تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     17-10-2016

وقت کی ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘

کراچی کے فُل نائٹ کوئٹہ پشین ہوٹلوں کی مہربانی ہے کہ نئی نسل نے وہاں رات رات بھر گپ شپ کے گھوڑے دوڑاکر ہمیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ وقت لامحدود ہے! 
جب ہم نے مرزا تنقید بیگ کے سامنے وقت کا راگ الاپنا چاہا تو اُنہوں نے اِسے بے وقت کی راگنی قرار دے کر اُن سُنا کرنے کی کوشش کی۔ جب ہم نے سمجھانے کی کوشش کی کہ وقت تو لامحدود ہے پھر اُس کے بارے میں محتاط رہنے اور اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی اِتنی تاکید کیوں کی جاتی ہے تو اُنہوں نے اپنے مخصوص ''شائستہ و مہذّب‘‘ لہجے میں ہمارے خیالات اور ذہنی استعداد کی ''قدر افزائی‘‘ فرماتے ہوئے کہا : ''تم جیسے کالم نگار کیا جانیں کہ وقت کیا نعمت ہے۔ اِس نعمت کو ضائع ہونے سے بچانا ہر دانش مند کا فرض ہے۔ تمہارے کالم نہ پڑھنے والے بالواسطہ طور پر بتاتے ہیں کہ وہ وقت کو کس قدر اہم جانتے ہیں!‘‘ 
ہم نے عرض کیا کہ ہم نے اپنی (ظاہر ہے، گناہ گار!) آنکھوں سے دیکھا ہے کہ لوگ رات رات بھر بتیاتے ہیں مگر وقت ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ وہ جس انداز سے وقت کو ٹھکانے لگا رہے ہوتے ہیں یعنی اُس کی ''ٹارگٹ کلنگ‘‘ کر رہے ہوتے ہیں اُسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا دن شاید اڑتالیس یا ساٹھ گھنٹوں یا پھر اِس سے بھی زیادہ دورانیے کا ہوا کرتا ہے! 
وقت کی ''ٹارگٹ کلنگ‘‘ کا سُن کر مرزا کے چہرے کا رنگ دو تین لمحات کے لیے فق ہوکر رہ گیا۔ کیوں نہ ہوتا؟ وقت کو ٹھکانے لگانے کی بات ہو تو اُن سے بڑے ''ٹارگٹ کِلرز‘‘ پورے پاکستان میں دو چار ہی ہوں گے! وہ جب باتوں کا دریا بہانے پر مائل ہوں تو بالکل نہیں دیکھتے کہ کون کون، کہاں تک زیر آب آرہا ہے۔ اُن کی گفتگو کبھی اندھا دھند فائرنگ کا روپ دھارتی ہے اور کبھی اچانک گولا باری کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے! وہ بولتے جاتے ہیں، وقت قتل ہوتا جاتا ہے اور اُن کے سامنے، سگریٹ کے ٹوٹوں کی طرح، مُردہ لمحات کا ڈھیر لگتا جاتا ہے! ہمیں یقین ہے کہ اگر وہ محمد بن قاسم کے زمانے میں ہوتے تو اُن کے منہ سے منجنیق اور باتوں سے پتھر کے گولوں کا کام لیا جاتا! 
چند لمحات کے بعد حواس قابو میں آئے تو مرزا نے ''اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی‘‘ والی کیفیت پیدا کرکے مزید چند لمحات سوچ بچار میں صرف کیے اور پھر خاصے سنجیدہ لہجے میں ہم پر حملہ آور ہوئے : ''وقت وہ نعمت ہے جسے سمجھنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں بھی اچھا خاصا وقت ضائع ہو جاتا ہے! سیانوں نے کہا ہے کہ وقت ضائع نہ کیا جائے تو بس، وقت ضائع نہ کیا جائے۔ اِس معاملے میں کسی حُجّت کی گنجائش نہیں۔‘‘ 
ہم نے عرض کیا کہ ہم نے تو پوری قوم کو وقت ضائع کرتے دیکھا ہے اور وقت ہے کہ پھر بھی بچ رہتا ہے تو اِس کے ضائع ہونے کا تصوّر ہمیں خوفزدہ کیوں کرے؟ یہ بات سن کر مرزا نے چند ''کلاسیفائیڈ‘‘ قسم کے جملوں سے ہماری تواضع کی! پھر بولے : ''تم جیسے لوگوں نے از خود نوٹس کے تحت خود کو بزرجمہر کے درجے پر فائز کرلیا ہے۔ اگر کسی نے تمہیں وقت کی اہمیت کا کچھ احساس دلایا ہوتا، کچھ سمجھایا ہوتا تو تم آج یوں بے دردی سے وقت ضائع بلکہ قتل نہ کر رہے ہوتے؟‘‘ 
ہم ... اور وقت کا قتل؟ بات کچھ سمجھ میں نہ آئی۔ وضاحت چاہی تو مرزا نے ایک کہانی کا پینڈورا بکس کھولا۔ ''کسی ندی کے کنارے ایک سادہ دل کسان رہتا تھا۔ ایک ڈھونگی قسم کا سادھو وہاں پہنچا۔ اُس نے کسان سے پوچھا بھگوان سے کچھ پایا بھی ہے یا صرف کھیتی باڑی کرتے رہتے ہو۔ پھر خود ہی اِس سوال کا جواب دیا کہ دیکھو، میں نے ہمالیہ کی بلندیوں پر تیس سال تک کڑی تپسیا کرکے کئی کمالات پائے ہیں۔ آؤ، اپنا ایک کمال دکھاؤں۔‘‘ 
ڈھونگی سادھو نے کسان کو ساتھ لیا اور ندی کے کنارے پہنچا۔ پھر اُس نے کسان کا ہاتھ پکڑا، آنکھیں بند کرکے من ہی من کچھ پڑھا اور پانی پر چلتا ہوا کسان کے ساتھ دوسرے کنارے پہنچا! اور اِسی طرح واپس بھی آگیا۔ 
کسان یہ چمتکار دیکھ کر حیران ہوا۔ مگر پھر کچھ سوچ کر سادھو کو ساتھ لیا اور ندی کنارے بیٹھے ہوئے کشتی والے کے پاس پہنچا۔ کشتی سے ندی پار کرنے کا کرایا ایک آنہ تھا۔ کسان اور سادھو کشتی میں بیٹھے، اُس پار گئے اور پھر واپس بھی آئے۔ کسان نے کشتی والے کو کرایا دیا۔ اور پھر ڈھونگی سادھو سے کہا کہ جو کام آنے دو آنے سے ہوسکتا ہے اُس کے لیے تیس سال تپسیا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جا بھائی، بھگوان کے بندوں کی خدمت کر، وقت ضائع نہ کر۔‘‘ 
ہم نے پوچھا کہ اِس میں ہمارے لیے کیا سبق ہے تو مرزا نے ''کمال شفقت‘‘ سے کہا : ''کسان نے تمہیں یہ پیغام دیا ہے کہ کالم نگاری، شعر گوئی اور رات گئے کی 'ہوٹل نشینی‘‘ پر وقت ضائع کرنے کے بجائے کوئی ڈھنگ کا کام کرو، اللہ کی مخلوق کے کام آؤ۔ مگر خیر، اُس کسان جیسے سادہ دل لوگوں کو کیا معلوم کہ تم جیسے لوگ ایسی آسانی سے سدھرنے والے نہیں۔ دیوار سے سر ٹکرانے پر سر ہی پھوٹتا ہے، دیوار کا کچھ نہیں جاتا۔‘‘ 
مرزا کی باتوں کا ہم کیا برا مانتے۔ وہ اپنی ''روایت‘‘ نبھا رہے تھے۔ وقت ضائع کرنے میں مرزا بھی اپنا ہی ایک انداز رکھتے ہیں مگر پھر بھی اِس نکتے پر بضد تھے کہ وقت کم اور قیمتی ہے۔ اُن کے ''نکاتِ عالیہ‘‘ سن کر ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اگر وقت واقعی بہت محدود اور قیمتی ہے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ یہ قوم رات دن وقت ضائع کر رہی ہے مگر وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا! 
مرزا نے ہمیں سوچوں میں گم دیکھ کر، حیرت انگیز طور پر، ایک ایسا جملہ دے مارا جسے سن کر ہمارا دماغ کی چُولیں ہل گئیں۔ مرزا نے کہا : ''تمہاری مثال اُس شخص کی سی ہے جو کہتا تھا لوگ خواہ مخواہ پٹرول مہنگا ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ میں تو کل بھی 100 کا ڈلواتا تھا اور آج بھی 100 کا ہی ڈلواتا ہوں!‘‘ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved