پاکستانی آئین میں فیلڈ مارشل کے عہدے کی گنجائش موجود نہیں۔ اس کے باوجود اسلام آباد کے دو وکلا نے ہائی کورٹ سے استدعا کی ہے کہ جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل کے منصب پر فائز کیا جائے۔ یہ سوال زیربحث آیا کہ پاکستانی آئین میں تو اس منصب کی گنجائش ہی نہیں۔ مثال یہ دی گئی کہ ہرچند آئین میں اس کی گنجائش نہ ہو، لیکن جنرل ایوب خان اس منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ ازخود ترقی لے کر جنرل ایوب خان فیلڈ مارشل کے منصب جلیلہ پر فائز ہو گئے تھے۔ ابھی تک یہ پتہ نہیں کہ کس ضابطے‘ قانون اور فوجی مراتب کی فہرست میں باضابطہ یہ منصب کہاں پر موجود ہے؟ ہمارے ملک میں صدارت کے منصب پر فائز ہونے کے علاوہ‘ ایوب خان طویل مدت تک فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ ان کا کام کیا تھا؟ وہ کرتے کیا تھے؟ بڑے عہدوں پر کام کرنے والے عموماً آئینی اختیارات کے تحت اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ صدرمملکت کا منصب ایک مقررہ طریقہ کار کے تحت حاصل کیا جاتا ہے۔ منتخب پارلیمنٹ اکثریتی ووٹوں کے ذریعے صدر مملکت کا انتخاب کرتی ہے۔ اسی طرح وزیراعظم کا عہدہ بھی آئینی ہے اور وہ بھی قومی اسمبلی کے اکثریتی ووٹ لے کر منتخب ہوتے ہیں۔ آئین کے تحت سب سے بڑا فوجی منصب‘ چیف آف آرمی سٹاف کا ہے۔ تینوں مسلح افواج کی رسمی سربراہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے پاس ہوتی ہے۔ یہ رسمی عہدہ ہے۔ مکمل انتظامی امور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے پاس ہوتے ہیں۔
فیلڈ مارشل کا عہدہ محض ایک بار شخصی خواہش کی بنیاد پر قائم کیا گیا۔ اس عہدے کی آئینی گنجائش پیدا نہیں کی گئی۔ ورنہ اس طرح کا کوئی انتظام کیا گیا ہوتا‘ تو ایوب خان کے بعد کوئی دوسرا اعلیٰ فوجی افسر خالی عہدے کو پر کرتا۔ جب کوئی عہدہ آئین یا قواعد و ضوابط کے مطابق موجود ہو‘ تو اسے خالی نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن فیلڈ مارشل کا منصب‘ درحقیقت کسی انتہائی اہل یا سینئرترین فوجی افسر کے لئے ‘اعلیٰ ترین اعزاز کے طور پہ دیا جاتا ہے۔ متعدد ملکوں میں کئی فیلڈ مارشل بنائے گئے ‘ وہ باقاعدہ عہدہ نہیں بن پایا۔ ہمارے ملک میں ابھی تک جو پہلا اور آخری منصب کسی کو عطا ہوا‘ وہ صرف ایوب خان کے لئے تھا۔ ان کی زندگی کے ساتھ ہی یہ عہدہ بھی ختم ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں‘ فیلڈ مارشل کا منصب ایک بار پھر کیوں تجویز کیا جا رہا ہے؟ عدالتیں تحریری قوانین کی روشنی میں فیصلے کرتی ہیں۔ جب فیلڈ مارشل کا کوئی آئینی منصب ہی موجود نہیں‘ تو عدالت اس درخواست پر کیا فیصلہ کر سکتی ہے؟ درخواست گزاروں کا تعلق ‘کسی سیاسی جماعت سے ہو گا۔ یہ سوال کیوں پیدا ہوا؟ صاف ظاہر ہے کہ ان دنوں چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ‘ نومبر میں خالی ہونے والا ہے اور بدنصیبی سے ہماری روایت یہ ہے کہ جیسے ہی کسی چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت ختم ہونے کا وقت آتا ہے‘ تو مختلف افواہیں جنم لینے لگتی ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ہاںیہ روایت بن چکی ہے۔ سب سے پہلے جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کر کے‘ اپنے آپ کو سربراہ مملکت بنا لیا اور خدا جانے کیوں؟ انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو فیلڈمارشل مقرر کر لیا۔ یہ واضح فرائض کا تعین کئے بغیر‘فوج میں سب سے بڑا عہدہ ہوتا ہے۔ غالباً ایوب خان کو بھی سب سے بڑے منصب پر فائز ہونے کی خواہش ہو گی تاکہ وہ اپنے ملک کی فوج کے سب سے بڑے افسر کا درجہ حاصل کر سکیں۔ ایک اور ترغیب یہ ہو سکتی ہے کہ جب وہ کسی غیرملکی دورے پر جائیں تو میزبان ملک کے اعلیٰ ترین فوجی افسر کے مہمان بنیں۔ لیکن اقتدار کے کھیل میں ‘یہ ایک بے معنی مشق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بعد جتنے بھی جنرلوں نے اقتدار پر قبضہ کیا‘ وہ سب کے سب مکمل اختیارات کے مالک تھے مگر کسی نے فیلڈ مارشل بننے میں دلچسپی نہیں لی۔
جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے‘ جنرل راحیل شریف کی طرف سے بھی ایسی کوئی خواہش‘ اشارہ یا ارادہ سامنے نہیں آیا۔ ان کی طرف سے کوئی افواہ بھی سننے کو نہیں ملی۔ بدنصیبی سے ان دنوں فوج اور منتخب حکومت کے درمیان بعض معاملات پر اختلاف رائے کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اصولاً یہ ایک معمول کی تبدیلی ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف اپنی مقررہ مدت پوری کر کے‘ عزت و آبرو سے رخصت ہو جاتے ہیں اور نئے سربراہ کی تقرری کا فیصلہ‘ وزیراعظم کرتے ہیں۔ بیشتر ملکوں میں فوج کے سربراہ کی تقرری کا ضابطہ بھی موجود ہوتا ہے۔ جیسے بھارت میں سینئر ترین جرنیل کو‘ ازخود سربراہی کی ذمہ داریاں منتقل ہو جاتی ہیں۔
میں اسے اپنی بدنصیبی ہی کہوں گا کہ قیام پاکستان کے فوراً ہی بعد فوجی سربراہ کا منصب ‘ اقتدار اعلیٰ کا مرکز بن گیا۔ ایسا کیوںہوا؟ برصغیر میں ملک کی انتظامی سربراہی ‘تاج برطانیہ کے نامزد وائسرائے کے سپرد کی جاتی تھی۔ برصغیر کی کسی بھی شخصیت کو‘ کسی بھی اہلیت کی بنیاد پر‘ مکمل بااختیار اعلیٰ منصب نہیں دیا جاتا تھا۔ مقامی افراد کو بڑے سے بڑے منصب پر بھی لگایا جاتا‘ تو ان کے پاس اختیارات نہیں ہوا کرتے تھے۔ مثلاً ہندوستان میں جب جمہوری نظام متعارف کرایا گیا‘ تو وہ پورے کا پورا ‘تاج برطانیہ کے ماتحت ہوا کرتا تھا۔ انگریز گورنر ‘ تمام انتظامی امور میں بااختیار ہوتا اور جب دکھاوے کی اسمبلیاں قائم کی جاتی تھیں‘ انہیں گورنر جس طرح چاہتا ‘چلاتا۔ یہی صورتحال مرکز کی تھی۔ وزیراعظم محض نام کا ہوتا۔ پورے اختیارات گورنر جنرل کے پاس ہوا کرتے۔ 1947ء میں یہی صورتحال برقرار رہی۔ مگر اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جو مقامی لوگ مقررہ حدود کے اندر رہتے ہوئے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن بنتے ‘ انہیں قانون سازی کا اختیار ضرور تھا۔ لیکن ایسا ہر قانون ‘گورنر اور وائسرائے کے دفتر سے کلیئرنس کے بعد اسمبلی میں پیش کیا جاتا اور گورنر یا گورنر جنرل کی منظوری کے بعد اس کا نفاذ ہوتا۔ جب تحریک آزادی کامیابی کے قریب پہنچ گئی‘ تو جو آخری اسمبلی بنائی گئی‘ اسے جمہوری روایات کے مطابق اختیارات دیئے گئے۔ یہ انہی اختیارات کا نتیجہ تھا کہ مقامی سیاسی جماعتوں نے جو مخلوط حکومت بنائی‘ اس میں مسلم لیگ کے نوابزادہ لیاقت علی خان کو وزارت خزانہ دی گئی۔ لیاقت علی خان نے وزارت خزانہ کے اختیارات‘ اتنی ذہانت اور مہارت کے ساتھ استعمال کئے کہ کانگرسی وزرا کی چیخیں نکل گئیں۔ سردار پٹیل کو اتنی تکلیف پہنچی کہ وہ مسلم لیگ کی علیحدہ حیثیت تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اسی تجربے کے نتیجے میں‘ کانگرس نے آزادی کے بعد ہندوئوں اور مسلمانوں میں اختیارات کی تقسیم کا اصول مان لیا۔ بنیادی خیال تصادم اور محاذ آرائی کا نہیں تھا۔ لیکن جب حکومت سازی کا وقت آیا‘ تو پھر اختلاف اور مقابلہ معمول بنتا چلا گیا۔ آزادی سے پہلے جو باہمی محاذ آرائی ہندوئوں اور مسلمانوں کے مابین تھی‘ قیام پاکستان کے بعد وہ فوج اور ناتجربہ کار سیاستدانوں کو منتقل ہو گئی۔ اسی لڑائی نے پہلے پاکستانی جمہوریت کو کچلا۔ پھر صوبائی اختیارات کی تقسیم کو غیرجمہوری بنایا۔ آخرکار ملک دولخت ہو گیا اور آج صوبوں اور وفاق کے مابین کشمکش تیز ہونے لگی ہے۔ کیونکہ فوج کی اکثریت پنجابیوں پر مشتمل ہے اور ملک کے وزیراعظم بھی پنجابی ہیں، اقتدار کی کشمکش نیا انداز اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ مگر ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ کشمکش ‘جس طرف بھی جائے‘ اس کا فائدہ ہمارے پڑوسی اور دشمن ملک بھارت کو پہنچے گا۔ یہی کچھ ماضی میں ہوتا رہا ہے اور شاید آئندہ بھی ہوتارہے۔