تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     16-10-2016

مواخات کی کہانی دہراتے رہیں

بچوں کے دلوں میں درد کا دیا جلانے کی بات ڈاکٹر امجد ثاقب نے کوئی دو ہفتے قبل اپنے کالم میں کی تھی۔ سچے‘ خالص اوردرد دل رکھنے والے انسان کی بات خوشبو کی طرح دل و دماغ کو معطر کر جاتی ہے‘ سوچ کی کھڑکی کھلتی اور تازہ ہوا اندر آنے لگتی ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب ہی ایسی دِل پذیر اور معاشرے کو بدلنے کی تاثیر رکھنے والی بات کر سکتے ہیں کہ وہ خود درد کی جاگیر کے مالک ہیں اور درد کی یہ جاگیر انہیں ہمیشہ بے چین کیے رکھتی ہے۔ وہ ملک کے سب سے معتبر ادارے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ڈاکٹر بنے اور پھر روزگار اور خواہش انہیں بیورو کریسی کے میدان میں لے گئی۔ ڈاکٹر بننے اور بیورو کریٹ بن کر ملک پر حکمرانی کرنے کی خواہشوں کی تکمیل میں تو لوگ اپنی زندگیاں نچھاور کر دیتے ہیں مگر یہاں ڈاکٹر امجد ثاقب کی بات ہو رہی ہے جن کے دل میں درد کا ایک دیا اوّل روز سے روشن تھا اور جس کو انہیں چین نہ لینے دیتی تھی۔ بالآخر 2001ء میں درد کی اس دولت کو اخوت کا عنوان ملا۔ دس ہزار کا پہلا بلا سود قرضہ ایک بیوہ کو دیا گیا جس نے چھ ماہ کے مختصر عرصے میں نہ صرف قرض کی رقم لوٹا دی بلکہ اس رقم سے شروع کیے گئے کاروبار کی برکت سے اس نے اپنی دو بیٹیوں کی شادیاں بھی کیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کو راستہ مل گیا تھا۔ سو، 2003ء میں انہوں نے بیورو کریسی کے گلیمر کو خدا حافظ کہا اور اس راستے کا انتخاب کیا جس پر چل کر وہ ہزاروں تہی دستوں کی زندگیوں کوبدل رہے ہیں۔ مواخات کے عظیم تصور پر ضرورت مندوں کو بلا سود قرض فراہم کر کے ان کی زندگیوں کو غربت کے شکنجے سے نکالنا ڈاکٹر امجد ثاقب کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ وہ قابل فخر پاکستانی ہیں۔ عالمی سطح پر ان کی پذیرائی ہوئی اوردنیا ان کے بلا سود قرضہ فراہم کرنے کے تصور کو حیرت سے دیکھ رہی ہے بنگلہ دیش کا گرامین بینک جسے امن کا نوبل پرائز دیا گیا وہ بھی غریبوں کو بیس فیصد مارک اپ پر قرض دیتا ہے لیکن ادارہ اخوت اب کئی نئے زاویوں سے اس معاشرے کی تصویر بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اخوت کلاتھ بینک کے تحت آسودہ حال گھرانوں سے پرانے کپڑے جمع کر کے انہیں مرمت کرنے اور دھوکر استری کر کے ضرورت مند سفید پوش گھرانوں میں عزت اور احترام کے ساتھ تقسیم کیے جاتے ہیں۔ بنیادی جذبہ دراصل ایک ہی ہے کہ معاشرے کے دکھوں کو کم کیا جائے یا زخموں پر مرہم رکھا جائے۔ اپنے حصے کی شمع جلائی جائے تاکہ اندھیرے معدوم ہوتے چلے جائیں اور روشنی کے سفر میں سب شریک ہیں۔
اس کالم کا محرک دراصل ڈاکٹر امجد ثاقب کا وہی کالم ہے جو انہوں نے ''ریان اور کیڈٹ کالج حسن ابدال‘‘ کے عنوان سے لکھا اور جس کا تذکرہ میں نے آغاز میں کیا۔ وہ اخوت کو کامیاب ادارہ بنا چکے ہیں مگر وہ جانتے ہیں کہ معاشرے میں حقیقی تبدیلی تب آئے گی جب ذہن تبدیل ہوں گے۔ جب اہل ثروت کے دلوں میں بھی درد اور احساس کے دیے روشن ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک بہت خوب صورت قدم اٹھایا ہے، جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے کالم میں کیا۔ پبلک سکولوں میں زیر تعلیم متمول گھرانوں کے بچوں کو ادارہ اخوت انٹرن شپ کی دعوت دیتا ہے اور یوں خوشحال اور آسودہ گھرانوں کے نازو نم میں پلے بچے جن کی زندگیوں میں معاشی مسائل کاشائبہ تک نہیں ہوتا‘ وہ اخوت میں چند ہفتے کی انٹرن شپ کے دوران غربت اوراس سے جنم لینے والے مسائل کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ یوں وہ برانڈ اوربرگرز کی دنیا سے ہٹ کر زندگی کا ایک نیا منظر نامہ دیکھتے ہیں۔ وہ جاننے لگتے ہیں کہ زندگی صرف وہی نہیں ہے جو امیر اور آسودہ حال لوگ گزارتے ہیں‘ زندگی وہ بھی ہے جو خالی جیب‘ خالی پیٹ اور معاشی مجبوریوں کے پہاڑ تلے دب کر ایک عذاب کی طرح گزاری جاتی ہے۔
اس بار متمول گھرانوں کے چار سو بچوں نے ڈاکٹر امجد ثاقب اور ادارہ اخوت کے ساتھ مل کر زندگی کے دکھ بھرے منظر نامہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ ان بچوں نے یقیناً دیکھا ہو گا اخوت اپنے ہم وطنوں کی غربت کو کس طرح آسودگی میں بدل رہا ہے۔ انٹرن شپ کرنے والے بچوں میں سے ایک بچہ ریان انہیں خط لکھتا ہے جس کا جواب وہ بڑے خوب صورت انداز میں دیتے ہوئے ہمارے سامنے اپنے ایک نئے ویژن کو رکھ دیتے ہیں۔ وہ اس بچے کو لکھتے ہیں کہ ''تمہارا سکول تو کھل چکا ہو گا اور تم اب پڑھائی میں مصروف ہو گے مگر مجھے یقین ہے کہ تم ان بچوں کو بھی یاد رکھو گے جو تمہاری طرح خوش قسمت نہیں۔ جو سکول نہیں جاتے جو پنکچر لگاتے ہیں۔ چائے کے سٹال پرکام کرتے ہیں اور کھانا کھائے بغیر ریلوے سٹیشن پر سو جاتے ہیں‘ ان بچوں کو ایک دن سکول لے کر آنا ہے۔ یہ تمہارا وعدہ ہے مجھ سے بھی اور خود اپنے آپ سے بھی۔ مجھے یقین ہے کہ تم مواخات کی کہانی یاد رکھو گے۔ اب تم اور تمہارے دوست ہی اخوت ہو‘‘۔
بلا شبہ یہ ڈاکٹر صاحب کا ایک پر اثر اور زبردست آئیڈیا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ایسا انوکھا خیال پہلے کسی اور ذہن میں نہیں آیا کہ دولت کے ہنڈدلوں میں جھولتے بچوں کو تصویر کا وہ رخ دکھایا جائے جس میں زندگی بے بسی اوردرد کی تصویر نظر آتی ہے اور اس طرح سے ان کی ذہن سازی اس نہج پر کی جائے کہ وہ اپن کم عمری سے ہی غریب ہم وطنوں کے بارے میں سوچنے لگیں‘ اپنی دولت صرف اپنی ضرورتوں اور عیاشیوں کی تکمیل پر صرف نہ کریں بلکہ اس کا کچھ حصہ ضرورت مندوں کے لیے ضرور مختص کریں اور مواخات کے جذبے کے تحت ان کی زندگیوں کو آسودہ کرنے کی کوشش کو اپنی ذمہ داری سمجھیں اور ہمیشہ اس کے لیے کام کرتے رہیں۔
والدین اور سکول بھی یہ کام کر سکتے ہیں کہ بچوں کو خیرات کرنے کی ترغیب دیں۔ جہاں بہت سے دن ہمارے ہاں منائے جاتے ہیں وہاں اگر ایک چیریٹی ڈے بھی سکول کالج یونیورسٹی کی سطح پر منایا جائے اور معاشرے کو بدلنے کے حوالے سے چیریٹی کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ جس ملک میں 60فیصد افراد غربت اور حسرت کی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہوں اور ان کے حکمران2018ء کے الیکشن سے آگے سوچنے کی سکت نہ رکھتے ہوں وہاں معاشرے کو بدلنے کے لیے ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہی ڈاکٹر امجد ثاقب کا خواب بھی ہے اور مشن بھی کہ کسی طرح ہر صاحب استطاعت کے دل میں درج کا دیا روشن ہو جائے اور وہ مواخات کی کہانی ہمیشہ دہراتے رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved