تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     18-10-2016

اسرار اور اتفاقات

جب میں ٹولیڈو کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو صبح کے ساڑھے پانچ بجے تھے اور ابھی گھپ اندھیرا تھا۔ تارے یوں نظر نہیں آرہے تھے کہ آسمان پر بادل تھے۔ امریکہ کے شمال میں ''فال‘‘ یعنی خزاں کا آغاز ہو چکا ہے۔ درخت پتوں سے خالی ہونا شروع ہو گئے ہیں اور سڑکوں پر سوکھے پیلے پتوں کی تہہ بچھی جا رہی ہے۔ گاڑی کی روشنی میں تیز ہوا میں پتے اُڑتے بڑے بھلے لگ رہے تھے۔ سردی کا آغاز ہے اور علی الصبح تو خاصی سردی تھی۔ میری بیٹی مجھے جب اسٹیشن پر چھوڑ گئی تب مسافر خانے میں پندرہ بیس مردو زن پہلے سے موجود تھے۔ شکاگو کی ریل گاڑی آنے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا۔
مسافر خانہ ایک بڑا ہال تھا۔ چاروں طرف دیوار کے ساتھ آرام دہ بنچ نما صوفے تھے اور درمیان میں ہلالی شکل کے بنچ تھے۔ میں درمیان والے بنچ پر بیٹھ گیا۔ ایک عرصے کے بعد ریلوے اسٹیشن کے مسافر خانے میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ کم از کم پانچ چھ سال بعد۔ پانچ منٹ بعد ہی ایسا لگا کہ میں ملتان کینٹ کے ریلوے اسٹیشن پر ہوں۔ ویسی ہی رات گئے والی ویرانی اور سکوت۔ جب تک ٹرین کے آنے کا اعلان نہ ہوا خاموشی اور اداسی سارے ماحول پر چھائی رہی۔ جونہی ٹرین آنے کا اعلان ہوا سب مسافر اپنا اپنا سامان اُٹھا کر آٹومیٹک دروازے کی طرف چل دیے۔ تب پتا چلا کہ یہ ملتان کا نہیں ٹولیڈو کا ریلوے اسٹیشن ہے۔ نہ چائے گرم کی آواز اور نہ ہی قلیوں کا شور۔ ٹرین آکر پلیٹ فارم پر کھڑی ہو گئی۔ جانے والے مسافروں نے قطار بنا لی۔ سدا سے احساس تحفظ سے محروم ہم برصغیر کے لوگوں کو ہر کام کی جلدی پڑی ہوتی ہے۔ قطار میں‘۔ میں سب سے آگے تھا۔ اوپر چڑھنے کے لیے نہ کوئی دھکم پیل تھی اور نہ ہی افراتفری۔ پہلے اُترنے والے مسافر آہستہ آہستہ اُتر رہے تھے۔ اسی دوران ایک نیلے کوٹ والے کنڈکٹر نے ہمیں چھپے ہوئے نمبر پکڑانے شروع کر دیے۔ یہ سیٹ نمبر تھے۔ کہنے لگا اندر جا کر دائیں ہاتھ والے ڈبے میں چلے جائیں اور اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ جائیں۔ میرے پاس بیگ کو دیکھ کر کہنے لگا یہ بیگ وزنی ہے۔ آپ اوپر جائیں میں آپ کو پکڑاتا ہوں۔ اس نے نہایت خوشدلی سے مجھے دو سیڑھیاں اوپر چڑھ کر بیگ پکڑایا اور کہا کہ یہ بیگ خاصا وزنی ہے اس لیے اوپر سامان والی جگہ پر نہ رکھوں بلکہ ڈبے کے آخر میں سامان رکھنے والی جگہ پر رکھ دوں۔ بیگ رکھ کر میں واپس آیا اور اپنی سیٹ تلاش کی۔
یہ دو دو افراد والی سیٹیں تھیں۔ میری ساتھ والی سیٹ پر ایک شخص سر سے پاؤں تک پتلا سا کمبل اوڑھے سو رہا تھا۔ میں خاموشی سے اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ مسافر نے منہ سے کمبل ہٹایا اور مجھے خوش آمدید کہا۔ ستر پچھتر سال کی عمر کا مضبوط کاٹھی اور خوشگوار طبیعت کا مالک میرا ہمسایہ افریقی امریکن تھا۔ وہ تھوڑا سکڑ کر ایک طرف ہوا اور مجھے کہنے لگا کہ میں کھل کر بیٹھوں اور پھر دوبارہ منہ پر کمبل ڈال کر سو گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں بھی سو گیا۔ گھنٹے بعد سورج نکلنے کے آثار شروع ہوئے تو میں اُٹھ بیٹھا۔ ساتھ والے ڈبے سے کافی لے کر آیا تو میرا ہمسایہ بھی اُٹھ چکا تھا۔ چھوٹی سی فرنچ کٹ داڑھی کے زیادہ بال سفید تھے جو آبنوسی رنگت پر بھلے لگ رہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اگر وہ کافی پینا چاہے تو میرا کپ لے سکتا ہے۔ میں نے ابھی اسے پینا شروع نہیں کیا‘ میں دوسرا کپ لے آؤں گا۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا وہ بلیک کافی پیتا ہے اور چینی کے بغیر بھی۔ اس نے مجھ سے معذرت کی کہ وہ مجھے تکلیف دے رہا ہے۔ میں نے اپنی سیٹ سے اُٹھ کر اسے گزرنے کی جگہ دی۔ چند منٹ بعد وہ اپنی کافی لے آیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا‘ میرا نام حسان ہے اور میں امریکن مسلم ہوں۔ امریکہ میں رہنے والا ہر قومیت اور مذہب کا شخص اپنے آپ کو اپنی قومیت یا مذہب کے ساتھ امریکن بتائے گا۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں کیا کرتا ہوں؟ میں نے کہا میں اخبار میں کالم لکھتا ہوں۔ پوچھنے لگا کس اخبار میں؟ میں نے کہا ''دنیا‘‘ میں۔ وہ بولا کس شہر سے نکلتا ہے؟ میں نے کبھی اس کا نام نہیں سنا۔ میں نے کہا کہ یہ اخبار امریکہ میں نہیں پاکستان میں شائع ہوتا ہے البتہ ''نیٹ‘‘ پر ہر جگہ دستیاب ہے۔ پوچھنے لگا آپ امریکہ کے بارے میں بھی لکھتے ہیں؟ میں نے اسے بتایا کہ گزشتہ دو کالم امریکہ پر ہی لکھے ہیں۔ کس موضوع پر؟ میں نے کہا امریکی الیکشن پر۔ وہ میری طرف جھکا اور کہنے لگا امریکی صدر کا الیکشن دنیا کا سب سے مہنگا الیکشن ہے۔ اوباما کے الیکشن پر دونوں اُمیدواروں نے، یعنی اوباما 
اور میٹ رومنی نے ایک ایک بلین ڈالر الیکشن پر خرچ کیے تھے۔ اس الیکشن میں گزشتہ الیکشن سے تو کم پیسے خرچ ہونگے مگر دونوں اُمیدوار یعنی ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ مل کر ایک بلین ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کریں گے۔ یہ سارے پیسے امریکہ کا ریوریٹ سیکٹر لگاتا ہے جو اپنی اس سرمایہ کاری کی وصولی اس طرح کرتا ہے کہ اپنی مرضی کے قوانین بنواتا ہے اور سارا خرچہ عوام کی جیب سے مع منافع وصول کر لیتا ہے۔ حسان وہی بات کہہ رہا تھا جو شفیق ہمیشہ مجھے کہتا ہے۔
میں نے حسان سے پوچھا کہ بارک اوباما کے صدر بننے کے بعد افریقی امریکنز کے معاملات پر کوئی فرق پڑا ہے۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا‘ امریکی کالوں سے گوری پولیس کا رویہ حسب سابق والا ہی ہے۔ تعصب اور بدسلوکی کی شرح بھی وہی پُرانی ہے‘ کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ ہاں ایک فرق پڑا ہے‘ اب پانچ سات سال کا کالا بچہ یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ امریکہ کا صدر بن سکتا ہے اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہ ایک روشن سوچ کا آغاز ہے اور اس سوچ کو صرف اوباما کا صدر بننا ہی پیدا کر سکتا تھا۔ یہ صرف امریکہ میں ہی ممکن تھا۔ میں نے پوچھا اور ٹرمپ؟ وہ ایکدم کہنے لگا وہ ایک احمق، متعصب اور گھٹیا آدمی ہے۔ میں نے پوچھا آخر وہ پندرہ سولہ ری پبلیکن اُمیدواروں میں سے ''پرائمری‘‘ کی چھلنی سے کیسے گزر کر آگے آ گیا۔ کیا ٹرمپ کی بطور صدارتی اُمیدوار نامزدگی آپ کے پرائمری پارٹی الیکشنز کے نظام میں خرابی کا پتا نہیں دیتی۔ کہنے لگا بالکل درست کہا۔ یہ امریکہ کی بدقسمتی ہے کہ ٹرمپ جیسا آدمی ہمارا صدارتی اُمیدوار ہے مگر آپ دیکھنا امریکی عوام ریپبلکنز کی اس غلطی کا ازالہ کر دیں گے۔ مسلمان اس الیکشن میں یکطرفہ ووٹ ڈالیں گے۔ گاڑی نے بریک لگانی شروع کی تو وہ ایکدم کہنے لگا‘ باتوں میں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ میرا اسٹیشن آ گیا ہے۔ مجھے یہاں ''ایلک ہارٹ‘‘ پر اُترنا ہے۔ میں نیویارک سے آرہا ہوں۔ مجھے اپنا ای میل ایڈریس دے دیں میں آپ کو کچھ لکھ کر بھیجوں گا۔ پھر اس نے مجھے ''فی امان اللہ‘‘ کہا اور ہاتھ ملا کر رخصت ہو گیا۔
شکاگو یونین اسٹیشن پر مجھے سلمان آفتاب لینے آیا ہوا تھا۔ سلمان آفتاب میرا دوست ہے اور سیاسی طور پر بڑا متحرک ہے۔ مجھے کہنے لگا آپ بڑے اچھے وقت پر آئے ہیں۔ آج میری ریلی ہے‘ ہیلری کے حق میں‘ دوپہر کو ڈیون ایونیو پر۔ ڈیون ایونیو شکاگو کی پُر رونق سڑک ہے جسے پاکستانی دیوان ایونیو کہتے ہیں۔ درجنوں پاکستانی ریسٹورنٹ۔ اسے آپ شکاگو کی ایم ایم عالم روڈ کہہ سکتے ہیں۔ دیسی مٹھائی کی دوکانیں‘ تکہ کباب اور نہاری سے لے کر کڑاھی گوشت اور فالودہ تک سب کچھ دستیاب ہے۔ سڑک پر اُردو بولتے ہوئے پیرو جوان۔ مجھے بھی امریکہ میں ہونے والی اس الیکشن ریلی کے بارے میں تجسس ہوا کہ یہ کیسی ہو گی؟ پوچھا کہ یہ ریلی پیدل ہو گی، موٹر سائیکلوں پر ہو گی یا گاڑیوں میں؟ موٹر سائیکلوں کا تو میں نے شغل میں کہا کہ خود سلمان آفتاب کے پاس امریکی لفنگوں والا موٹر سائیکل جسے ''چوپر‘‘ کہا جاتا ہے ‘موجود ہے۔ سلمان ہنسا اور کہنے لگا‘ یہ ریلی مسلم لیگ ن والی موٹر سائیکلوں کی ریلی نہیں ہے‘ ہماری ریلی مختلف ہوتی ہے۔ یہ ہال کے اندر ہو گی۔ دس بارہ مختصر تقاریر ہونگی۔ ہال کے اندر ہی دس بارہ پندرہ بینر اُٹھائے ہوئے لوگ ہونگے اور بس۔ میں نے کہا مزہ تو نہ آیا۔ کہنے لگا ہمارے ہاں یہی مزہ کہلاتا ہے۔ واشنگٹن سے آپ کے دوست وائس آف امریکہ والے اظفر امام آرہے ہیں۔ دنیا نیوز کے معوذ صدیقی ہونگے۔ یہاں شکاگو سے چوہدری رشید ہونگے۔ شکاگو کی کمشنر گوری ہو گی۔ یہاں سے کانگرس کی ممبر خاتون ہو گی اور دیگر نمایاں لوگ ہوں گے۔ میں نے پوچھا سٹیج کون سنبھالے گا؟ کہنے لگا یہ کام میرے ذمے تھا مگر میں دیگر سارے کاموں میں اتنا مصروف ہوں کہ دوران ریلی بھی سر کھجانے کی فرصت نہیں ملے گی۔ یہ کام ایک امریکن خاتون سر انجام دے گی۔ یہ گوری ہے اور حجاب لینے والی مسلمان خاتون ہے۔ اس سے ہمارے دیگر مہمانوں پر بڑا مثبت اثر پڑے گا۔ اس لیے یہ کام اس کے سپرد کیا گیا ہے۔
اسی دوران اس نے کسی چوہدری نعمت کو فون کیا۔ میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں۔ کہنے لگا میرے تیس سال پُرانے دوست ہیں۔ یہاں شکاگو ہوتے ہیں۔ میں نے ایسے ہی پوچھا یہ چوہدری نعمت لائل پور والا ہے؟ سلمان کہنے لگا ہاں فیصل آباد سے ہے۔ میں نے پوچھایہ پنجابی کا بے مثال مقرر ''بابا نعمت‘‘تو نہیں؟ سلمان ہنسا اور کہنے لگا ‘ہے تو وہی۔ پر آج پتا چلا ہے کہ یہ ''بابا‘‘ ہے۔ میں نے کہا ہم نے زمانہ طالبعلمی میں چوہدری نعمت سے فن تقریر کے بارے میں بہت کچھ سیکھا تھا۔ یہ میرے بڑے بھائی مرحوم کے ہم عمر تھے اور ہم سے بہت سینئر۔ سلمان نے چوہدری نعمت کو میرا بتایا۔ تھوڑی دیر بعد چوہدری نعمت نے مجھے سینے سے لگایا ہوا تھا۔ ہماری ملاقات غالباً پینتیس چھتیس سال بعد ہوئی۔ پوچھنے لگا کالے خان کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا اسے ہم سے بچھڑے اٹھائیس سال ہو گئے ہیں۔ ایکدم چپ ہو گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد کہنے لگا ‘اب صرف یہی خبریں ملتی ہیں کہ کون گزر گیا ہے۔ کسی روز آپ بھی یہی خبر سنو گے۔ ہم رات گئے تک اکٹھے رہے۔ مجھے رات سونے سے پہلے خیال آیا کہ یہ کیا اسرار ہے کہ مجھے چوہدری نعمت کا نام سنتے ہی فیصل آباد والے چوہدری نعمت کا خیال آیا اور وہ وہی تھا جس کا میں نے سوچا‘ پینتیس سال بعد‘ فیصل آباد سے ہزاروں میل دور شکاگو میں۔ سلمان آفتاب کے ساتھ ‘جس نے کبھی فیصل آباد شاید دیکھا بھی نہیں ہو گا۔ یہ اسرار اور اتفاقات کیا ہیں؟ یہ گتھی کبھی سلجھ سکے گی؟ توجیہات اپنی جگہ، مگر کیا اس کا کوئی شافی جواب مل سکے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved