گیس کی لوڈ شیڈنگ
ایک اخباری اطلاع کے مطابق پنجاب میں یکم دسمبر تا فروری رات دس بجے سے صبح پانچ بجے تک گیس گھریلو صارفین کے لیے بند رہے گی۔ اس پر کچھ ایسے لوگ جو تیز رفتار ترقی نہیں چاہتے طرح طرح کی باتیں بھی بنائیں گے حالانکہ اس میں پوشیدہ حکمت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ قوم کو جفا کش بنانے کے لیے یہ از حد ضروری تھا کیونکہ قوم اگر جفا کش نہیں ہو گی تو دشمن ملک بھارت کا مقابلہ کیسے کر سکے گی جس کے لیے عوام کو ہر طرح سے تیار کیا جا رہا ہے جبکہ اس میں ایک سبق یہ بھی پوشیدہ ہے کہ عوام رات دس بجے تک اپنے جسموں کو اس حد تک گرم کر لیں کہ صبح 5بجے تک انہیں کسی گرمی کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو کہ اس سے قوم میں ایک طرح کا ڈسپلن بھی پیدا ہو گا جس کی اس میں افسوسناک کمی پائی جاتی ہے۔ اس لیے ہم اس فیصلے کی پر زور حمایت کرتے ہیں کہ ویسے بھی ہم نے اپنے کل والے اعلان کے مطابق حکومت پر خواہ مخواہ کی تنقید کا مشغلہ ترک کر دیا ہے اور ماشاء اللہ راہِ راست پر آ گئے ہیں!
رشوت العباد؟
پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال نے کہا ہے کہ گورنر عشرت العباددراصل رشوت العباد ہیں اور پچاس ہزار بھی نہیں چھوڑتے۔ انہیں گرفتار کر کے ان کے خلاف تحقیقات کی جائے جبکہ وہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے منظور نظر ہیں۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہر رشوت خور کو میاں نواز شریف سے جوڑ دیا جاتا ہے حالانکہ میاں صاحب پر اللہ کا جو فضل برسہا برس سے چلا آ رہا ہے انہیں رشوت لینے کی کیا ضرورت ہے اور اگروہ اس سلسلے میں برداشت کامظاہرہ کرتے ہیں تو صرف اس لیے کہ کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں تنخواہ میں کس کا گزارا ہوتا ہے اور رعایا کو کم از کم دو وقت کی روٹی تو سہولت کے ساتھ میسر ہونی چاہیے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ 50ہزار بھی نہیں چھوڑتے تو یہ بھی ایک طرح کی سادہ شعاری اور غریب نوازی ہے کیونکہ جہاں آئے روز اربوں روپے کی کرپشن کی جا رہی ہو وہاں پچاس ہزار روپلی کی کیا حیثیت ہے۔ اس لیے یہ بودااعتراض ہے اور صاحبِ موصوف کی طرح ہم بھی اسے مسترد کرتے ہیں۔
200ارب اور ایک ارب
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ اورنج ٹرین کے لیے 200ارب خرچ ہوں گے۔ پختونوں کے لیے ایک ارب نہیں۔ بندۂ خدا ‘ اگر اورنج ٹرین بن ہی لاہور میں رہی ہے تو اس پر خرچ بھی ہو گا۔ جب پختونخواہ میں بنے گی تو اس پر بھی اتنا ہی خرچ ہو جائے گا‘ اس پر اس قدر پریشان ہونے اورشور مچانے کی کیا ضرورت ہے اور ایسے فروعی معاملات پر قوم میں نفاق کے بیج بونا کوئی اچھی بات نہیں ہے اور جس جمہوریت کو بچانے کی آپ بار بار تلقین کرتے ہیں اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قوم کو ہر طرح سے متحد رکھنے کی کوشش کی جائے جبکہ لاہور پر اس قدر خرچ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ لاہور لاہور ہے‘ کیا آپ نے کبھی سُنا ہے کہ مثلاً پشاور پشاور ہے‘ اس لیے آدمی کو منطق کے اصولوں کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر آپ یہ مشہور کر سکیں کہ کراچی کراچی ہے تو وہاں بھی اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ آدمی خود تو کچھ نہ کرے اور دوسروں پر اعتراض کرنا شروع کر دے‘ افسوس صد افسوس۔
قتل کی سازش؟
ایک ایم پی اے نے الزام لگایا ہے کہ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ ان لوگوں کی مدد کر رہے ہیں جن سے اُن کوسخت خطرہ ہے۔ کِس قدر بچگانہ بات ہے۔ اگر اس ایم پی اے کا اُنہی افراد کے ہاتھوں خدانخواستہ کام تمام ہونا ہے تو رانا ثناء اللہ ان کی مدد نہ بھی کریں تو ایسا ہو کر رہے گا اور دراصل یہ قدرت کے کاموں میں ایک طرح کی مداخلت ہے کہ ہونی تو ہو کر ہی رہتی ہے! اسے کون روک سکتا ہے‘ ماڈل ٹائون میں جن14لوگوں کی زندگیاں ختم ہو گئی تھیں‘ اُن کی قسمت میں بھی ایسا ہی لکھا تھا اوررانا صاحب اگر کچھ بھی نہ کرتے تو انہوں نے جامِ شہادت نوش کرنا ہی تھا اور کسی کو شہادت کا رُتبہ دلوانے سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ لوگوں کا کیا ہے‘ ان کا مُنہ کون بند کر سکتا ہے‘ اس لیے ہماری ہمدردیاں سراسر رانا صاحب کے ساتھ ہیں یعنی
قدم بڑھائو رانا ثناء اللہ ہم تمہارے ساتھ ہیں
ایک جائز اور درست مقدمہ
ایک اخباری اطلاع کے مطابق بھارتی آبی جارحیت اور کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج کرنے پر کسان بورڈ اتحاد کے رہنما کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ ایسی انتہائی نامناسب حرکات پر نظر رکھے ہوئے ہے لوگ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ بھارت ہمارا ہمسایہ ہے اور ہمسایوں کے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کم از کم وزیر اعظم اور مودی صاحب کے قریبی تعلقات کا ہی کچھ لحاظ کر لیا کریں جن میں کسی بھی طرح کی رخنہ اندازی ملکی مفاد کے سخت خلاف ہے جبکہ مودی صاحب جو کچھ کر رہے سب اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور ہمارے وزیر اعظم ان کی اس مجبوری کو خوب اچھی طرح سے سمجھتے ہیں ؛چنانچہ اس موضوع پر حالیہ ایک میٹنگ میں بھی انہیں کھری کھری سنانا پڑیں جس کے بارے میں ایک اخباری نمائندے کو خواہ مخواہ پریشان کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اگر کسانوں کی حرکتیں اسی طرح کی رہیں تو وہ حکومت سے کیا امید رکھ سکتے ہیں‘ ہیں جی؟
اُمید بہار!
چونکہ خاکسار نے اب ہر طرح سے حکومت کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دی ہے اور مستقل طور پر راہِ راست پر آ گیا ہے۔اس کا مظاہرہ اب مستقل طور پر ہوتا رہے گا جبکہ ایک شاعر نے بھی خوب کہہ رکھا ہے کہ ع
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ جوابی طور پر حکومت بھی میری ضروریات کا جائزہ لے کر عملی اقدامات کرے‘ مثلاً دیگر مراعات کے علاوہ خاکسار کو حکومت اپنے میڈیا سیل میں شامل کر سکتی ہے یعنی ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ نیز حکومت سے یہ بھی گزارش ہے کہ اُسے جس جس موضوع پر خاکسار کی حمایت اور تعاون کی ضرورت ہو‘ عین وقت پر اس سے آگاہ کر دیا کرے‘ انشاء اللہ اسے مایوس نہیں کیا جائے گا‘ اور اُمید ہے کہ حکومت بھی دریا دلی سے کام لیتے ہوئے خاکسار کو مایوس نہیں کرے گی۔ دے جاسخیا راہِ خدا
آج کا مقطع
جو ہر طرح سے کُفر کی ٹکّر کا ہو‘ ظفرؔ
ایسے ہی ڈیل ڈول کا ایماں کہیں سے لائو