اس کی مذمت کے لیے زیادہ سخت الفاظ استعمال کئے گئے۔ اِس رپورٹ کے مصنف سرل المیڈا کو وزارتِ داخلہ نے باہر جانے سے روکنے کے لیے ان کا نام ''ای سی ایل‘‘ میں ڈال دیا۔ وزیر اعظم، جنرل راحیل شریف اور دوسرے اعلیٰ حکام کی ایک میٹنگ کے بعد بھی اِس رپورٹ کی مذمت کی گئی اور وزیر اعظم کی طرف سے ذمہ داروں کے خلاف سخت اقدام کرنے کی تلقین ہوئی۔ سرل المیڈا کے خلاف کارروائی پر پاکستان بھر کے صحافتی اور سیاسی حلقوں نے احتجاج کیا تو وزیر داخلہ نے اے پی این ایس اور سی پی این ای کے رہنمائوں سے ملاقات کے بعد یہ پابندی اُٹھا لی۔ اُن کا کہنا تھا کہ سرل چونکہ دبئی جا رہے تھے، اِس لیے اُنہیں روکنا ضروری تھا۔ اگر وہ روانہ ہو جاتے تو حکومت کے خلاف ایک اور محاذ کھل جاتا۔ یہ کہا جاتا کہ حکومت نے خود اُنہیں باہر بھجوا دیا ہے تاکہ تحقیقات نہ ہو سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سرل کے خلاف کارروائی کے بعد عسکری ذرائع نے بتایا کہ انہوں نے ''ڈان‘‘ یا سرل المیڈا کے خلاف کسی کارروائی کا تقاصا نہیں کیا۔ وہ تو صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ خبر ''لیک‘‘ کیسے ہوئی، اس کا ذمہ دار کون تھا۔ جمعہ کے دن کور کمانڈرز کے ایک اجلاس کے بعد یہ پریس ریلیز جاری کی گئی کہ ''وزیر اعظم ہائوس کے اہم اجلاس کی من گھڑت خبر ''فیڈ‘‘ کرنا قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے‘‘۔ گویا زور خبر چھاپنے یا دینے والے پر نہیں ''فیڈ‘‘ کرنے والے پر ہے۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ افواجِ پاکستان کے ابلاغی ماہرین نے اپنے رہنمائوں کو کس طرح ''فیڈ‘‘ کیا ہے۔
''ڈان‘‘ ایک موقر اخبار ہے۔ اس کے ایڈیٹر ایک سینئر اخبار نویس ہیں۔ اس کے اسسٹنٹ ایڈیٹر سرل المیڈا بھی ایک باقاعدہ تجزیہ نگار ہیں، یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص اُن کی انگلی پکڑ کر اُنہیں کہیں بھی لے جا سکتا ہے۔ میڈیا میں اہم اور خفیہ اجلاسوں کی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹیں چھپتی رہتی ہیں، ان میں مبالغہ ہو سکتا ہے، غلط بیانی بھی اور سچائی بھی۔ ایک ٹی وی چینل میں بیٹھے ہوئے ایک صاحب بڑے وثوق سے یہ اطلاع دیتے ہوئے پائے گئے کہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں عسکری قیادت کی طرف سے وزیر اعظم کو ''شٹ اَپ‘‘کال دی گئی ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقا کے بارے میں ''مبصرین‘‘ دِل کھول کر جھوٹ بولتے ہیں، مبالغہ کرتے ہیں، لیکن اِس سے قومی سلامتی کو کوئی خطرہ کبھی لاحق نہیں ہوا۔ پاکستانی میڈیا سے ادنیٰ سی واقفیت رکھنے والا کوئی شخص بھی یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ '' ڈان‘‘ اور سرل المیڈا محض پوسٹ بکس ہیں۔ ان میں کوئی بھی چٹھی ڈالی اور نکالی جا سکتی ہے۔ خفیہ اجلاسوں کی جو کارروائیاں رپورٹ کی جاتی ہیں ان کا کچھ حصہ مختلف شرکا سے بات چیت سے اخذ کیا جاتا ہے اور (بعض اوقات) اس میں گیس ورک (Guess Work) کا بھی عمل دخل ہوتا ہے، لکھنے والے کا انداز اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اس طرح کی کسی رپورٹ کو الہام نہیں سمجھا جا سکتا، نہ ہی ذمہ داری کا بوجھ ڈالنے کے لیے کوئی ایک کندھا حاضر کیا جا سکتا ہے۔
وزیر داخلہ کی طرف سے بار بار یہ بات کہی جا رہی ہے، اور عسکری حلقے بھی اس کی تائید کرتے ہیں کہ مذکورہ رپورٹ سے پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط ہوئے ہیں۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کے حوالے سے فوج اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کرتے ہوئے نظر آ رہی ہے۔ سول اور فوجی حکام کے درمیان حائل خلیج ہماری وحدت کے عدم وجود کا پتہ دے رہی ہے۔ یہ سب باتیں درست ہو سکتی ہیں، لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اخباری رپورٹ پی ایچ ڈی کا مقالہ نہیں ہوتی، اور کسی ذمہ دار اخبار میں چھپنے والی رپورٹ کا بوجھ ''فیڈ‘‘ کرنے والے پر نہیں‘ اسے وصول کرنے والے پر ہوتا ہے۔ فیڈ کرنے والے کو پکڑنے کا مطالبہ ٹھہرے ہوئے پانی میں مچھلیاں تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ ''فیڈ‘‘ کرنے والے کی تلاش کرنے والے سازش کا عنصر کیوں نظر انداز کر بیٹھے ہیں۔ اداروں کو آپس میں لڑانے والا کوئی عنصر بھی تو کہیں نہ کہیں روبہ عمل ہو سکتا ہے۔
دو روز پہلے ایک مقدمے کی کھلی عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ ریمارکس میڈیا پر چھائے رہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں بادشاہت ہے اور یہ کہ عوام کو اپنے حقوق کے لئے اُٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔ ان الفاظ نے مُلک بھر میں اضطراب پیدا کر دیا کہ چیف جسٹس اپنے منصب کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے ایسا کیوں کہہ گزرے ہیں۔ اگلے ہی دن سپریم کورٹ کی طرف سے ان الفاظ اور اس تاثر کی تردید کر دی گئی، اور زور دے کر کہا گیا کہ چیف جسٹس نے وہ کچھ کہا ہی نہیں جو ان سے منسوب کر دیا گیا ہے... گویا، ایک خاص سیاق و سباق میں کی گئی کسی بات کو پھیلا کر کیا سے کیا بنا دیا گیا... یہاں تک کہ عمران خان صاحب اور ان کے ہم نوائوں نے بغلیں بجانا شروع کر دیں کہ ہماری باتوں کی تائید ہو گئی ہے۔ جہاں کھلی عدالت میں چیف جسٹس کو اپنے سے منسوب الفاظ کی وضاحت کرنا پڑے وہاں بند کمرے میں ہونے والی کسی گفتگو کی رپورٹ کو من و عن کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے... پاکستان کے جمہوری نظام کے خلاف ادھار کھانے والے پوری کوشش میں ہیں، کہ اس... کا رُخ وزیر اعظم، ان کے رفقا یا حکومتی کارندوں کی طرف موڑ دیا جائے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ ایک ''من گھڑت رپورٹ‘‘ کی بنیاد پر ہمارا دستوری نظام ہچکولے کھانے لگا ہے۔ یاد رکھیے، ملکوں کی طاقت ان کے نظام اور سارے اداروں پر ہوتی ہے۔ ریاست کسی ایک ادارے کا نام نہیں، نہ ہی کوئی ایک ادارہ اس کا تحفظ کر سکتا ہے، دِل، جگر، ہاتھ، پائوں سب سلامت ہوں گے تو اکھاڑے میں کمال دکھایا جائے گا۔ اگر یہ ایک دوسرے کے درپے ہوں گے تو پھر ہر کوئی اپنی خیر منائے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)