تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     16-10-2016

کچھ علاج ان کا بھی…!

می لارڈ! آپ کی وضاحت سر آنکھوں پر، لیکن سنسنی تو پھیلنی تھی۔ آپ سے منسوب یہ فقرہ واقعی سنسنی خیز تھا، عوام اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس پر دھیان عمران خان کی طرف سے 30اکتوبر کو اسلام آباد کے ''لاک ڈائون‘‘ کے اعلان کی طرف بھی گیا۔ اپنے ہاں جمہوریت بیزار عناصر کی طرف سے''بنگلہ دیش ماڈل‘‘ کا تذکرہ بھی سننے میں آتا رہتا ہے...فوج اس بار خود نہیں آئے گی بلکہ آٹھ، دس سال قبل کے بنگلہ دیش ماڈل کو آزمائے گی، خود پیچھے رہ کر عدلیہ کے ذریعے نگران حکومت کا قیام جو انتخابات سے پہلے ''گند‘‘ صاف کرے، اس میں (آئین کے تحت) 90روز کی پابندی نہیں ہو گی، بلکہ اس کارِ خیر کے لیے اڑھائی تین سال کا عرصہ دینے میں کوئی تأمل نہ ہو گا۔
می لارڈ! آپ نے وضاحت کر دی کہ آپ نے عوام کو اٹھ کھڑے ہونے کے لیے نہیں، بلکہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنے کی تلقین کی تھی۔ دلچسپ بات یہ کہ اُسی شام شامی صاحب نے بھی ''نقطۂ نظر‘‘ میں، آپ کی بات کا یہی مفہوم لیا تھا،الیکشن کے روز بھی تو عوام قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ شامی صاحب کا خیال بھی یہی تھا کہ آپ نے عوام سے کہا ہے کہ الیکشن آئے تو وہ گھروں میں بیٹھ رہنے کی بجائے، باہر نکلیں اور پولنگ سٹیشنوں پر قطاروں میں جا کھڑے ہوں۔
لیکن جنابِ والا! میڈیا میں آپ سے منسوب یہ بات بھی تو تھی کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت ہے، گڈ گورننس کے نام پر بیڈ گورننس ہے، جمہوریت کے نام پر مذاق ہو رہا ہے۔ لیکن جمعہ کو جاری ہونے والی آپ کی وضاحت میں، ان ریمارکس کے حوالے سے کچھ نہیں۔ حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ آپ نے لمبی چوڑی وضاحت میں پڑنے کی بجائے، اختصار سے کام لینا مناسب سمجھا، شاید اردو محاورے میں ''کوزے میں دریا بند کرنا‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔ ہمارے حسنِ ظن کی بنیاد خود آپ کا چند روز پہلے کا وہ بیان ہے جس میں آپ نے فرمایا تھا، کوئی آپ سے کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کی توقع نہ رکھے۔ آپ نے بتایا تھا کہ کسی زمانے میں آپ ظہیر عباس کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلتے رہے ہیں۔ ویسے تو کریز سے باہر نہ نکلنے کا مفہوم واضح تھا؛ تا ہم آپ نے یہ کہنا اور دو ٹوک الفاظ میں صاف صاف کہنا بھی ضروری سمجھا تھا کہ ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں اور یہ کہ آپ کو اپنی آئینی حدود کا بخوبی علم ہے اور کوئی آپ سے آئینی حدود سے باہر نکلنے کی توقع نہ رکھے۔
باقی رہی جمہوریت اور بادشاہت کی بات تو اللہ بھلا کرے برادرم خورشید ندیم کا، کس خوبی اور خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے پاکستان کی مظلوم جمہوریت کا مقدمہ لڑا ہے(دنیا15اکتوبر میں ان کا کالم۔) گزشتہ شام کونسل آف نیشنل افیئرز کی ہفتہ وار میٹنگ میں بھی یہی بات زیر بحث تھی۔ ہمارا کہنا تھا، جمہوریت محض نواز شریف (یاشہباز شریف) کا نام نہیں۔ آپ کو ان کے فیصلوں سے، ان کی ترجیحات سے، ان کے اسٹائل سے اختلاف ہو سکتا ہے، آپ مایوس بھی ہو سکتے ہیں کہ ان سے آپ کو اصلاحِ احوال کے حوالے سے کوئی امید نہیں تو ڈیڑھ سال بعد آپ کو موقع ملے گا، آپ اپنے ووٹ کی طاقت سے انہیں دوبارہ ( صحیح معنوں میں چوتھی بار) نہ آنے دیں، ان کی جگہ عمران خان کو لے آئیں۔ جمہوریت صرف منتخب حکومت کا نام نہیں، یہ پورا پیکج ہے۔ حکومت تو اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ جمہوریت میں آزاد عدلیہ ہے۔ آزاد میڈیا ہے۔ آزاد سول سوسائٹی ہے۔ بار ایسوسی ایشنز سمیت مختلف تنظیمیں ہیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیاں ہیں، ان میں پبلک اکائونٹس کمیٹی سمیت مختلف پارلیمانی کمیٹیاں ہیں، آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن ہے(آئینی ترامیم کے ذریعے اس کی آزادی و خود مختاری کو یقینی بنایا جا چکا۔) نیب سمیت احتساب کے اداروں کی مزید آزادی و خود مختاری کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب ثمرات جمہوریت کے ہیں۔ وہ جو کہا جاتا ہے، جمہوریت اپنی اصلاح خود کرتی ہے، یہ اپنا اینٹی بائیوٹک سسٹم رکھتی ہے، جو اس کے عوارض کا خود علاج کرتا چلا جاتا ہے۔ جمہوریت کا متبادل جمہوریت ہی ہے، بہتر جمہوریت۔ آمریت، کسی بھی شکل میں ہو، اس کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ اور آمریت کے ذریعے آپ بہتر جمہوریت نہیں لا سکتے۔
...اور ''ڈان‘‘ کی خبر کے حوالے سے یہ جو ہنگامہ برپا ہے، امید ہے، عقلِ سلیم بروئے کار آئے گی اور معاملہ کسی بڑے نقصان کے بغیر انجام کو پہنچ جائے گا۔ کام اچھا ہے وہی جس کا کہ مآل اچھا ہے۔ لیکن یہاں لگے ہاتھوں، ایک اور کارِ خیر بھی کیوں نہ ہو جائے؟یہ جو ہمارے بعض تجزیہ نگار دوست، کچھ ریٹائرڈ عسکری دانشور اور چند اہل سیاست اہم ترین مسائل پر فوج اور حکومت کے ایک ہی پیج پر نہ ہونے کے دعوے کرتے اور حکومت سے سرزد ہو جانے والے کسی اچھے کام کو بھی فوج کی ڈکٹیشن کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ''طاقتورں‘‘ کی طرف سے انہیں شٹ اپ کال نہ سہی، مناسب انداز میں ان کے گوش گزار یہ بات تو کی جا سکتی ہے کہ اس طرزِ عمل سے وہ خود ہمارے دفاعی ادارے کی کوئی خدمت نہیں کرتے۔ اس سے جمہوری حکومت ہی بے وزن نہیں ہوتی، خود پاک فوج کے وقار میں بھی اضافہ نہیں ہوتا۔ کیا وہ دنیا کو پاک فوج کی منہ زوری اور من مانی کا تاثر دینا چاہتے ہیں، جو سول حکومت کی پابند نہیں، فیصلے خود کرتی اور انہیں منتخب حکومت پر مسلط کر دیتی ہے۔ 
جون 2014ء میں ضربِ عضب کا آغاز ہوا تو کہا گیا، سول حکومت تو مذاکرات، مذاکرات کھیل رہی تھی، یہ فوجی قیادت تھی جس نے اپنے طور پر ضربِ عضب شروع کر دی جسے سول حکومت کو بھی ''اون‘‘ کرنا پڑا۔ پھر دھرنا بغاوت آ گئی، تو تاثر دیا گیا کہ یہ بھی فوج کے اشارے پر ہے، جو بھارت اور افغانستان سمیت بعض حساس امور پر سول حکومت کی پالیسیوں سے خوش نہیں۔ اُدھر ڈکٹیٹر ہے، جو سینے پر ہاتھ مار کر کہتا ہے کہ اس کا ادارہ اس کی پشت پر ہے، آرٹیکل 6 سمیت آئین شکنی، لال مسجد/ جامعہ حفصہ آپریشن اور اکبر بگٹی قتل سمیت کوئی بھی مقدمہ ہو، کوئی مائی کا لعل اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر میں تازہ انتفاضہ اور اسے کچلنے کے لیے بھارتی وحشت و بربریت کا ذکر کریں، وہ برہان وانی کو آزادی کا شہید قرار دیں اور پیلٹ گنز کے ذریعے بچوں اور نوجوانوں کو اندھا کر دینے کی ریاستی دہشت گردی پر ضمیرِ عالم کو بیدار کرنے کی کوشش کریں تو کہا جاتا ہے، یہ تقریر ان کی اپنی نہیں تھی، یہ تو ان سے کروائی گئی... اور یہی بات مودی کہتا ہے، یہ تقریر تو جنرل راحیل شریف نے کروائی گویا کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو پاکستان کے بیس کروڑ عوام کی نمائندہ حکومت کی تائید حاصل نہیں، یہ تو فوج ہے، جو اس سے یہ سب کچھ کروا رہی ہے(اس سے خود کشمیر کاز کو کیا خدمت ہوتی ہے؟) 
انہی دنوں کی بات ہے، فرزند لال حویلی لندن میں تھا۔ ایک ٹی وی اینکر عمران خان کے 30اکتوبر کے ''لاک ڈائون‘‘ کے حوالے سے پوچھ رہا تھا، اگر وزیر اعظم 30اکتوبر سے پہلے نئے آرمی چیف کا اعلان کر دیں تو؟ اُس کا جواب تھا، اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ نواز شریف سے، صرف جنرل راحیل شریف(یا فوج کی قیادت) کو اختلاف نہیں، بلکہ فوج بحیثیت ادارہ اس کے خلاف ہے؛چنانچہ نیا آنے والا بھی وہی کچھ کرے گا، جس سے بچنے کے لیے راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ سرل ایلمیڈا، اس کے اخبار اور اسے یہ من گھڑت سٹوری لیک کرنے والوں کے خلاف کارروائی بجا، لیکن فوج کے ان خود ساختہ ترجمانوں کا معاملہ۔۔۔۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved