ابھی ایک انگریزی اخبار میں شعیب اختر کا انٹرویو پڑھ کر سوچ رہا ہوں ہم کس پستی میں جاگرے ہیں۔ ہم سب ڈھول پیٹ رہے ہیںکہ جاوید میانداد اور آفریدی کی صلح ہوگئی۔ دونوں نے مٹھائی کھا کر ویڈیو بنوائی، گلے ملے، ایک دوسرے کو معاف کیا اور ہم سب نے ڈھول کی تھاپ پر بے ساختہ رقص شروع کردیا۔
کیا یہ جاوید میانداد اور آفریدی کے درمیان ذاتی تنازع تھا جو حل گیا؟ دونوںکسی کاروبار میں پارٹنر تھے کہ لین دین پر لڑ پڑے تھے؟ جاوید میانداد نے آفریدی پر میچ بیچنے کے الزامات لگائے تھے اور آفریدی نے جاوید میانداد کو روپے کا لالچی قرار دیا تھا۔ الزامات میں ایک بات مشترک تھی کہ دونوں نے مال پانی کمانے کے لیے غلط طریقے اختیار کیے۔ یقیناً دونوں کے پاس کچھ نہ کچھ ایسی اطلاعات ہوںگی جن کی بنیاد پر یہ الزامات لگائے گئے تھے۔ اب کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر جاوید میانداد کا الزام درست تھا کہ آفریدی میچ بیچ کر مال بناتا رہا تو میانداد کون ہوتے ہیں آفریدی کو معاف کرنے والے، جس نے ان کے بقول پاکستان کا نام بیچا؟ اگر جاوید میانداد نے کہیں لالچ سے کام لیا اور غلط طریقے سے مال کمایا جو آفریدی کے نزدیک بہت غلط کام تھا تو وہ بھی ملک کی بدنامی تھی، تو وہ کہاں سے آفریدی کا ذاتی معاملہ ہوگیا؟ دونوں کھلاڑی نہ بھی ہوتے اوران پر الزام لگتا کہ انہوں نے غیر قانونی یا غیراخلاقی طور پر پیسے بنائے تھے تو بھی ملکی قوانین کے تحت ان پر مقدمہ درج ہونا چاہیے تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے، جب لارڈز میچ کو تین پاکستانی کھلاڑیوں نے بیچا تو اس وقت بھی ہمیں ہمارے سمجھدار پاکستانیوں نے یہی سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ بیچارے بھولے پاکستانی لڑکے معصوم ہیں، وہ تو بہت چالاک گورے لوگوں نے انہیں پھانس لیا ہے۔ اس میں بھارتی لابی بھی ہم نے کہیں سے پیدا کر لی تھی۔ یہود و ہنود کی سازشیں ڈھونڈکر ہمارے کچھ کالم نگار دوستوں اور پرانے کرکٹرز نے ثابت کر دیاکہ یہ سب گوروں کی سازش تھی۔ اور پھر ایک دن ان سب لڑکوں نے خود اعتراف جرم کر لیا اور پوری قوم سے معافی مانگی۔ اس دوران ان کے حق میں جو ڈھول بجائے گئے اس پر کسی نے معافی نہیں مانگی۔ مجھے یاد ہے، اس پر میں نے ایک کالم لکھا تو مجھے محبِ وطن تماشائیوں سے باتیں سننا پڑی تھیں کہ دیکھیں، آپ بھی یہود و ہنود کی سازش کا ساتھ دے رہے ہیں وغیرہ۔
جس بائولر صاحب نے لندن کے ایک پب میں پائونڈز سے بھری جیکٹ پہن لی تھی، وہ ماشاء اللہ اب بھی ہماری ٹیم کے فرنٹ بائولر ہیں۔ ان تین بے چاروں کی بدقسمتی کہ وہ لندن میں پکڑے گئے تھے۔ اگر پاکستان میں پکڑے جاتے تو بھلا ان کا کسی نے کیا بگاڑ لینا تھا؟ ہمارے ہاں تو بڑے لوگوں اور ہیرو ٹائپ لوگوں کی کرپشن پر پردہ ڈالا جاتا ہے کہ اسے زیادہ نہ اچھالیں، اس سے ملک کی بدنامی ہوگی۔ جو بدنامی کراتے ہیں، مال بناتے ہیں، دوبارہ ہیرو بن کر ابھرتے ہیں۔ ایسے جرائم پیشہ کھلاڑیوں کی شادی کی لائیو کوریج ہوتی ہے۔ ان کے ایک ایک قدم کا فوٹو نئی نسل کو دکھایا جاتا ہے۔ دنیا حیران ہوتی ہے، جو لارڈز میں پاکستان کو بیچتے ہوئے پکڑا گیا تھا وہ پاکستانی قوم اور میڈیا کا ہیرو ہے۔ ٹی وی چینل اس کی شادی کی خبر لیڈ سٹوری کے طور پر چلاتے ہیں۔ اگر پاکستان میں یہ کھلاڑی پکڑے جاتے تو ان کا بھی یہی کچھ ہونا تھا جو جسٹس قیوم ملک کی انکوائری میں پکڑے جانے والے کھلاڑیوں کا ہوا تھا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے جواری کھلاڑیوں کے خلاف ثبوت پیش ہوئے، رپورٹ تیار ہوئی، سفارشات تیار ہوئیں، آج وہی بڑے بڑے جواری کھلاڑی ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر کرکٹ کمنٹری کرتے ہیں اور مال بناتے
ہیں۔ یقیناً یہ جواری کھلاڑی پاکستانی قوم پر ہنستے ہوںگے کہ ان سے زیادہ بیوقوف کون ہوںگے جن کی عزت اور وقار، سب کچھ، انہوں نے بیچا لیکن پھر بھی وہ انہیں بے گناہ سمجھتے ہیں، انہیں ہیرو کا درجہ دیتے ہیں اور جب وہ پکڑے جاتے ہیں تو ان کا یہ کہہ کر دفاع کرتے ہیںکہ یہ یہود و ہنود کی سازش تھی۔ پکڑے جانے کے باوجود ان جواریوںکو سر پر بٹھاتے ہیں، انہیں پی ٹی وی میں بٹھا کر کمنٹری کراتے ہیں، وہ ماہرانہ تبصرے کرتے ہیں۔ یہ وہ کھلاڑی ہیں جو ملک کو بیچنے میں ملوث رہے ہیں۔ ہم کہاں جا گرے ہیں؟
شعیب اختر کہتے ہیں 1990ء کی دہائی میں ڈریسنگ روم کا ماحول عجیب و غریب تھا۔ 1996ء میں میچ فکسنگ عروج پر تھی؛ تاہم وہ اس گندگی کا حصہ نہ بنے۔ شعیب اختر کے بقول یہ بہت ہی گندے ماحول کا ڈریسنگ روم بن چکا تھا۔ وہ ایسے سرکل سے دور رہا جو پاکستان کے میچ فکس کرتے تھے، دوسرے کھلاڑیوں کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا اورکھلاڑیوں سے بھی کہا کہ بہتر ہوگا کہ ہم اچھے کردارکا مظاہرہ کریں۔ شعیب کے بقول اس نے محمد عامر کو بھی 2010ء میں خبردار کیا تھا کہ وہ میچ فکسنگ گینگ سے دور رہے۔ اب وہی شعیب اختر کہتے ہیںکہ انہوں نے جاوید میانداد اور آفریدی کے درمیان تنازعے کو ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے وسیم اکرم دوڑے دوڑے گئے کہ بس کردیں،کہیں جوئے کے پرانے زخم ہرے نہ ہوجائیں۔ملک کی بدنامی کے نعرے لگا کر بلیک میل کر کے سب کو خاموش کرادو۔
کیا دو کھلاڑی جب چاہیں پوری قوم کو بتائیں کہ فلاں کھلاڑی نے ملک اور قوم کو بیچا تھا اور ان کے دو پرانے ساتھی، وسیم اکرم اور شعیب اختر درمیان میں آکر ان کی صلح کرادیں تو کیا یہ معاملہ ختم سمجھا جانا چاہیے؟ اس دوران پورے ملک کی جو بدنامی ہوئی اس کا ازالہ کیسے ہو؟ ہمیں اندازہ ہے، ہمارا پاسپورٹ دنیا میںتیسرے نمبر کا بد نام پاسپورٹ کیسے بنا؟کیوں دنیا بھر میں پاکستانیوں کا یہ امیج بن گیا کہ یہاں یا تو دہشت گرد رہتے ہیں یا پھر فراڈی اور اپنے ملک کو بیچنے والے کھلاڑی! کیوں ایئرپورٹس پر ہمیں علیحدہ قطار میں کھڑا کر کے تلاشیاں لی جاتی ہیں؟ پاکستان کو بدنام کرنے میں ایسے کھلاڑیوں اور بڑے لوگوں کا ہاتھ ہے جو پاکستان کو بیچتے رہتے ہیں۔ دنیا کہتی ہے پاکستان میں نان اسٹیٹ ایکٹرز دہشت گردی کرتے ہیں۔ ہم اس سے بھی انکاری ہیں۔ دنیا کہتی ہے ہمارے کھلاڑی میچ فکس کرتے ہیں تو بھی ہم انکاری ہوجاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب پاکستان کے سیاستدان دنیا بھر میں کشمیر کاز کے لیے بھیجے گئے تو ان ملکوں نے ہمارے نان اسٹیٹ ایکٹرز کی تقریریں اور بیانات کی ویڈیو چلا کر دکھا دیں کہ وہ کیا کیا دعوے کر رہے ہیں اور کن کن دہشت گرد کارروائیوں کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ ہم پھر بھی کہتے ہیں بات نہ کرو، اس سے ملک کی بدنامی ہوگی۔
شعیب اختر خود مان رہے ہیں کہ نوے کی دہائی میں پاکستانی کھلاڑیوں نے کھل کر کمائی کی، وطن کو بیچا۔ اب وہی شعیب اختر کہتے ہیں اگر آفریدی اور جاوید میانداد نے ایک دوسرے کو ننگا کرنا شروع کیا ہے تو وہ فوراً صلح کرلیں۔ کیا ملک میں کوئی ادارہ نہیں بچا جو ان دونوں کھلاڑیوں، آفریدی اور جاوید میانداد کو چارج شیٹ کرکے ان کی انکوائری کرتا؟ ان کے بیانات ریکارڈ کرتا؟ کیا یہ ملک صرف ان دو کھلاڑیوںکا ہے کہ اس ملک کی عزت اور بے عزتی سے صرف انہیں غرض ہونی چاہیے، ہمیں کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے کہ کس نے اس ملک کو کتنے روپوںکے عوض بیچا؟
یہ ہے وہ ہمارا رویہ جس کی وجہ سے آج پاکستان کو دنیا بھر میںاچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ہم ہر بڑے آدمی اور کھلاڑی کے کرتوتوں پر یہ کہہ کر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سے ملک بدنام ہوگا۔ جو ملک کو بدنام کرتے ہیں انہیں سزا دینے یا انہیں ہمیشہ کے لیے پبلک لائف اور ٹی وی پر کمنٹری کرنے سے نہیں روکتے۔ ہم جرائم پیشہ کھلاڑیوں کی شادیوں کی خبریں اپنے ناظرین کو دکھاتے ہیں۔ اپنے اخباری کالم ان کی رنگین تصویروں سے بھر دیتے ہیں۔ جرائم پیشہ لوگ ہمارے بچوں کے ہیرو بن جاتے ہیں ۔ وہ ہمیں دھوکا دیتے ہیں، ہمیں دنیا بھر میں بدنام کر کے بھی ہمارے سروں پر سوار رہتے ہیں۔
کرکٹ ورلڈ میں ہمیں گالیاں پڑ رہی ہیں۔ پاکستان کے دو سابق کپتان ایک دوسرے پر میچ فکسنگ اور مال پانی کے سنگین الزامات لگا رہے ہیں۔ ایک ہم ہیںکہ ڈھول کی تھاپ پر رقص کرکے خوش ہو رہے ہیں، چلو شکر ہے آفریدی اور میانداد نے صلح کرلی اور ہمارے ملک کی عزت بچ گئی۔
ایک نوجوان بھاگتا ہوا جا رہا تھا۔ کسی نے روک کر پوچھا خیریت؟ جواب دیا، اللہ نے بڑا کرم کیا، بچت ہوگئی۔ پوچھا کیسے؟ بولا پچھلے چوک پر میرے باپ کو جوتیاں پڑرہی ہیں، شکر ہے میں عزت بچا کر بھاگ آیا ہوں!