تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     18-10-2016

باتیں میرے دُوسرے دیس کی (قسط اوّل)

ظاہر ہے کہ کالم نگارکا پہلا دیس تو اُس کی مادرِ وطن (پاکستان) ہے۔ دُوسرا دیس برطانیہ ہے جہاں وہ نصف صدی سے رہتا ہے۔ وہ تین بچوں اور اُن کی ماں کی ساتھ پاکستان سے آیا تھا۔ دو پوتے اور دو پوتیاں یہاں پیدا ہوئیں۔ اُس کے والد مرحوم (جو 93 سال کی عمر میں یہاں پہلی بار اپنے کنبہ سے ملنے آئے تھے) مشرقی لندن کی ایک آبادی (بارکنگ) میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ کالم نگار نے یہاں اعلیٰ درسگاہوں میں دس برس سماجی علوم پڑھانے کے بعد چار برس بی بی سی میں (بطور نشر کار) کام کیا اور سات سال قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 25 برسوں سے وکالت کرتا ہے۔ دُوسرے دیس سے پہلے دیس کا سفر تو سال میں صرف چار بار کرتا ہوں مگر یہاں ہر سال کے ہر ماہ، ہر ماہ کے ہر دن اور ہر دن کے ہر لمحہ پہلے دیس کے بارے میں سوچتا، فکر کرتا اور دُعا مانگتا رہتا ہوں اور جہاں بھی ہوں۔۔۔۔ زمین پر، فضا میں یا سمندروں میں، دل سے ایک ہی آواز نکلتی ہے ع
مرے وطن ترے دامانِ تار تار کی خیر
یہی وجہ ہے کہ فیض صاحب کا یہ مصرع میرے ایک گزشتہ کالم کا عنوان تھا۔ آج کے کالم میں آپ کو میرے دُوسرے دیس کی باتیں سنائی جائیں گی۔ باتیں اتنی زیادہ ہیں اور کالم کی جگہ اتنی محدود کہ میرے قارئین اپنے دل پر جبر کر کے تین قسطیں پڑھنے پر تیار ہو جائیں۔ ہر بات چند سطور پر مشتمل مگر جداگانہ پیراگراف کی صورت میں لکھی جائے گی۔
آج کے دور میں یورپی خواتین کی آزادی کا پرچم آب و تاب سے اور بڑے بلند مقام پراُڑ رہا ہے۔ مساوات اور انصاف کے دور میں عورتیں اپنے حقوق کی جدوجہد میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کر چکی ہیں۔ راہ نوردی کا شوق اتنا زیادہ ہے کہ وہ کسی بھی سنگ میل کو منزل قبول کر کے بیٹھ نہیں جاتیں۔ کتنی خوشی کی بات ہے کہ پاکستان میں بھی اوڑھنی کو پرچم بنا لینے کا تاریخی عمل جاری و ساری ہے۔ آج سے 75سال پہلے یورپ میں خواتین کس حال میں تھیں؟ کس مقام پر تھیں؟ یقیناً آج کے مقابلہ میں بہت پیچھے۔ ابھی اُنیسویں صدی کے اندھیرے سے نکل کر روشنی کی طرف سفر شروع ہوا تھا کہ یورپ دو عالمی اور لمبی جنگوں کی لپیٹ میں آگیا۔ اس موضوع پر این سیلز کی کتاب چھپ کر لندن کی مارکیٹ میں آئی ہے۔ نام ہے: 
Les Parisiennes: How the Women of Paris Lived, Loved and Died in the 1940's
کتنا اچھا ہو کہ پاکستان میں بھی اسی طرح کی کتابیں لکھی جائیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کی لکھی ہوئی بنات النعش اور مراۃ العروس (شاید میرے ہم عصر لوگوں کو تمیزدار بُہو اور مزاج دار بہو کا سبق آموز موازنہ یاد ہوگا) کا زمانہ گزر چکا مگر آج کو سمجھنے کے لئے گزرے ہوئے کل کا بغور مطالعہ ضروری ہے۔ اقبال نے لکھا تھا ع 
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام
اس مصرع کی سچائی کی بہترین مثال وہ آتش زدگی ہے جس نے ساڑھے تین سو سال پہلے (1666ء میں) سارے وسطی لندن کو جلا کر راکھ بنا دیا تھا۔ سالِ رواں میں اس گرما گرم موضوع پر کئی کتابیں شائع ہوئیں بلکہ لندن کے درمیان میں سے بہتے ہوئے دریا ٹیمز (Thames) میں چار سو فٹ لمبی کشتی چلائی گئی جس پر سترہویں صدی کے لندن کے مکانوں اور بازاروں کا ہو بہو نقشہ ماڈل کی صورت میں اس کمال ہنر مندی سے بنایا گیا تھا کہ جب تک کشتی تیرتی رہی اس ماڈل سے آگ کے شعلے لپکتے رہے۔ جب کشتی اپنی منزل پر پہنچی تو سارے کا سارا ماڈل ''آناً فاناً ‘‘جل کر بھسم ہو گیا۔ ساڑھے تین سو سال پہلے لگنے والی آگ کا کل سکور یہ تھا۔ 13200 مکان، 87 گرجا گھر، چار پُل، ڈھائی سو لاکھ لوگ گھر سے بے گھر ہوئے۔ آتش زدگی کو لاکھوں افراد نے دیکھا مگر اُس وقت کے ایک بڑے سرکاری افسر مگر بلند پایہ ادیبSamuel Pepys (ہمارے مختار مسعود کی طرح) نے اس بڑے پیمانہ پر ہونے والی قیامت صغریٰ کا آنکھوں دیکھا حال ایک ڈائری کی صورت میں لکھ کر قیامت تک محفوظ کر دیا۔ یہ لکھنا ہرگز مبالغہ آرائی نہیں کہ یہ آگ بذات خود ایک قیامت صغریٰ سے کم نہ تھی۔ شکسپیئر کا قول ہے کہ عذاب اکیلے نہیں آتے (دو چار مل کر آتے ہیں یا یکے بعد دیگرے۔) اُس وقت کا برطانیہ بڑا غیر مستحکم تھا (جس طرح ان دنوں ہمارا وطن عزیز ہے) طرح طرح کے اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا۔ وہ خانہ جنگی سے بمشکل سنبھلا تھا۔ صرف چھ سال پہلے 1660ء میں چارلس دوم کی تخت نشینی سے بادشاہت کا ٹوٹ جانے والا تسلسل پھر سے قائم ہوا۔ ابھی پانچ سال خیر و عافیت کے گزرے تھے کہ 1665ء میں طاعون جیسی مہلک اور موذی وبا پھوٹ پڑی اور لندن شہر میں ستر ہزار افراد کو ہلاک کر گئی۔ مذہبی حلقوں نے آگ لگنے کی اتنی بڑی واردات کو عذاب الٰہی قرار دیا۔ اُن کا موقف یہ تھا کہ مشیّت ایزدی نے برطانوی قوم کو اُس کے گناہوں (خصوصاً بادشاہ سلامت کی جنسی آوارگی) کی سزا دی ہے۔ غیر مذہبی لوگوں کی نظر میں آگ اتفاقاً یا کسی حادثہ سے نہیں لگی بلکہ یہ حرکت فرانسیسی یا ولندیزی (Dutch) شرپسندوں یا ملک کے اندر زیر عتاب کیتھولک فرقہ کے پیرو کاروں کی ہے۔ غیر ملکی جاسوسوں کو اس حد تک شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا تھا کہ جب ایک فرانسیسی باشندے کو گرفتار کر لیا گیا تو اُس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔ ظاہر ہے کہ اُسے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ بے چارہ شخص تو بے گناہ تھا چونکہ وہ آگ لگ جانے کے کئی دن بعد پہلی بار لندن آیا تھا۔ یہ ہوتا ہے سازش کی افواہوںکی کرشمہ سازی۔ خرد کا نام جُنون اور جُنون کا خرد رکھ دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ پاکستان بھی ان دنوں افواہوں کی لپیٹ میں ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے کی بیماری کی پہلی علامت ہوتی ہے۔ آئیے لندن میں بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف واپس چلتے ہیں۔ افواہوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مگر آگ بجھ جانے کے دس سال بعد Titus Dates نامی ایک بے حد غیر ذمہ دار اور غیر مُعتبر شخص نے دعویٰ کیا کہ اُس کے پاس یہ ثابت کرنے کے لئے دستاویزی ثبوت ہے (یہ صریحاً جھوٹ تھا) کہ فرانس کی شہ پر کیتھولک فرقہ کے کارکنوں نے آگ لگا کر دہشت پھیلانے اور افراتفری کے دوران بادشاہ کو قتل کر کے اُس کے کیتھولک بھائیJames کو تخت پر بٹھانے کی سازش کی تھی۔ بیل تو منڈھے نہ چڑھ سکی مگرکیتھولک فرقہ کے 24 بے گناہ افراد کو اس سازش میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔کیا یہ سطور پڑھ کر آپ کو پاکستان میں توہین رسالت کے بے بنیاد الزام پر گرفتار ہونے والے مسیحی افراد پر ڈھائے جانے والے مظالم یاد نہیں آتے؟
برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ کرنے والوں کی تعداد غالباً آٹے میں نمک سے بھی کم ہوگی اور پھر بھی یہاں کے مسلمانوں کے راہنما (یہودیوں کی بھرپور حمایت کے بل بوتے پر) اُن کے خلاف بڑی سخت زبان استعمال کرتے ہیں (اور شاید کرنی بھی چاہیے۔) برطانیہ کے لاکھوں مسلمانوں کے خود ساختہ اور نام نہاد ترجمان جو بھی کر لیں اور جو بھی کہہ لیں، وُہ وسطی یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک چیک جمہوریہ (Czech Republic) کے صدر کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ وہ صرف اپنے ملک کا نہیں بلکہ دُنیا بھر میں خرافات بکنے والوں کا بھی صدر ہے۔ اُس کے ملک کی کل آبادی ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے اور اُس میں مسلمانوں کی کل تعداد ساڑھے تین ہزار ہے۔ اُس بدبخت نے اپنے ملک کے شہریوں کے ان مٹھی بھر بے ضرر اور امن پسند مسلمانوں کے جہادی حملہ سے خبردار کیا اور اپنے بچائو کے لئے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ دارالحکومت کا نام ہے پراگ (Prague) جو بڑا خوبصورت اور تاریخی شہر ہے۔ یہ کالم نگار ہر دو چار سال کے بعد وہاں ایک دن گزارنے کا بہانہ ڈھونڈ لیتا ہے اور خاص طور پر وہاں نویں صدی میں تعمیر ہونے والے ایک بے حد شاندار قلعہ کی سیر کرنے جاتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ ہرزہ سرائی اس نے اسی قلعہ میں منعقد ہونے والی ایک حالیہ سرکاری تقریب میں کی تو مہمانوں نے اپنے بد زبان، بے وقوف اور بدتمیز میزبان پر پھلوں کے چھلکے پھینک کر اپنی ناراضگی کا اظہارکیا۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved