تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-10-2016

غدّاری کی اجازت؟

فرمایا : لیس للانسان الا ما سعیٰ۔ انسان کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں‘ جس کی اس نے کوشش کی۔
ایک کے بعد دوسرا حادثہ ہے اور حیران کر دینے والا۔ ابھی اس خبر کی بازگشت باقی ہے‘ جو ملکی سلامتی سے بے نیاز‘ ایک عالی دماغ ‘ یا کئی نے اخبار تک پہنچائی۔ کرّوفر سے اخبار نے اسے چھاپا اور اب تک اپنا دفاع کر رہا ہے۔ گویا اس نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔ انتہا تو یہ ہے کہ بعض اخبار نویس بھی اس کارخیر میں شریک ہیں۔ توجیہ ان کی یہ ہے کہ میڈیا کا کام خبر دینا ہے۔ کیسی شاندار دلیل ہے، اس کا دائرہ اگر پھیلا دیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ تاجر کا کام تجارت کرنا ہے۔ جائز ناجائز کا کیا سوال۔ جیسے بھی ہو‘ اس کا مقصد روپیہ کمانا ہے۔ صنعت کار کا کام مصنوعات بنانا ہے۔ کچھ بھی بناتا رہے‘ مثلّا دیدہ زیب‘ خوش رنگ اور بہترین معیار کی خودکش جیکٹ یا ہتھیار ڈھال کر بیچا کرے۔ سیاست دان کا کام سیاست کرنا ہے‘ خواہ اس کے نتیجے میں ملک برباد ہوتا رہے۔ 
ایم کیو ایم لندن کے نام نہاد رہنمائوں کی پریس کانفرنس کا بنیادی استدلال اسی قماش کا ہے۔ کراچی کے اخبار نویسوں سے پوچھا کہ یہ کون ذات شریف ہیں؟ بعض نے کہا‘ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے رہا ہے‘ کچھ کا کہنا ہے کہ بائیں بازو کے ٹریڈ یونین والے واقع ہوئے ہیں۔ جو بھی ہیں‘ کمال ہیں۔ سیاست میں ایسی مخلوق‘ اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئی۔ ان کے مطالبات کا خلاصہ‘ ایک جملے میں اگر بیان کرنا ہو تو غالباً یہ ہو گا : پاکستان کے معزز سیاسی کارکنوں کو غدّاری کی اجازت ہونی چاہیے۔
فرمایا : الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی ختم کی جائے۔ دفاتر کھولے جائیں‘ سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہو ۔ ایم کیو ایم دراصل الطاف حسین کی ہے‘ فاروق ستار اور خالد صدیقی انحراف کے مرتکب ہوئے ہیں۔
خالد صدیقی اور فاروق ستار ہی؟ ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کے بارے میں کیا ارشاد ہے‘ جو ان کے ساتھ کھڑے ہیں؟ خیر‘ ایک اعتبار سے ان کی بات درست بھی ہے۔ مصطفی کمال ٹھیک کہتے ہیں۔ اس کی ہے‘ جس نے کہا تھا پاکستان کی تخلیق‘ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی حماقت ہے۔ اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے‘ جس نے کہا کہ پاکستان ایک ناسور ہے‘ کینسر ہے‘ دہشت گردی کا گڑھ ہے۔ وہ شخص جس کے فدائین پونا سے ممبئی تک پھیلے کیمپوں میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرتے رہے۔ جس نے ''را‘‘ سے روپیہ وصول کیا ۔اس روپے کو وہ ٹارگٹ کلنگ کے لیے استعمال کرتا رہا۔ فسادات کا عشروں پر پھیلا ہوا سلسلہ‘ جس میں 22 ہزار بے گناہ پاکستانی مارے گئے۔ یہ تعداد اب تک کی تمام پاک بھارت جنگوں میں شہید ہونے والوں سے زیادہ ہے۔ کراچی کے مرنے والے بھی شہید ہیں۔ 
کیسے کیسے جگمگاتے ستارے بلیک ہول کی نذر ہوئے۔ میں سوچتا ہوں‘ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو پاکستانی فوج کو رسوا کرنے کی کوششوں پر ان کا ردّعمل کیا ہوتا...جناب صلاح الدین! مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ظفر علی خان اور حمید نظامی کی شجاعت کے واقعات‘ ہم نے پڑھے اور سُنے ہیں۔ سب کے سب درست ہوں گے ۔کبھی خیال آتا ہے کہ شاید کچھ زیب داستاں بھی ہو۔ صلاح الدین تو ہمارے سامنے کی بات ہے۔ شک و شبہ سے بالا۔ ایسا جنگجو‘ جس کی شمشیر نے اپنے گردوپیش کو چمک سے بھر دیا تھا۔ نگاہ خیرہ ہو جاتی کہ یارب آدمی ایسا بھی ہوتا ہے۔ خوف‘ جس کی کھال میں داخل ہی نہ ہو سکتا ہو۔ کسی زندہ معاشرے میں‘ ایسا جی دار پیدا ہوا ہوتا‘ شہید ہوا ہوتا تو شاید ایک سے زیادہ فلمیں اس پر بن چکی ہوتیں۔ ہرچند‘ ہر روز اللہ کی بارگاہ میںیہ ناچیز ان کے لیے دعا کے ہاتھ اٹھاتا ہے۔ یہ سطور لکھتے 
ہوئے شرمندہ ہے کہ ان پر کتاب لکھنے کا ارادہ کیا۔ چند ہفتے صرف بھی کئے مگر مکمل نہ کر سکا... مکروہات دنیا‘ مکروہات دنیا!
کیسے کیسے لعل و گہر مٹی میں مل گئے۔ حکیم محمد سعید‘ سرتاپا ایثار‘ سرتاپا نجابت‘ سرتاپا مشعل۔ ایسے ہی انسانوں کے بل پر‘ معاشرے زندہ‘ سرفراز اور سرخرو ہوتے ہیں‘ انہی کے بارے میں بائبل میں لکھا ہے : زمین کا نمک۔ یاد ہے کہ کس قیامت کے دن تھے۔ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کا نام تک نہ لکھا جا سکتا تھا۔ خوف زدہ ہی نہیں‘ اخبارات یرغمال تھے۔ خاکسار نے چیخ کر کہا تھا: ''قصاص‘ جناب وزیراعظم قصاص‘‘۔ میاں محمد نوازشریف کی اگر کچھ نیکیاں ہیں‘ تو ان میں سے لازماً ایک یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ہی حکومت تب برطرف کر دی۔ ایک عاجز اخبار نویس نے انہیں یاد دلایا تھا : ولکم فی القصاص حیٰوۃ یا اولی الالباب۔ قصاص میں زندگی ہے۔ احتجاج کی درد بھری اور بھی بہت سی آوازیں اٹھی تھیں۔ الطاف حسین کو بے نقاب ہونے میں مگر مزید دو عشرے لگ گئے‘ جب تک اعلانیہ اس نے اپنے وطن کو کینسر قرار نہ دے دیا۔ پاگل پن میں سیاسی خودکشی نہ کر لی۔
فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کی آنکھ تب کھلی۔ اس پر انہیں ادارک ہوا کہ تعصب کے جنون میں‘ اظہار ذات کی تمنا میں‘ کتنے دور وہ نکل گئے۔ عمر بھر اس کے آلہ کار بنے رہے‘ غدّار کے سوا‘ جس کے لیے کوئی لفظ نہیں۔ اب بھی وہ اسی کی قائم کردہ ایم کیو ایم سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ایسی ہمت تو کیا ہو گی کہ قوم سے معافی مانگیں‘ استعفے دے کر نیا الیکشن لڑیں‘ یہ توفیق بھی نہیں کہ پارٹی کا نام ہی بدل دیں۔ تاویل پہ تاویل کئے جاتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا ارشاد ہے : بے شرم اپنی مرضی کرے۔ 
ہم سب ذمہ دار ہیں‘ ہم سب۔ جسارت بے نظیر بھٹو نے کی تھی‘ 1995ء میں جب قاتلوں کے خلاف انہوں نے ڈٹ کر کارروائی کا فیصلہ کیا۔ صدر فاروق لغاری اور چیف آف آرمی سٹاف نیک نام جنرل عبدالوحید کاکڑ ان کے ساتھ کھڑے تھے‘ ان کے بہادر وزیر داخلہ نصیراللہ بابر۔ دھمکیاں انہیں دی جاتیں کہ ان کے سائز کی بوری تیار ہے مگر کراچی کی سڑکوں پر اس کے باوجود وہ تنہا پھرا کرتے۔ ایک ڈی آئی جی کو ذمہ داری سونپی گئی اور انٹیلی جنس بیورو کو۔ ڈی آئی جی ایوان صدر طلب کئے گئے تو صدر‘ وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کو انہوں نے بتایا کہ وہ اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری چنے جا چکے ہیں۔ اس پر ان سے کہا گیا کہ یہ ملک کی بقا کا سوال ہے۔ آزردہ صدر مملکت نے کہا : آخری امید باقی ہے کہ پولیس غنڈوں کو نمٹا دے‘ وگرنہ ملک کا کوئی مستقبل نہیں تب پولیس افسر نے یہ کہا کہ انشاء اللہ وہ انہیں نمٹا دے گا۔ شرط صرف یہ ہے کہ کوئی مداخلت نہ کرے۔ وزیراعظم اور نہ صدر‘ سندھ کا وزیراعلیٰ اور نہ زرداری خاندان۔ آئی بی کے افسر‘ شجاعت اللہ خاں اور محمد فہد‘ ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے عمرہ کرنے گئے۔ خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کے سامنے‘ اشکبار آنکھوں تلے، دعا کے ہاتھ اٹھے تو عرش سے نور اترا۔ محمد فہد نجانے کہاں ہیں۔ شجاعت اللہ آج بھی آئی بی کا حصہ ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو ایسے بظاہر ناکردہ کار ادارے نے اس وقت دو عدد دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا‘ جب وہ ٹیلی فون پر‘ بچوں کی ایک بس پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ افسوس کہ قوم نے انہیں یاد نہ رکھا۔ کوئی ایسا اعزاز نہ بخشا‘ جس کے وہ مستحق تھے۔ 
سات ہفتے میں کراچی کے بازار راتوں کو کھلے رہنے لگے۔ 14 اگست کو ڈبل سواری پر پابندی ختم کر دی گئی۔ سات ماہ میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا۔ غنڈے مارے گئے یا فرار ہو گئے۔ الطاف حسین نے‘ جو تب بھی لندن میں تھے‘ ان سے یہ کہا : وہاں چلے جائو‘ جہاں روشنی کی کرن بھی پہنچ نہ سکتی ہو۔ 
افسوس کہ سات ماہ کے بعد سب کچھ برباد ہو گیا۔ بے نظیر حکومت برطرف کی گئی تو مرتضیٰ بھٹو کو قتل کرنے کے الزام میں ڈاکٹر سڈل گرفتار کر لیے گئے‘ بے نظیر بھٹو نے جن کے بارے میں کہا تھا کہ وہ آخری آدمی ہیں‘ اپنے بھائی کے باب میں جن پر وہ شبہ کر سکتی ہیں۔ ایک جرم ان کا یہ تھا کہ نگران وزیراعلیٰ ممتاز بھٹو کی فرمائش کے باوجود ‘آصف علی زرداری کو قاتل ثابت کرنے سے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ کھری اور سچی تحقیقات پہ اصرار کیا تھا۔ 
میاں محمد نوازشریف نے 500 گرفتار دہشت گرد رہا کر دیئے اور قاتلوں کے ورثا کے لیے پچاس کروڑ روپے تاوان ایم کیو ایم کو ادا کیا۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم کو‘ جس کے بارے میں بلاول بھٹو کا ارشاد ہے کہ وہ انہیں غدار قرار دینے کے کبھی مرتکب نہیں ہوئے۔ وزیراعظم نوازشریف کو بے شک ''مودی کا یار ‘‘کہتے رہے۔
دفاتر کھولنے‘ سیاست کرنے اور ہر طرح کی آزادی کے مطالبوں کا مفہوم اس کے سوا کیا ہے کہ غدّاری کی کھلی اجازت دی جائے؟ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اب کی بار کیا کرتی ہے۔ قوم کیا کرتی ہے۔ پاکستان کو واقعی ریاست بنایا جائے یا جنگل کا جنگل!
فرمایا : لیس للانسان الا ما سعیٰ۔ انسان کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں‘ جس کی اس نے کوشش کی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved