تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     17-10-2016

اُدھر تم.....اِدھر بھی تم

کھڑک سنگھ گہری نیند سو رہا تھا۔ پہلے اسے حویلی کے باہر اونچی اونچی آوازیں سنائی دیں، پھر دروازے پر ٹھڈے پڑنے کا شور بلند ہوا۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس کا ہاتھ کرپان کی طرف بڑھا۔ پھرکچھ سوچ کر وہ چارپائی سے اٹھ کرکمرے کی طرف دوڑ پڑا۔اندر پڑی دونالی بندوق اٹھائی، حویلی کے دروازے کے قریب پہنچا اور چِلا کر کہا اگراب بد تمیزی کی تو گولی مار دوںگا۔ باہر سے آواز آئی پنچائت آئی ہے۔ پنچائت کے ہاتھ میں حکم نامہ تھا کہ اپنا مکان اور پورا گاؤں فوراًخالی کردو۔ سرکاری ہرکاروں نے لکھی ہوئی تحریر کھڑک سنگھ کے ہاتھ میں پکڑا دی۔کہا، گوردوارے میں پہنچو اور یہ تحریر لاؤڈ سپیکر کے ذریعے پورے گاؤں کو سنا دو۔کھڑک سنگھ کو حلیہ تک درست کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ اس نے دوڑتے دوڑتے گھر والوںکو مکان خالی کرنے کا آرڈر دیا اورکہا کہ حویلی کے دروازے پر میرا انتظار کرنا، ابھی واپس آتا ہوں۔کھڑک سنگھ گوردوارے پہنچا اور ہاتھ میں پکڑا بھارت سرکار کا یہ اعلان پڑھ کر سنایا: گوروجی کا خالصہ،گورو جی کی فتح۔ ابھی ابھی پنچائت آئی ہے۔ ڈی سی صاحب کا فون آیا ہے، سرکارکے اور بھی ہرکارے آئے ہیں، آپ سب سے بنتی (درخواست ) ہے کہ فوراًََ گاؤں خالی کر کے10کلو میٹر بارڈر سے پیچھے فاضل پور چلے جائیں۔ جنگ سر پر آ گئی ہے۔ جنگ کی تیاری ہے، دوبارہ بنتی ہے، فوراً گاؤں خالی کر دیں‘‘(اس کارروائی کی ویڈیو نیٹ پر موجود ہے۔)
اگلے دن اسی علاقے کے کانگرسی ایم پی سرجیت سنگھ باجوہ پاک بھارت بارڈر پر کھڑا تھا۔ اس کے ارد گرد ٹی وی کیمرے اور رپورٹروںکا ہجوم تھا۔کافی تعداد میں خالصے بھی پہنچے ہوئے تھے۔ سرجیت سنگھ باجوہ نے کہا کہ میں ہندوستان کی حدود میں ''لڑائی بند‘‘ پر کھڑا ہوں۔ لڑائی بند ایک خشک نالہ ہے جو ہندوستان نے خار دار تاروں کے ساتھ ساتھ کئی میل لمبے مورچے کی صورت میں کھود رکھا ہے۔ سرجیت سنگھ بولا یہ سامنے پاکستان کا بارڈر ہے۔ نہ کوئی ٹینک ہے نہ ہی پاکستانی فوج بارڈر پر ہے۔ پھر اس نے بارڈر پر کھڑے رپورٹروںکو متوجہ کرکے اشارہ کیا، وہ سامنے دیکھو! پاکستانی لڑکے کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ پھر اس نے بھارتی میڈیا والوں سے کہا ذرا کیمرے گھما کر اپنے کھیت بھی دیکھ لو۔ دور دور تک نہ کوئی فوجی موجودہے نہ لڑائی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ پھر کہنے لگا، یہ سب مودی سرکار اور پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کی ڈرامہ بازی ہے۔ دونوں الیکشن جیتنے کے لئے میڈیا کے ذریعے جنگ کا شور مچا رہے ہیں اور ساتھ ہی چاہتے ہیں لوگوں کی توجہ کشمیر میں جاری مظالم سے ہٹ جائے۔
بھارتی پارلیمنٹ کے رکن کی یہ ویڈیو دیکھتے وقت مجھے ایک مشہور اخباری سرخی یاد آ گئی۔ اس سرخی کا کریڈٹ صحافیوں اور ایڈیٹروں نے لیا جبکہ اس کے میڈیا ٹرائل کا ملبہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کھاتے میں گیا۔ وہی مشہورِ زمانہ سرخی ''اُدھر تم۔۔۔۔اِدھر ہم‘‘ والی۔ یہ سرخی ایجاد کرنے والے حضرات کی روحوں سے معذرت کے ساتھ میں آج اس سرخی میں ترمیم کر رہا ہوں۔ بس اتنی سی ترمیم کہ ''اُدھر تم۔۔۔۔اِدھر بھی تم‘‘۔ 
واہگہ بارڈر کی دوسری طرف نگاہ ڈالیں تو اُدھر تم کا مطلب پوری طرح واضح ہے۔ لیکن اسی بارڈر کی اپنی جانب ''اِدھر بھی تم‘‘ کو سمجھنے کے لئے سادہ سا نکتہ یوں ہے: مودی سرکار ''بھارت کے اندر پاکستانی فوج آ گئی، ہٹو بچو، پیچھے چلے جاؤ، بھاگو دوڑو، حملہ ہونے والا ہے‘‘ جیسے نعرے لگا کر اپنے اقتدارکو طول اور تحفظ دے رہی ہے۔ پاکستان میں اسی ڈرامے کا ایکشن ری پلے چل رہا ہے جو سب کے سامنے ہے۔۔۔ ۔کھلا ڈھلا ! اس باریک واردات کی ''ایگزیکٹو سمری‘‘ جاننے کے لئے آئیے نون سرکارکے چند بڑوںکے بیان دیکھ لیتے ہیں۔
نمبر ایک: قومی اسمبلی کے ''غیر جانبدار‘‘ سپیکرصاحب جو حلقہ NA-122 سے دو دفعہ دھاندلی کے بغیر جیتے، موصوف نے اس سلسلے میں یہ سرکاری فرمان جاری کیا کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے۔ جمہوریت ''کُو‘‘کے خطرے میں نہیں‘‘۔
نمبر دو: جس دن مؤقر انگریزی اخبار کے ذریعے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف خبر لیک کروائی گئی اسی دن اسلام آباد کے ایک نواحی گاؤں شاہ اللہ دتہ میں ریاستِ پاکستان کے ترجمان وزیر ِسرکاری اطلاعات نے آن کیمرہ یہ نشریات جاری کیں: '' میں نے ملک کو لہو لہان کر دیا۔ اسے برباد کر دیا، ٹکڑے کر دیا۔ فوج کے جرنیل کہتے ہیں اب نواز شریف آؤ اور ملک کو تم سنبھال لو‘‘۔
نمبر تین: اپوزیشن کی صف میں گنے جانے والے سرکار کے پسندیدہ ''نان اپوزیشن ایکٹر‘‘ کھل کر کہہ رہے ہیںکہ ''جمہوری نظام کو خطرہ ہے اس لئے فوج کو اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنی چاہیے‘‘۔
یہ تین باتیں ذہن میں رکھیں اور ساتھ یہ زمینی حقیقت بھی کہ بھارت اس وقت کشمیر میں آزادی کی طلبہ تحریک کے نرغے میں ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے ویڈیوکلپس کی بھرمار ہے جن میں پورے بھارت کے طلبہ و طالبات آزادی پسند کشمیری طلبہ تحریک کی حمایت میں جلسے، سیمینار، مظاہرے اور تقریریںکرتے نظر آتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس میں نہ کسی معروف تنظیم کا کوئی کمال ہے نہ ہی کسی سِکہ بند لیڈر کا کرشمہ۔ اس تناظر میں ایک کمال وزیراعظم ہاؤس کے اندر سے بھی ہوگیا۔ وزیر اعظم ہاؤس کے کمال سے ایک شام پہلے کے اخبارات،کالم، تجزیے، اداریے، خبریں، ٹی وی ٹاک شو، خبر نامے، ٹوئٹر اکاؤنٹس، فیس بک، یوٹیوب،انسٹا گرام اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس کھول کر تسلی کر لیجیے۔ پورا پاکستان صحیح معنوں میں ایک ہی پیج پر بول رہا تھا، ایک ہی زبان میں، مودی کے خلاف، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جنگی جرائم کے خلاف اور بھارت، افغانستان گٹھ جوڑ کے ذریعے پاکستان کے اندر بد امنی کے لئے کی جانے والی بھارتی سرمایہ کاری کے خلاف۔
پھر یکدم پورے منظر نامے پر وزیراعظم ہاؤس لیکس چھا گئیں۔ ہماری ساری توپوں کا رخ ہماری اپنی ہی فوج اور اس کے ادارے کی طرف ہوگیا۔ جس نے حمایت کی اس نے بھی پاکستانی فوج ہی کو گفتگو کا مرکز بنایا اور جس نے اس خبر کی مخالفت کی اس کا موضوع بھی یہی ہے۔ انگریزی زبان میں اس طرح کی سٹریٹیجی یا حکمت عملی کو Paradigm Shift کہتے ہیں۔ یعنی بیانیہ، موضوعِ سخن،گفتگو کا ٹارگٹ، مرکزِ نگاہ اور پورے ملک کا فوکس ہی تبدیل ہو کر رہ گیا۔
خواتین و حضرات! خدا کے واسطے اور اپنی دھرتی ماں کے واسطے آپ تعصب کی عینک اتار کر رکھ دیں۔ سیاسی مفادات کا پیالہ، تنخواہ، مراعات اور لفافہ پچھلی سیٹ پر چھوڑ ڈالیں۔ حرص، خوف، ہوس اور پراپیگنڈے کو تھوڑی دیر کے لئے خاطر میں نہ لائیں، صرف فرزندِ پاکستان یا دخترِ پاکستان بن کر سوچیں۔ اس صورت حال کا فائدہ کس کو ہوا؟ بھارت کی مودی سرکار کو؟ مقبوضہ کشمیر کے نوخیز پڑھے لکھے آزادی پسندوں کو؟ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم کرنے والی فوج کو؟ بھارت کی 'را‘ کو یا پاکستان کی آئی ایس آئی کو؟ نواز شریف کو یا راحیل شریف کو؟
میں نے یہ سوال اس لئے نہیں چھیڑا کہ اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرسکوں۔ جناب میں اپنی رائے نہیں بتا رہا۔ آپ وطن پرستی کا طعنہ قبو ل فرما کر ذرا اس سوال پر کم از کم غور تو فرمائیںکہ اس صورت حال میں ریلیف کس کو ملا ؟ اور تکلیف کس کے حصے میں آئی؟
حال ہی میں بھارتی ریاست نے اپنے میڈیا کو رہنما اصول دیے ہیں۔ رہنما اصول اس لئے کہہ رہا ہوں اگر ایسا ضابطۂ اخلاق نما کوئی چیز پاکستان میں جاری کی جائے تو اسے بھارت کو ریلیف اور اپنے مفاد کو تکلیف دینے والے ''آزادی پسند‘‘ فوراً فوجی ڈرون حملہ کہہ ڈالیں گے۔ بھارتی میڈیا پر پہلی پابندی یہ لگائی گئی کہ پاکستان کے خلاف مودی کا نظریہ سرجیکل سٹرائیکس کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا جا سکتا۔ یہ اصول بھارت کے طول و عرض میں پائے جانے والے ہزاروں ٹی وی سٹیشن، ریڈیو اور لاکھوں اخبارات نے بخوشی قبول کر لیے۔ دوسری پابندی یہ کہ جنگ کی مخالفت کو بھارت کی ریاستی پالیسی سے انخراف سمجھا جائے گا۔ لہٰذا مودی کے جنگی جنون کے خلاف اٹھنے والی آوازیں دیش دروہی ٹھہریں۔ تیسری پابندی یہ کہ پاکستان کے حوالے سے حکومت کا بیانیہ (Narative) یا موقف ہی پورے بھارت کا قومی موقف ہوگا۔
کھلی آنکھوں سے نظر آ رہا ہے کہ حکومت اپنی فوج کا دفاع نہیں اس کا میڈیا ٹرائل کروا رہی ہے۔ بھارت کے بارے میں نون لیگی سرکارکا بیانیہ مودی،کل بھوشن اور جنگی جرائم جیسے لفظوں سے خالی ہے۔ بھارت اور مودی واقعتاً خوش قسمت ہیں۔ آج بارڈر کے دونوں طرف ان کا بیانیہ ہوا کی لہروں سے لے کر صفحہ قرطاس تک، اونچے ایوانوں سے لے کر تصویر اور آواز تک پوری قوت سے موجود ہے۔ جو کوئی باقی بچتا ہے وہ فوج کا گماشتہ اور جمہوریت کا دشمن ہے۔ ضیاء الحق سے جنرل مشرف تک وزارتوں اوراقتدار کا گڈی لٹ گروپ جمہوریت کا آئیکون اور مودی برانڈ امن و انسانیت کا عظیم علمبردار ہے۔
میں ایسے ماحول میں یہ سوال کیسے اٹھا سکتا ہوںکہ پی ایم ہاؤس لیکس کا ملزم کسی اخبار میں نہیں وزیراعظم کی منجی تھلے ڈانگ پھیر کر ہی باہر نکالا جا سکتا ہے۔ مخبر غیر سرکاری نہیں سرکاری ہے: 
یہی کہا تھا مری آنکھ دیکھ سکتی ہے
کہ مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہرِ نابینا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved