14 اگست 1947ء سے اب تک ایک بات ایسی ہوئی ہے جس کے بارے میں کسی کے ذہن میں معمولی سا بھی شبہ نہیں۔ یہ کہ پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کو دل کی گہرائی سے قبول نہیں کیا۔ بھارت نے ہمیں اس لیے قبول نہیں کیا کہ اُس کے وجود کا ایک حصہ کاٹ کر پاکستان کی تخلیق ممکن بنائی گئی تھی۔ اور ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ یعنی بھارت اس سے قبل کبھی تقسیم کے مرحلے سے نہیں گزرا تھا۔ دوسری طرف پاکستان اب تک بھارت کو اس لیے قبول نہیں کر پایا ہے کہ نئی دہلی ہمیشہ ''اکھنڈ بھارت‘‘ کا راگ الاپتا آیا ہے۔
بھارت کا مخمصہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایک طرف وہ پاکستان کو پِدّی قرار دے کر ''کیا پِدّی اور کیا پِدّی کا شوربہ‘‘ کا ڈھول پیٹتا آیا ہے اور دوسری طرف اِسی معمولی سے، پِدّی سے پاکستان کے ''خطرناک‘‘ اور خاصے ''توسیع پسندانہ‘‘ عزائم کا رونا بھی روتا آیا ہے! بھارتی قیادت سوچے سمجھے بغیر یہ ڈھنڈورا پیٹتی رہی ہے کہ پاکستان عسکری قوت میں اضافہ کرکے بھارت پر قبضہ کرنا اور لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانا چاہتا ہے! یہ پروپیگنڈا حقیقت میں تو خیر کیا چلنا ہے، بالی وڈ کی کسی فلم میں بھی پیش کیا جائے تو لوگ ہنس ہنس کر پاگل ہی ہوجائیں گے۔
بھارت کی طاقت کس سے پوشیدہ ہے؟ رقبے، آبادی، معیشتی حجم، صنعتی بنیاد، تعلیم و تربیت، جدید علوم و فنون کے حوالے سے تحقیق ... ہر اعتبار سے بھارت برتر ہے۔ پاکستان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ بھارت سے مقابلہ کرنے کا سوچ بھی سکے۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ ہر معاملے میں دب کر رہ جائے، بھارت کا ''پوڈل‘‘ بنے رہنے پر اکتفا کرلے جیسا کہ بنگلہ دیش کا معاملہ ہے۔
بھارت کے لیے اصل پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے آپ کو کمزور سمجھ کر کسی کونے میں دُبکا بیٹھ رہنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ کسی بھی معاملے میں جہاں تک جاسکتا ہے، جاتا ہے۔ بھارتی قیادت کو یہی بات پریشان کرتی ہے کہ پاکستان دو طرفہ تعلقات کی فلم میں سائڈ ہیرو کا رول قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق 1950 کے عشرے میں امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ سرد بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے خاصی گرما گرم ثابت ہوئی۔ دنیا دو بڑے گروپوں میں بٹ گئی۔ بھارت نے سوویت یونین کا دامن تھام لیا۔ پاکستان نے اپنا سب کچھ امریکا اور یورپ کے پلڑے میں ڈال دیا۔ بھارت کو سوویت یونین نے وفاداری کا صلہ دیا اور پاکستان مغربی دنیا سے مال بٹورتا رہا۔ جو وقت کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کا تھا وہ دونوں ہمسایوں نے حاشیہ برداری میں گزار دیا۔ دنیا میں حقیقی تبدیلیاں 1950 سے 1990 تک یعنی چار عشروں کے دوران ہوئیں۔ 40 سال کی یہ مدت بہت اہم تھی۔ اس دوران دونوں ممالک کو اپنے لیے، قومی غیرت پر مبنی، واضح راہ کا تعین کرنا تھا۔ اپنی بڑی حیثیت کا فائدہ اٹھاکر بھارت نے تو خیر کچھ نہ کچھ پالیا مگر پاکستان کے لیے بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ کچھ کرنا ممکن نہ ہو پایا۔
سرد جنگ کے دوران بھارت کو سابق سوویت یونین سے اور پاکستان کو ''آزاد دنیا‘‘ سے جو کچھ ملتا رہا وہ کہنے کو اور بہت کچھ ہو ہو تو ہو مگر در حقیقت بھیک کے ٹکڑوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ دونوں ہی ممالک نے اپنی قومی غیرت کو بالائے طاق رکھ کر وہ سب کچھ کیا جس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ قدرتی وسائل اور افرادی قوت کی کمی پاکستان کے لیے تھی نہ بھارت کے لیے مگر پھر بھی دونوں نے بڑی طاقتوں کی چاپلوسی کو شعار بنایا۔ اور دوسروں کے کہے پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش بھی کرتے رہے۔
کیا یہی ہمارا مقدور تھا؟ الگ الگ بلاک میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو پروان چڑھاتے رہنا ہی ہمارے لیے موزوں ترین طریق تھا؟ ہر وقت آمادہ بہ جنگ رہنا یعنی جنگی جنون کے سانپ کو دودھ پلاتے رہنا ہی ہم دونوں کے سامنے واحد آپشن تھا؟
بھارت کی اکثریت یعنی ہندوؤں نے پاکستان کے خلاف نفرت پالتے پالتے بھارتی مسلمانوں سے بھی نفرت کی عادت اپنالی! پاکستان کے بارے میں شدید نفرت پر مبنی رویّہ اپنانے سے بھارت کے مسلمان بھی شدید خوف اور الجھن میں مبتلا رہے ہیں۔ پاکستان جیسا تیسا ہی سہی، اب بھی بھارتی مسلمانوں کی نفسی ساخت کا بڑا سہارا ہے!
بھارتی سیاست دان پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر اپنا ووٹ بینک مضبوط سے مضبوط تر کرتے آئے ہیں۔ میڈیا نے سیاسی قیادت کے ''عقابوں‘‘ کے ساتھ مل کر ایسی فضاء تیار کی ہے کہ اب پاکستان کے خلاف جائے بغیر بات نہیں بنتی۔ میڈیا والے ہر معاملے کو غیر ضروری اور غیر منطقی انداز سے اچھال کر، تھوڑی سی چنگاریوں کو بہت سی ہوا دے کر معاملات کو یوں بگاڑتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے رائی کا پربت کھڑا ہو جاتا ہے۔
انتہا پسند ہندو تنظیموں اور جماعتوں کا گروپ ''سنگھ پریوار‘‘ پاکستان کو گالی دے کر ہی روزی روٹی کماتا رہا ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، گو رکشا سمیتی، شیو سینا، نو نرمان سینا اور سب سے بڑھ کر بھارتیہ جنتا پارٹی نے پاکستان کے خلاف ہندوؤں کے ذہنوں میں اتنا زہر بھرا ہے کہ اب اُس زہر کو نکالنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ یہ بات بھی کم حیرت انگیز نہیں کہ پاک بھارت تعلقات اگر بہتر ہوئے ہیں تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے دورِ حکومت میں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی وزیر اعظم سے کچھ سیکھنے کو تیار نہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ ان کے خلاف جانے پر کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں۔
ایک بار پھر بلاک بن رہا ہے۔ چین، روس اور ترکی مل کر اقتصادی استحکام کی نئی راہ پر گامزن ہونے کو تیار ہیں۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے راہداری منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ ہم چین کے لیے تو ناگزیر تھے، اب روس بھی ہماری ضرورت محسوس کر رہا ہے۔ بھارتی قیادت کے لیے سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہی ہے۔ اور اب تو ایران بھی، جو بھارت کا خاصا قابل اعتماد اتحادی و ہم نوا رہا ہے، راہداری منصوبے کا حصہ بننے کی راہ پر گامزن دکھائی دے رہا ہے۔ یہ سب کچھ بھارتی قیادت کی راتوں کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہے۔
پاکستان کو عالمی برادری میں الگ تھلگ کرنے کے خواب دیکھنے والے نریندر مودی اب بھارت کو الگ تھلگ ہوتا دیکھ کر پریشان ہیں۔ پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت اور مدد کا الزام عائد کرکے مودی چاہتے تھے کہ بڑی طاقتیں اُن کی ہم نوائی کریں۔ ایسا نہیں ہوا۔ چین اور روس نے بھارت کی ہاں میں ہاں ملانے سے صاف انکار کردیا ہے۔ راہداری منصوبہ پاکستان کے استحکام کا معاملہ ہے۔ یہ بات بھارتی قیادت سے کیونکر برداشت یا ہضم ہوسکتی ہے۔ یعنی پاکستان کے خلاف جانا ہے۔
امریکا اور یورپ بھی راہداری منصوبے کو اپنے خلاف ''اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ کے طور دیکھ رہے ہیں۔ دونوں کو اندازہ ہے کہ یہ منصوبہ بخیر و خوبی انجام کو پہنچا تو وسط ایشیا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا مل کر ایک نیا بلاک تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ایسی صورت میں بحر ہند کا خطہ طاقت کا حقیقی مرکز بن کر ابھرے گا اور بحر اوقیانس کی دال کا گلنا بند ہوجائے گا۔ وہ بھارت کو اپنے proxy کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ ایسے میں بھارتی قیادت کے لیے اچھا اور محفوظ راستہ یہ ہے کہ راہداری منصوبے کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے سے گریز کرے اور پاکستان سے معاملات بہتر بنائے۔ پانی بند کرنے جیسے اقدامات کی دھمکی دے کر علاقائی استحکام کی راہ ہموار نہیں کی جاسکتی۔ نئی دہلی کے لیے ہندو انتہا پسندوں کو لگام دینا بھی لازم ہے۔ ہر معاملے میں پاکستان کے خلاف جانا اور جنگی جنون کو ہوا دیتے رہنا کوئی ایسا طریق نہیں جسے خوش دِلی سے اپنایا جائے۔
پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے اچھا آپشن یہی ہے کہ ایک دوسرے کو خطرہ سمجھنا چھوڑ دیں۔ بڑی طاقتوں کے ایک اشارے پر ''حاضر جناب‘‘ کہتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف اپنی خدمات پیش کرنا اور دوسروں کی لڑائی لڑتے ہوئے ایک دوسرے کا دامن تار تار کرنا کسی بھی اعتبار سے قابل قبول روش نہیں۔ دونوں کو سمجھنا ہوگا کہ اِس طلسمات میں جو بھی گیا، پلٹ کر نہیں آیا۔