تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-10-2016

پاگل کُتّے نے نہیں کاٹا

عمل کی دنیا بہت بے رحم، بلکہ سَفّاک ہے۔ یہ کسی کا بھلا تو کیا کرے گی، کسی پر ذرّہ بھر رحم کھانے کا بھی نہیں سوچتی۔ جہاں کسی نے غلط کی وہیں اُسے سزا ملی۔ جتنی عجلت کا مظاہرہ ہم غلطی کرنے میں کرتے ہیں اُتنی ہی یا اُس سے کچھ زیادہ عجلت عمل کی دنیا ہمیں سزا دینے میں دکھاتی ہے۔ یعنی ع 
کیا خوب سَودا نقد ہے، اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے 
ہر زمینی حقیقت ہماری خوش خیالی کے محل کو مسمار کرنے پر تُلی رہتی ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ ہم بھی زمینی حقیقتوں کو درخورِ اعتناء سمجھنے کے بجائے اپنی خام خیال یا خوش گمانی کے قلعے میں محصور رہنے پر بضد رہتے ہیں۔ 
کراچی، حیدر آباد، لاہور، ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ اور دیگر بڑے شہروں سمیت پورے ملک میں لوگوں کی عمومی ذہنیت یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور سرکاری نوکری مل جائے۔ لاکھوں نوجوان سرکاری نوکری کے چکّر میں پڑے رہتے ہیں اور وقت ضائع ہوتا رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ ایک ضد سے ہوجاتی ہے کہ کرنی ہے تو سرکاری نوکری کرنی ہے ورنہ نہیں کرنی۔ یعنی بہ قول امیتابھ بچن (فلم ''شرابی‘‘) ''مونچھیں ہوں تو نتّھو لعل (مُقری مرحوم) جیسی ہوں ورنہ نہ ہوں!‘‘ 
یہ کچھ کچھ ویسی ہی کیفیت ہے جیسی آئیڈیل کی تلاش میں بھٹکتی لڑکیوں میں پائی جاتی ہے۔ بہترین جیون ساتھی کی تلاش میں بہت سی لڑکیاں خاصے ڈھنگ کے رشتے بھی ٹھکراتی جاتی ہیں اور پھر عمر (یعنی شادی کرنے کی عمر) بیت جاتی ہے۔ اِس مسئلے کو سنگیتا نے فلم ''محبت اور مہنگائی‘‘ میں ملکۂ ترنم نور جہاں کی زبانی یوں بیان کیا تھا ... عمریا بیتی جائے، کوئی رشتہ نا آئے! اور جب سپنوں کے راج کمار کی تلاش میں رشتے پر رشتہ ٹھکرایا جاتا رہے تو وقت گزر جانے پر سپنوں کے راج کمار کے باپ کی عمر کا بندہ قبول کرنا پڑتا ہے! 
عملی زندگی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی پسند کی سرکاری نوکری نہ ملنے پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہتا ہے تب وقت، ظاہر ہے، ضائع ہو رہا ہوتا ہے۔ لوگ کتنا ہی سمجھائیں، کان کچھ سننے پر آمادہ نہیں ہوتے اور ذہن کسی بھی معقول مشورے کو تسلیم نہیں کرتا۔ ؎ 
لوگ سمجھاتے رہ گئے دل کو 
ہوش جاتے رہے تو ہوش آیا! 
قصہ مختصر، اچھا خاصا وقت یعنی استعداد سے بھرپور عمر (عہدِ شباب) کا بڑا حصہ ضائع کرچکنے کے بعد ہوش آتا ہے تو پھر کوئی بھی نوکری کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ ع 
جو مل گیا اُسی کو مقدّر سمجھ لیا 
اِسی بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ آدھی کو چھوڑ پوری کو جائے تو آدھی بھی ہاتھ نہ آئے۔ 
سرکاری نوکری اِس لیے تلاش کی جاتی ہے اُس میں مزے ہی مزے ہیں، یہ موجاں ای موجاں والا معاملہ ہے۔ ایک بار سرکار کے نوکر ہوگئے تو کوئی نکالتا نہیں۔ فارغ کیے جانے کے خوف سے نجات مل جاتی ہے۔ ٹائمنگ مرضی کی ہوتی ہے۔ جب جی چاہے جاؤ۔ اور نہ بھی جاؤ تو کیا ہے۔ کام برائے نام کرنا ہوتا ہے۔ چُھٹّیاں جی بھر کے ملتی ہیں۔ چھوٹی موٹی غلطی کی تو خیر بساط ہی کیا ہے، بلنڈر بھی کر بیٹھو تو کون ہے جو گریبان میں ہاتھ ڈالے! کسی کو سرکاری نوکری سے فارغ کرنے کا طریق کار اتنا پیچیدہ اور طویل ہے کہ عموماً اِس سے احتراز ہی کیا جاتا ہے۔ 
فروری 2012ء میں سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ صادر کیا کہ ملک کے تمام خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کی جائے یعنی اُنہیں اُن کی ''صنف‘‘ کے تعین کے ساتھ شناختی کارڈ جاری کیے جائیں اور سرکاری و نیم سرکاری ملازمتوں میں ایک فیصد کوٹا دیا جائے۔ 
شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات کے حصول کا طریق کار آسان ہوجانے پر خواجہ سرا بہت خوش ہوئے کیونکہ وہ اس کا مطالبہ ایک زمانے سے کر رہے تھے۔ انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک بھر کے خواجہ سراؤں نے ملازمتوں میں کوٹا مقرر کردیئے جانے پر بھی خالص غیر سرکاری سوچ اپنائی ہے یعنی دانش مندی کا مظاہرہ کرنے میں بُخل سے کام نہیں لیا۔ چار سال آٹھ ماہ کے دوران ایک بھی خواجہ سرا نے سرکاری یا نیم سرکاری محکمے میں ملازمت کے لیے درخواست دینے کی زحمت گوارا نہیں کی! 
یہ جان کر آپ کو بھی حیرت تو ہوئی ہوگی۔ سیدھی سی بات ہے۔ خواجہ سرا اور کسی معاملے میں گئے گزرے ہوں تو ہوں، عقل تو برقرار ہے۔ نارمل انسان بھلے ہی کسی اور دنیا میں رہتے ہوں، خواجہ سرا حالات اور واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ کھوپڑی میں پائے جانے والے ذہن کو عام یعنی نارمل مرد و زن بھلے ہی خاطر میں نہ لاتے ہوں، خواجہ سرا انہیں بروئے کار لانا اچھی طرح جانتے ہیں۔ اُنہیں کیا پاگل کُتّے نے کاٹا ہے کہ اچھی خاصی مزے کی زندگی کا بوریا بستر لپیٹ کر سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لے اُتاؤلے ہوں؟ 
خواجہ سرا پورے ماحول پر ایسی گہری نظر رکھتے ہیں کہ جیسے ہی کسی کے ہاں بچہ ہوتا ہے، اُنہیں کسی نہ کسی طور معلوم ہو ہی جاتا ہے اور ''نیگ‘‘ لینے آ دھمکتے ہیں۔ ہماری ناقص رائے یہ ہے کہ خفیہ معلومات جمع کرنے والے اداروں کو بھی ایسا ہی کوئی نظام وضع کرنا یا اپنانا چاہیے! 
کبھی آپ نے سُنا ہے کہ خواجہ سراؤں کا کوئی گروپ غیر قانونی طریقے سے یورپ جاتے ہوئے پکڑا گیا ہو؟ قانونی یا غیر قانونی طور پر وہ ملک سے کہیں بھی کیوں جانا چاہیں گے جب ان کا یورپ یہیں ہو؟ امریکا اور یورپ میں تولیدی صلاحیتوں سے عاری افراد کو بھی زندہ رہنے، بلکہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ سہولت تو صرف ہمارے ہاں میسر ہے کہ وہ بغیر کچھ کیے، محض ٹھمک اور تھرک کر مزے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 
بات ہو رہی ہے ذہن کو بروئے کار لانے یعنی عقل کو کام پر لگانے کی۔ ایک نہیں، دو تین سرکاری ملازمین مل کر بھی اُتنا نہیں کماسکتے جتنا ایک خواجہ سرا شام کے اوقات میں چند ٹھمکے لگاکر کما لیتا ہے! ایسے میں کیا اُنہیں پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ معمولی سی سرکاری نوکری کے چکر میں پڑ کر ''قدرتی کیریئر‘‘ کو داؤ پر لگادیں! سپریم کورٹ جیسے انتہائی موقر ریاستی ادارے نے اُنہیں سرکاری ملازمتوں میں کوٹا دے دیا مگر وہ اِس کوٹے کو اپنے ٹھمکوں کی نوک پر رکھے ہوئے ہیں! اِسی کو تو practical wisdom کہتے ہیں۔ جس جاندار میں سانسوں کا تسلسل برقرار ہے اُسے اِس دنیا سے زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وقت ڈھنگ سے گزرے، زندگی سہولت سے بسر ہو۔ معاشرہ جنہیں ہدفِ استہزاء بناتے نہیں تھکتا وہ خواجہ سرا بھی اِتنا پریکٹیکل وزڈم تو رکھتے ہی ہیں کہ جو کچھ فائدہ پہنچانے والا ہے وہ اپنائیں اور جس معاملے میں صرف خسارہ ہو وہ چھوڑ دیں۔ عملی زندگی میں کارگر اور مفید فیصلے کرنے کی دانش اگر میسّر نہ ہوئی تو بس ہم نارمل انسانوں ہی کو نہ ہوئی۔ 
جو لوگ سرکار کی ملازمت کرتے ہی اِس لیے ہیں کہ زندگی سُکون سے گزاریں اُنہیں کام کرنے کی تحریک اگر ملے تو کہاں سے ملے؟ وہ ریاست کی انتظامی مشینری کا حصہ بن کر کچھ کرنے کے بجائے آرام کو ترجیح دیتے ہیں۔ اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انتظامی مشینری میں کام کرنے والے ہیں نہیں۔ اپنے فرائض سے غفلت نہ برتنے والے بھی ہیں مگر کم ہیں۔ اکثریت اُن کی ہے جو وقت کو صرف دھکّا دینا چاہتے ہیں۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ اوقاتِ کار کے دوران زیادہ سے زیادہ آرام یقینی بناکر پُرسکون رہا جائے، کوئی دردِ سر نہ پالا جائے۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ریاستی مشینری میں جو بھی کماحقہ کام کرتا پایا جائے اس کے بارے میں یہی گمان کیا جاتا ہے کہ اُسے شاید کسی پاگل کُتّے نے کاٹ لیا ہے! 
بہت سے نوجوان آج بھی سرکاری نوکری کی آس پر اپنا وقت ضائع کرنے کی روش پر گامزن ہیں۔ اُن کے لیے خواجہ سراؤں کی طرف سے پیغام یہ ہے کہ کام وہ کرو جس میں زیادہ سے زیادہ مال ملے۔ غالبؔ نے بھی تو کہا تھا ع 
کام اچھا ہے وہی جس کا مال اچھا ہے 
آپ چاہیں تو اِس مصرع کے مفہوم کو ذرا سا بدل کر یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کو وہی کام اچھا ہے جس میں مال زیادہ ملتا ہو! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved