اب مُجھے معلوم نہیں کہ ریڈیو پاکستان کراچی کی کیا صورت ہو گی لیکن میری یادوں میں ساٹھ کی دہائی کا ریڈیو کراچی محفوظ ہے، جہاں میں بطور پروڈیوسر تعیناتی کے بعد 1968ء میں پہنچا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میں ایک خیالی دنیا میں آ گیا ہوں۔ اپنی کراچی تعیناتی سے پہلے میں ریڈیو لاہور میں ''اردو بنگلہ بول چال‘‘ نامی پروگرام میں بطور ایک طالب علم کے شریک ہوتا تھا اور اس رعایت سے مجھے لاہور ریڈیو کے ماحول کا اچھی طرح اندازہ تھا۔ لاہور سٹیشن اُس دور میں پروڈیوسروں اور انجینئروں کی باہمی لڑائی کے لیے بھی مشہور تھا اور وہاں کے سٹیشن ڈائریکٹر شمس الدین بٹ نے 1965ء کی جنگ کے بعد، جس میں لاہور ریڈیو کا کردار مثالی رہا تھا، سٹاف کے بہت سے ارکان کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ منفی تحریر کی تھی۔ اس وجہ سے بھی لاہور سٹیشن پر کشیدگی اور کھچائو محسوس ہوتا تھا۔
لاہور میں یہ سب کچھ دیکھ کر میں بہت ڈرا ڈرا ریڈیو پاکستان کراچی پہنچا۔ اپنی تعیناتی کا آرڈر پیش کیا اور درخواست تحریر کی جس میں اپنی آمد سے سرکاری طور پر سٹیشن ڈائریکٹر کو مطلع کیا۔ اس کو اصطلاحاً جوائننگ رپورٹ کہتے ہیں۔ یہ رپورٹ لے کر سٹیشن ڈائریکٹر کا پی اے ڈائریکٹر کے کمرے میں گیا جہاں صبح کے وقت پروگرام میٹنگ ہو رہی تھی۔ پی اے نے واپس آتے ہی مجھے کہا کہ صاحب اندر بلا رہے ہیں۔ میں کمرے میں گیا تو جس انداز میں وہاں سب سٹاف نے میرا خیرمقدم کیا بس سمجھیں منٹوں ہی میں میرے وہ تمام خدشات دور ہو گئے جو لاہور سٹیشن کے مخصوص ماحول کی وجہ سے پیدا ہو گئے تھے۔
جس قدر اپنائیت مجھے کراچی سٹیشن پر ملی، اس پر میں آج بھی اپنے ان ساتھیوں کا ممنون احسان ہوں۔ سٹیشن ڈائریکٹر طاہر شاہ صاحب اپنی مثال آپ تھے۔ کوئی سٹاف ممبر غلطی کرے تو مجال ہے سرکاری سطح پر کارروائی کریں، لیکن ذاتی طور پر اس کا اس قدر مذاق بنا دیتے تھے کہ وہ سٹاف ممبر آئندہ ویسی غلطی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ شاہ صاحب کا تعلق رنگ محل لاہور سے تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے ہوئے تھے مگر کراچی میں بھی اکثر پنجابی بولتے تھے۔ کوشش اُن کی بہت ہوتی تھی کہ انگریزی یا اردو بولیں لیکن عادت سے مجبور تھے۔ لوگ پروگرام میٹنگ میں اکثر دیر سے آتے تھے تو کبھی کبھی شاہ صاحب اُن کو ڈانٹنے کے لیے سنجیدہ ہو جاتے اور یوں گفتگو کا آغازکرتے Gentlmen, This is office وقفہ اور شکل اور بھی سنجیدہ کر کے کہتے I want to warn you Peopel اس کے بعد انگریزی ختم اور اردو میں شروع ہو جاتے۔ دیکھیں بھئی آفس کا ایک ڈکورم ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے کوئی پندرہ منٹ آدھ گھنٹہ لیٹ ہو گئے۔ اس کے بعد اردو ختم اور پنجابی شروع: ''پر ایہہ کی ہویا کہ نو وجے میٹنگ ہندی اے تے یاراں وجے منہ چُک کے آ گئے‘‘ یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ میٹنگ نو بجے ہوتی ہے اور آپ مُنہ اٹھا کر گیارہ بجے چلے آتے ہیں۔
جونہی شاہ جی پنجابی بولنے لگتے اُن کا غصہ ختم ہو جاتا اور چہرے پر سے وہ مصنوعی سنجیدگی ختم ہو جاتی اور بھول ہی جاتے کہ اُن کا آج ڈانٹنے کا پروگرام تھا۔ شاہ جی کھانے پینے کے بہت شوقین تھے۔ جتنے دعوتی کارڈ آتے ان کی شکل و صورت سے دعوت کی نوعیت کا اندازہ لگا لیتے تھے۔ تاہم کبھی کبھی غلطی بھی ہو جاتی تھی۔ ایک مرتبہ عبدالحامد بدایونی مرحوم نے اپنے مدرسے کے افتتاح کا بہت خوبصورت اور بڑے سائز کا کارڈ بھیجا جس سے شاہ صاحب نے اندازہ لگایا کہ خوراک کا یقیناً زبردست انتظام ہوگا۔ میں تو اس کی کوریج کے لیے جا رہا تھا، شاہ صاحب بھی کارڈ کی خوبصورتی کے چکر میں ساتھ ہو لیے۔ آصفیہ کالونی میں تقریب تھی جوکافی دور واقع ہے۔ دوپہر کے وقت وہاں پہنچے تو بھوک اور بھی شدید ہو چکی تھی لیکن وہاں تقریروں کے بعد صرف ٹھنڈی بوتلیں پیش کر دی گئیں۔ شاہ جی کی حالت دیکھنے والی تھی۔ مجھے کہنے لگے، مولانا بدایونی کے پاس جائو اور کہو کہ کارڈ کچھ سستا چھپوا لیتے اور جو پیسے بچتے اس سے کچھ لوگوں کے لئے کھانے کی چیزیں منگوا لیتے۔ میں نے جب انکار کیا تو سمجھانے لگے: اوئے کش نیں ہندا، تو ڈر نہ، جا کے کہہ دے، آئندہ واسطے فائدہ ہو جائے گا۔ یعنی کچھ نہیں ہوتا، تم ڈرو مت اور جا کر یہ بات کہہ دو، آئندہ کے لیے فائدہ ہو جائے گا۔ اُن کی مراد تھی اگر آئندہ کوئی تقریب کریں گے تو ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ جب میں نے پھر انکار کیا تو مجھے بزدلی کا طعنہ دینے لگے۔ اس دوران میں مولانا بدایونی سامنے آ گئے۔ شاہ صاحب بڑی محبت سے اُن سے ملے، مجال ہے اشارتاً بھی کچھ کہا ہو۔ جونہی مولانا بدایونی وہاں سے گئے، پھر مجھے کہنے لگے کہ پیچھے جائو اور کہہ دو۔ خیر میں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو بعد ازاں کئی دنوں تک دفتر میں سٹاف سے کہتے رہے: ایہہ منڈا آیا تے لاہوروں اے پر حوصلہ کوئی نئیں۔ یعنی یہ لڑکا آیا تو لاہور سے ہے مگر حوصلہ مند نہیں ہے۔
کراچی سٹیشن پر سٹاف کے ارکان کا یہ حال تھا کہ اکثر اُن کے گھروں سے جو کھانے کے ڈبے آتے تھے اور دسترخوان بچھتا تھا تو مجھے جبراً اس میں شریک کر لیتے تھے۔ سینئر سٹاف میں نقشبندی صاحب اور شجیع صاحب نے تو مجھے ایک طرح سے چھوٹا بھائی بنایا ہوا تھا۔ عظیم سرور ایک عظیم دوست تھا۔ عرفان علی لگی لپٹی رکھے بغیر ہر ایک کے راز کھول دیتا تھا۔ یاور مہدی نے بزم طلباء کے نام سے ایک چھوٹا سا الگ ریڈیو سٹیشن بنایا ہوا تھا۔ ضمیر صدیقی ایسا کمال کا جملہ کہتے کہ ہنسی کے فوارے چھوٹ جاتے۔ انعام صدیقی موسیقی کے پروڈیوسر تھے۔ ہمیشہ سفید لباس، گلابی رنگ اور چمکتی چاند۔ اس محبت سے ملتے تھے کہ لگتا برسوں سے جانتے ہیں۔ وضع دار تھے۔ مجھے مرتے دم تک عید کارڈ بھیجتے رہے۔ کرمانی صاحب میرے اے آر ڈی یعنی اسسٹنٹ ریجنل ڈائریکٹر تھے۔ کتنا بڑا گھپلا ہو جائے یعنی پروگرام میں کوئی خرابی ہو جائے اس کا آگے پتا ہی نہیں چلنے دیتے تھے۔ اپنے دفتر میں ہی شکایات دبا دیتے تھے۔ نجم الحسنین ہر وقت منہ پان سے سرخ اور چہرے پر مسکراہٹ اور ہر قسم کی شرارت کے لیے تیار۔ ڈرپوک بہت تھے‘ اکثر مجھے آگے کر دیتے تھے کہ تُم اُس سے یہ کہو۔
انتصار حسین اور سلیم احمد ہمارے سٹاف آرٹسٹ بھی ہوتے تھے اور ڈراموں کے مصنف بھی۔ ڈرامہ آرٹسٹوں میں نیلوفر علیم‘ طلعت حسین‘ محمود خان‘ ایس ایم سلیم‘ فاطمہ خانم‘ زینت یاسمین سمیت درجنوں فنکار تھے جو بعدازاں ٹیلی ویژن کے ذریعے اور بھی زیادہ معروف ہوئے۔
زیڈ اے بخاری ریڈیو سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے مگر اُن کا ذکر ہر دم سنائی دیتا تھا۔ اُن کے دور کے قصے ریڈیو کراچی کے مختلف کمروں میں ہر دم گونجتے رہتے تھے۔ سلیم گیلانی صاحب اس دور میں ڈائریکٹر ٹرانسکرپشن سروس (Transcription Service) ہوتے تھے۔ انہی دنوں انہوں نے مہدی حسن کی معرکہ آرا غزلیں ریکارڈ کی تھیں جن کی شہرت آج تک قائم ہے۔
انائونسروں میں درائت مرزا کی گرجدار آواز آج تک مجھے نہیں بھولی۔ اسی دور میں ہمارے افسر بدر عالم بی بی سی سے واپس آئے تو انہوں نے ''صبح دم دروازۂ خاور کھلا‘‘ کے عنوان سے اتوار کی صبح نشر ہونے والا ایک پروگرام شروع کیا جس میں دو کمپیئر گفتگو کرتے تھے اور پھر مختلف آئٹمز پیش کئے جاتے تھے۔ یہ پروگرام پاکستان میں صبح کی ٹرانسمیشن میں جو مارننگ شوز کہلاتے ہیں اُن کی ابتدا قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہماری نشریاتی تاریخ میں یہ پہلا ایسا پروگرام تھا اور ازحد مقبول ہوا تھا۔
''حامد میاں کے ہاں‘‘ فیچر پروگرام براہ راست نشر ہوتا تھا اور بعد ازاں یہ برسوں چلتا رہا۔ غالباً ایک ریکارڈ عرصے تک چلا۔ میوزک آرٹسٹوں میں زیادہ معروف کلاسیکی موسیقی کے فنکار تھے۔ امرائو بندو خاں کا نام اور شکل مجھے آج بھی یاد ہے۔ کس محبت سے سلام کا جواب دیتے تھے‘ پھر کمپوزر لال محمد۔ یہ دو لوگ تھے، لال محمد اور بلند اقبال۔ بلند اقبال سارندہ بہت اچھا بجاتے تھے۔ میں نے اپنے ایک ڈرامے میں جو پشاور کے پس منظر میں تھا بلند اقبال سے سارندہ بجوایا تھا۔
ایک صاحب ہوتے تھے منظور جمال‘ ویسے تو وہ میوزک سیکشن میں سٹاف آرٹسٹ تھے مگر وہ شہر میں اور شہر کے باہر بھی تقریبات میں میزبانی کے لیے معروف تھے۔ تعلق لکھنو سے تھا‘ ہر ایک کو معزز کہہ کر بلاتے تھے۔ اُن جیسی محبت بھری شخصیت کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ کالم ختم ہوگیا مگر ریڈیو کراچی کی یادیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ لیکن بہرحال اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ بقیہ پھر کبھی۔