اگلے روز تو ایسا محسوس ہوا کہ فون ڈے ہے جو دن بھر کھڑکتا اور کھڑکایا جاتا رہا۔ سب سے پہلے کشور کا فون آیا‘ طبیعت کے بارے پوچھا‘ بتایا اب ٹھیک ہوں۔ پھر کہا‘ کافی عرصے کے بعد غزل لکھی ہے۔ دو تین شعر بھی سنائے‘ زمین تھی طبیعت میں‘ صحبت میں۔ میں نے کہا پنجابی میں صحبت کا مطلب معلوم ہے؟ کہا ہاں‘ اختلاط کو کہتے ہیں۔ کہا یہ تو اختلاط سے آگے کچھ بات ہے۔ بتایا کہ معلوم ہے اور چل جائے گا۔ میں نے کہا کہ اللہ کا نام لے کر اسے چلا دو۔ زمین تو کوئی خاص نئی نہیں تھی لیکن اس وقت تو کشور ناہید ہی کی تھی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے بھی اس پر طبع آزمائی شروع کر دی‘ پھر سوچا کہ اگر میری غزل اس کی غزل سے پہلے‘ یعنی کالم میں چھپ گئی تو مارے گی کیونکہ ع
دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ تو ہے
پھر یاد آیا کہ اس زمین میں غالباً جون ایلیا کی غزل بھی ہے جس کا ایک مصرع ہے ع
یہی ممکن تھا اتنی مدت میں
تاہم‘ شیطان کی آنت کی طرح غزل طول ہی پکڑتی چلی گئی اور دو غزلہ ہو گیا۔ اب تو بہت مارے گی۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا‘ اوکھلی میں سر دے ہی دیا تو دھمکیوں کا کیا ڈر!
ڈاکٹر صغریٰ صدف کو بتایا کہ میں نے اپنے تازہ چھپنے والے کلیات کا ایک نسخہ منصور آفاق کے لیے رکھا ہوا ہے‘ آپ کے ساتھ اس کا رابطہ رہتا ہے کہیں تو آپ کو بھجوا دوں؟ بولیں وہ پاکستان آیا ہوا ہے(یا آنے والا ہے) میں خود آ کر لے جائوں گی‘ آپ کی زیارت بھی ہو جائے گی لیکن کئی روز گزر گئے‘ نہیں آئیں۔ میں نے کہا آپ کا وعدہ بھی معشوقوں والا وعدہ ہے اور معشوق بھی ایسا جس کا ماتھا چومنے کے لیے سیڑھی درکار ہو(اپنی بزرگی کا فائدہ اٹھا رہا ہوں) بات کچھ اکبر معصوم کے پنجابی شاعری کے مجموعے کی اشاعت کی ہوئی اور بس۔
کچھ مزیدبرادرانِ اسلام کے لیے کتاب رکھی ہوئی ہے۔ عطاء الرحمن نے کہا کہ میں خود آ کر لے جائوں گا۔میرے لیے یہ سعادت کی بات ہو گی۔ فرخ سہیل گوئندی بولے‘ مبارک ہو‘ میں خود مٹھائی بھی لے کرآئوں گا‘ لیکن دونوں ابھی تک نہیں آئے۔ اگر ان کے حصے کی کتاب کوئی اورلے گیا تو میں بری الذمہ ہوں۔خالد مسعود خاں اوررئوف کلاسرا کی کتاب بھی رکھی ہے‘ بھجوانے کی ترکیب سوچ رہا ہوں ۔ اگروہ ہمت کر لیں تو بہتر ہوگا کہ اللہ میاں بھی ان کی مدد کرتے ہیں جو اپنی مدد آپ ہی کرتے ہیں‘ ورنہ میں جوابدہ نہیں ہوں گا یعنی ؎
میں نے اب تک تو بچایا ہے محبت کو ظفرؔ
اور اب میں اسے محفوظ نہیں رکھ سکتا
اقتدار جاویدنے فون کیا اور چلے آئے ۔گپ شپ ہوئی جس میں چند معاصرین کی غیبت بھی شامل تھی۔ ہاں یاد آیا ‘کشورناہید نے ندیم صاحب والے کالم کے بارے میں مایوسی کا اظہار کیا کہ مرے ہوئے لوگوں کو معاف کر دینا چاہیے۔ میں منصورہ کے بارے میں تم سے زیادہ جانتی ہوں‘ مگر پھر بھی۔ میں نے کہا‘مرنا تو ہم سب نے ہے اور ہم جیسے ہیں ویسے ہی پیش بھی کئے جانے چاہئیں ۔یہ کیا بات ہوئی۔ البتہ مردان سے ڈاکٹر ہمایوں ہما نے کالم کی تعریف کی اور کہا کہ اس سے ندیم صاحب کے اچھے پہلو سے آشنائی ہوتی ہے‘ وغیرہوغیرہ۔
اکیڈمی آف لیٹرزسے عاصم بٹ کا فون تھا کہ چیئرمین صاحب کی ہدایت کے مطابق ہم آٹھ دس لوگ آ کرآپ سے تفصیلی گفتگوریکارڈ کرنا چاہتے ہیں اور ہم اپنی چائے اور کھانے پینے کا سامان ساتھ لائیں گے۔ میں نے کہا آپ کوئی دس روز کے بعد رابطہ کریں اور کچھ ساتھ لانے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ آپ گھر پر آ رہے ہیں‘ کسی جنگل میں نہیں ۔ اور اب وہ دوغزلہ پیش کر رہا ہوں‘ میرے حق میں دعائے خیرکیجیے گا!
کب سے مصروف ہوں محبت میں
کام کرنے کا تھا یہ فرصت میں
واہ کیا حسنِ انتظام ہے یہ
لُٹ گئے ہم تری حفاظت میں
صورتِ حال یہ ہوئی ہے کہ اب
ہے مزہ رنج میں نہ راحت میں
وقت اتنا نہیں ہمارے پاس
جتنی تاخیر ہے اجازت میں
کام اس کو بھی تھے کئی اس دن
ہم بھی کچھ رہ گئے شرافت میں
گئے ہم اور حال میں تھے وہاں
واپس آئے ہیں اور حالت میں
دشت میں خاک ہی نہیں موجود
یا کمی آ گئی ہے وحشت میں
آ گئی شعر میں شرارت ‘اور
شعر گم ہو گیا شرارت میں
فرق ہونا تو چاہیے تھا ظفرؔ
کچھ محبت میں اور حماقت میں
یاد اس نے کیا ہے غفلت میں
دیر کیسی ہے اب قیامت میں
وہی جو باعثِ مصیبت تھا
کام آیا ہے اب مصیبت میں
آپ نے جس پہ اعتبار کیا
ایک افسانہ تھا حقیقت میں
کام دینے لگا ہے گاہ بگاہ
زور اب وہ نہیں شکایت میں
نام لیتا رہا خدا کا ‘ مگر
تھا یہ رخنہ مری عبادت میں
ظلم سب سے زیادہ ہے مجھ پر
میں ہی تھاآپ کی حمایت میں
کل کے لونڈے اُڑا رہے ہیں مذاق
کیا اضافہ ہوا ہے عزت میں
شاخ سے ٹوٹتا ہے دیر سویر
پھول تو اپنی ہی نزاکت میں
کوئی چشمہ وہاں نہیں تھا‘ظفرؔ
میں جہاں جل رہا تھا نفرت میں
آج کا مقطع
بھلا یہ عُمر تھی کوئی محبتوں کی ظفرؔ
عجیب طرح کی یہ ناگہاں محبت ہے