جمہوریت بجا مگر ایک چیز اخلاق بھی ہوتا ہے‘ قانون بھی‘ کردار بھی...افسوس کہ کم ہی لوگ غور کرتے ہیں۔ رہے سرکاری اخبار نویس تو وہ سوچ بچار کریں یا دربار داری؟ضمیر کی آواز سنیں تو کیسے سنیں ؎
ہوسِ لقمۂِ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
یہ ہمارے لیڈر۔ اگر وہ ہمارے گناہوں کی سزا نہیں تو اور کیا ہیں؟ سینیٹر سعید غنی بھلے آدمی ہیں۔ ایک منظر ایسا میں نے دیکھا کہ دل کی گہرائیوں سے ان کی عزت کرتا ہوں۔ محترمہ فریال تالپور کے دستر خوان پر کھانا چنا جا چکا تو وہ میز پر آ بیٹھے۔ پھر دھیمے لہجے میں یہ کہا : مجھے بھوک نہیں۔ آداب کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کچھ دیر بیٹھے رہے‘ پھر اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بولے : مجھے نماز ادا کرنی ہے۔ اُٹھ کر ساتھ کے کمرے میں گئے، عبادت کی۔ لوٹ کر آئے تو لمحہ بھر کھڑے رہے۔ پھر یہ کہہ کر اجازت طلب کی : پارٹی کا اجلاس شروع ہونے والا ہے‘ مجھے اجازت دیجئے۔ آپ تو بعد میں بھی آ سکتی ہیں‘ مجھے انتظام دیکھنا ہے۔
کپتان کے عیب شمار کرنے پر مامور ایک اخبار نے ان کا بیان نمایاں طور پر چھاپا ہے۔ بہرحال انہی کا ہے : عمران خان کے اردگرد ٹیکس چور جمع ہیں۔ ضرور ہوں گے۔ عمران فرشتہ ہیں اور نہ ان کے ساتھی۔ 1996ء میں تحریک انصاف کی نیو رکھی گئی تو دو بار بلدیہ رحیم یار خان کے چیئرمین اور تین بار قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے والے میاں عبدالخالق نے دلچسپی کا اظہار کیا۔ ان سے کہا گیا کہ نام آپ کا لکھ لیا ہے۔ کوائف جانچنے کے بعد اطلاع دیں گے۔ وہ ہکا بکا رہ گئے۔ اکھڑ میاں صاحب بہت ہیں۔ ان کے کھردرے لہجے کی شکایت سبھی کو رہتی ہے مگر مالی معاملات میں اکل کھرے۔ گلبرگ لاہور کے شمالی آغاز، مین بلیوارڈ میں جو فوارّہ کروڑوں کی لاگت سے لگا‘ انہوں نے 70 ہزار روپے میں نصب کرا دیا تھا‘ اسی کمپنی سے۔ معائنہ کرنے کے لیے انجینئر رحیم یار خان پہنچا۔ صبح سویرے چہل قدمی کو نکلا اور لوگوں سے بات کی ۔ ان میں سے بعض نے کہا : کہاں تم پھنس گئے۔ میاں تو ایک بے فیض آدمی ہے۔ تکنیک ان کی یہ تھی کہ شہر کی مالی کم مائیگی کا رونا روتے۔ اصرار کرتے رہتے کہ فلاح عام کے اس کام میں ٹھیکیدار منافع سے دستبردار ہو جائے۔ آخر کار زچ ہو کربعض مان بھی جاتے یا معمولی یافت پر اکتفا کرتے۔ ایسے آدمی کے بھی کوائف جانچنا تھے۔
بیس سال کے سفر میں تحریک انصاف‘ دوسری پارٹیوں ایسی پارٹی بن گئی ۔ پارٹی کا چندہ تک لوگ کھا گئے ‘ کروڑوں روپے ‘مگر ان کا احتساب نہ ہوا۔ ان میں سے ایک کے بارے میں کپتان نے خود مجھ سے کہا : ذرہ برابر اعتماد اس پر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود مزید کئی برس پارٹی سے وہ چمٹا رہا۔ نہایت اہم ذمہ داریاں اس کے سپرد ہیں۔ دوسروں کی قسمت کے فیصلے وہ کرتا رہا تاآنکہ بے قابو ہو کر پھسل گیا۔
نکتہ اور ہے۔ تحریک انصاف کے عیب تو سینیٹر صاحب کو صاف دکھائی دیتے ہیں۔ زرداری صاحب نظر نہیں آتے۔ دوسروں کی آنکھ کا تنکا تاک لیتے ہیں‘ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور زرداری صاحب کا سرے محل یاد نہیں آتا۔ سوئزر لینڈ کے کھاتے نہیں‘ فرانس کے محلات اور امریکہ کی وسیع و عریض جائیداد بھی نہیں۔ کیسے عجیب لوگ ہیں‘ کتنے عجیب لوگ۔
وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے مطالبہ یہ ہے کہ ازراہ کرم پاناما لیکس کی تحقیقات کرائیے۔ ملک بھر کا تقاضا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اس پر متفق ہیں۔ جواب میں ان کا ارشاد یہ ہے کہ میرے مخالفین ترقی کا عمل روک دینے کے آرزو مند ہیں۔ بجلی کی قیمت دوگنا کر دی ۔ فرمان یہ ہے کہ قوم ذرا دم لے‘ سستی کر دیں گے۔ قیمت اس وقت بڑھائی جب پٹرول کی قیمت 110 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 40 ڈالر رہ گئی۔ بعض اوقات اس سے بھی کم۔ اٹھارہ برس کے لیے قطر سے گیس کا معاہدہ کیا ہے۔ فی یونٹ 6 ڈالر۔ یہی گیس جاپان والے کھلی مارکیٹ میں 4 ڈالر پر خرید رہے ہیں۔ ثابت کرنے والوں نے اعداد و شمار سے ثابت کر دیا گیا کہ راولپنڈی کی میٹرو بس کا ڈھانچہ‘ اسی طول کی امرتسر میں تعمیر ہونے والی شاہراہ سے تین گنا زیادہ ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں‘ لاہور کے لیے ریل کا منصوبہ بنا تو اسے بی او ٹی پر تعمیر ہونا تھا۔ نقد ادائیگی کے بغیر ہی۔ بڑا حصہ زیِرزمین تھا۔ دنیا کی بہترین کمپنیوں کو اسے تعمیر کرنا تھا۔ پھر خود ہی اس کا نظام چلا کر سرمایہ واپس وہ وصول کرتے۔ شرحِ منافع 0.25 تھی‘ یعنی تقریباً سود کے بغیر ہی۔ پنجاب میں شریف خاندان نے اقتدار سنبھالا تو ایشیائی ترقیاتی بینک کو لکھ بھیجا کہ اس منصوبے کی ضرورت ہی نہیں۔ 2008ء میں اگر یہ شاہی فرمان جاری نہ ہوا ہوتا تو 2012ء میں شہر اس سے استفادہ کر رہا ہوتا۔ کئی سال گزر جانے کے بعد چین کی ایک غیر معروف ناتجربہ کار کمپنی سے معاہدہ کیا۔ سود کی شرح گیارہ گنا زیادہ۔ اخراجات لگ بھگ دوگنا۔ اس قدر سفاکی اور بے رحمی کا جواز کیا تھا؟ یہ کہ کریڈٹ‘ چوہدری پرویز الٰہی کو نہ مل جائے۔ چوہدری صاحب کوئی درویش نہیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے‘ بہت کچھ وہی انہوں نے کیا‘ جو شریف اور زرداری خاندان کا خاصا ہے۔ان سے عناد کی سزا مگر قوم کو کیوں ملی؟
فوجی حکومت کا کوئی جواز نہیں۔ کہنے والے نے کہا تھا : میں لوہے کا یہ حق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ انسانوں پر حکومت کرے۔ تاریخی تجربہ یہی ہے کہ اصلی اور پائیدار ترقی جمہوری نظام میں ہوتی ہے۔ یہ کیسا جمہوری نظام ہے کہ معاشی میدان میں‘ مارشل لا سے بھی بدتر۔
پرویز رشید صاحب نے فرمایا : جنرل مسائل پیدا کرتے ہیں اور حل ہمارے میاں صاحب کو کرنا پڑتے ہیں۔ زمینی حقائق مگر مختلف ہیں۔ اعداد و شمار کی شہادت بالکل ہی دوسری ہے۔
جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو قومی خزانے میں صرف 400 ملین ڈالر پڑے تھے۔ بہت دن تک عالم یہ رہا کہ قرضوں کی واپسی لیت و لعل سے‘ کچھ دن بتا کر یا بھیک مانگ کر کی جاتی۔ ایوان اقتدار سے وہ نکلے تو زرمبادلہ کے ذخائر اٹھارہ ارب ڈالر تھے۔ 1999ء میں پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرض 38.5 بلین ڈالر تھا۔ گئے تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار قرض کم ہو چکا تھا‘ 34 ارب ڈالر۔ خون چوس آئی ایم ایف سے نجات پا لی گئی تھی۔ اب یہ قرض 80 ارب ڈالر ہے اور دن بدن فروغ پذیر۔ آنے والی نسلیں یہ بوجھ کیسے اٹھائیں گی؟ 1999ء میں ڈالر کی قیمت 55 روپے تھی۔ آٹھ سال بعد وہ چھوڑ کر گئے تو 60 روپے۔ آٹھ برس میں 106 روپے ہو چکی۔ مزید زوال کا خطرہ سامنے ہے۔
1988ء سے 1999ء تک‘ گیارہ سالہ جمہوری دور میں بیرونی سرمایہ کاری چار ارب ڈالر رہی‘ مشرف کے دور میں 13ارب ڈالر۔ نوازشریف کے پچھلے دور میں غربت کی شرح 34 فیصد رہی۔ مشرف کے زمانے میں 23 فیصد رہ گئی۔ اللہ کے فضل و کرم سے اب پھر سے 39 فیصد ہے۔ مشرف کو اقتدار ملا تو سالانہ شرح ترقی چار فیصد تھی۔ 2004-5 میں نو فیصد کو پہنچی۔ ایشیا کے سب سے لائق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بقول اب پھر سے 4.5 فیصد ہے۔ مگر ان کے اعدادوشمار ماہرین قبول نہیں کرتے۔ 1999ء میں پاکستان اپنی کل قومی آمدنی کا 64 فیصد قرضے اور سود کی ادائیگی پر ادا کرتا۔ مشرف عہد میں یہ شرح 28 فیصد رہ گئی۔ 1999ء میں کراچی کی مشہور زمانہ اور رسوائے زمانہ سٹیل مل اربوں کے خسارے میں تھی۔ مشرف دور میں منافع کمانے لگی‘ سالانہ ایک ارب اور بعض برسوں میں اس سے بھی زیادہ۔
فیلڈ مارشل ایوب خاں اور جنرل محمد ضیاء الحق کے ادوار سے متعلق اعداد و شمار اور بھی ہیں۔ صنعتی بنیادیں ایوب خاں کے عہد میں استوار ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں غربت کم ہوئی۔ تین ماہ ہوتے ہیں، چوہدری پرویز الٰٰہی نے جب یہ کہا کہ دس لاکھ ملازمتین ہر سال پیدا ہوا کرتیں تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔
انسانی صلاحیت آزادی ہی میں نشودنما پاتی ہے مگر یہ کرپشن‘ حکمرانوں کا یہ کاروبار زرگری۔یہ نعرہ فروشی‘ یہ دھوکہ دہی۔
جمہوریت بجا مگر ایک چیز اخلاق بھی ہوتا ہے‘ قانون بھی‘ کردار بھی...افسوس کہ کم ہی لوگ غور کرتے ہیں۔ رہے سرکاری اخبار نویس تو وہ سوچ بچار کریں یا دربار داری؟ضمیر کی آواز سنیں تو کیسے سنیں ؎
ہوسِ لقمہ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی