تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     20-10-2016

چار کروڑ فاقہ کشوں سے مذاق

مسلم لیگ نون کے جماعتی انتخابات کو رسمی کارروائی سمجھ کر نظرانداز کیا جائے۔ اسے 1977ء کے عام انتخابات سے تشبیہ دینا مناسب نہیں جب بھٹو صاحب اپنے تمام وزرائے اعلیٰ سمیت بلامقابلہ منتخب ہوئے۔پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ عمران خان نے جماعتی انتخابات کا کلچر بدلنے کی کوشش کی۔ مخالفین‘ میڈیا اور پارٹی میں شامل روائتی سیاستدانوں نے وہ درگت بنائی کہ الامان و الحفیظ۔ رہی سہی کسر جسٹس (ر) وجیہ الدین نے پوری کر دی جنہیں تحریک انصاف سے زیادہ اپنی انا اور غیر سیاسی سوچ پر ناز تھا۔ مسلم لیگ نون کے انتخابات سے جن لطائف نے جنم لیا اُن میں سے ایک ''مسلم لیگ نون کے صدارتی انتخاب میں اُمیدواروں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا جس میں مریم نواز کے والد‘ حسین نواز کے والد‘ حسن نواز کے والد‘ میاں شہباز شریف کے بڑے بھائی‘ کیپٹن (ر) صفدر کے سُسر اور حمزہ شہباز کے تایا کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔ ایک اُمیدوار پرنس عبدالقادر بلوچ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں مریم نواز کے والد الیکشن جیت کر بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے‘‘۔
پاکستان میں اگر سیاسی جماعتیں مضبوط بنیادوں پر قائم‘ جمہوری کلچر پر استوار اور شخصی و خاندانی تسلط سے آزاد ہوتیں تو ملک میں چار مارشل لاء لگتے نہ کسی دھرنے‘ مارچ اور احتجاجی تحریک سے جمہوریت لرزہ براندام نظر آتی۔ قیوم نظامی صاحب نے ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹو کے سامنے پیپلز پارٹی کو یونین کونسل اور وارڈ کی سطح پر منظم کرنے اور جمہوری انداز میں منتخب عہدیداروں کے ذریعے چلانے کی تجویز پیش کی۔ محترمہ نے مُسکرا کر یہ تجویز مسترد کر دی کہ پھر پارٹی پر میری گرفت برقرار نہیں رہے گی۔ پارٹی پر گرفت مضبوط کرنے کی خاطر انہوں نے بیمار ماں کو چیئرپرسن کے نمائشی منصب سے الگ کیا اور یہی کارنامہ میاں نوازشریف نے محمد خان جونیجو کی قبر کی مٹی خشک ہونے سے قبل انجام دیا۔ ان دنوں ترکی میں ناکام بغاوت کا تذکرہ ہے اور میاں نوازشریف کو طیب اردوان کی طرح مرد آہن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے مگر کسی کو یہ علم نہیں کہ طیب اردوان گراس روٹ لیول پر منظم اور مضبوط پارٹی کے سربراہ ہیں اور ان کا سیاسی اثاثہ بلند بانگ دعوے‘ بیرون ملک اثاثے اور پاناما لیکس کے علاوہ ڈان لیکس نہیں‘ عوام کی خدمت اور قومی ترقی و خوشحالی ہے۔
قصور صرف حکمرانوں کا نہیں‘ جب عوام کا لانعام ہی کیا ملک کے دانشور‘ تجزیہ نگار اور قلم کار بھی ؎
لائی حیات‘ قضا لے چلی‘ چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے
کی ڈگر پر گامزن ہوں۔ خاندانی اور موروثی سیاست کے حق میں دلائل تراشتے‘ حکمرانوں کی نعرہ بازی پر داد وتحسین کے ڈونگرے برساتے‘ چند افراد اور خاندانوں کی ممتوعہ پارٹیوں کو سیاسی و جمہوری پارٹیاں ثابت کرنے اور ڈھونگ انتخابات پر خواہ ملکی سطح پر ہوں یا جماعتی سطح پر سردھنتے ہیں تو حکمرانوں‘ سیاستدانوں اور اُن کے چیلوں چانٹوں کو بھلا کیا پڑی ہے کہ وہ جمہوریت‘ جمہوری اقدار اور جمہوری پارٹیوں کے جھنجھٹ میں پڑیں۔ مسلم لیگ نون کے انتخابات سے زیادہ قابل ذکر و تعجب انگیز وزیراعظم نوازشریف کی تقریر تھی جس میں انہوں نے زمینی حقائق سے بے خبر حکمرانوں کی طرح وہ دعوے کئے جن پر اُن کے اپنے کارکنوں میں سے بھی صرف وہی یقین کر سکتے ہیں جو اپنی جیب سے بجلی کا بل دیتے ہیں نہ بازار سے سودا سلف خریدتے اور نہ کبھی مہنگی گاڑی سے اُتر کر خلق خدا کی حالت معلوم کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل میں اپنے بیٹے شاہ حسن کو راجن پور لے کر گیا۔ آبائی قصبہ شکارپور میں جو قیام پاکستان سے قبل بھی ایک خوشحالی قصبہ تھا وہ گلیوں‘ بازاروں اور لوگوں کی حالت دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ ڈیرہ غازی خان شہر میں گندگی اور تعفن سے اس کی طبیعت خراب ہوئی اور مقامی لوگوں کی زبانی مصائب و آلام کی کہانیاں سُن کر وہ آزردہ ہوا۔ اسلام آباد اور لاہور سے نکل کر دور دراز تو کیا ان بڑے شہروں کے قریبی قصبوں اور دیہاتوں کی حالت زار دیکھ کر ہر دردمند اور حساس آدمی دکھی ہوتا ہے اور حکمرانوں کے دعوے سن کر مشتعل کہ آخر یہ اپنے سوا کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں؟
عالمی ادارے نے پاکستان میں چار کروڑ لوگوں کے بھوکا سونے کی خبر دی‘ جہاں میاں نوازشریف کے بقول گزشتہ تین سال میں دودھ ‘ شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل ایک سو پچاس ڈالر سے صرف تیس ڈالر فی بیرل کی سطح پر آ گیا۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق قومی خزانے کو سالانہ پانچ ارب ڈالر کی بچت ہوئی مگر بجلی کے بلوں اور ٹرینوں‘ جہازوں‘ بسوں‘ ویگنوں کے کرایوں میں کمی کی تدبیر ہوئی نہ تجارتی خسارے پر قابو پایا جا سکا اور نہ روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوئے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی اور روپے کی قدر میں اضافے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر فوجی آمر پرویز مشرف کے دور سے موازنہ کیا جائے تو ڈھول کا پول کھل جاتا ہے۔ 1999ء میں نوازشریف حکومت ختم ہوئی تو زرمبادلہ کے ذخائر چھ سو ملین ڈالر تھے اور روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 65 روپے۔ اسحاق ڈار نے صحافیوں کے سوالات سے تنگ آ کر کہا تھا کہ دعا کریں پاکستان میں تیل نکل آئے اور ہماری کرنسی ڈالر میں تبدیل ہو جائے‘ تبھی معیشت کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ میں نے اخبار میں کالم لکھا جس کا عنوان تھا ''اسحاق ڈالر‘‘ ۔قارئین محظوظ اور حکمران برہم ہوئے۔ پرویز مشرف 65 روپے کے ڈالر کو 60 روپے پر لایا اور 2008ء تک برقرار رکھا۔ تیل کے نرخ چھپن روپے فی لٹر رہے اور بیرونی قرضوں کے حجم میں تین ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔ پرویز مشرف کی الوداعی تقریر کے دن زرمبادلہ کے ذخائر سترہ ارب ڈالر تھے‘پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ بیرونی قرضے لے کر زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر تک بڑھانے کے بعد بڑھکیں لگانے والے حکمرانوں سے کس کی مجال کہ پوچھ سکے حضور! یہ تو آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کا قرضہ ہوا‘ آپ نے ساڑھے تین سال میں اس قوم کو کما کر کیا دیا؟ حالت یہ ہے کہ نیوکلیئر ریاست کی ساورن گارنٹی کوئی نہیں مانتا اور موٹروے کا ایک حصہ گروی رکھ کر ایک ارب ڈالر کا مزید قرضہ لیا جاتا ہے‘ برآمدات میں چار ارب ڈالر سالانہ کمی ہوئی اور مقامی کاشتکار کے رزق پر لات مار کر گوشت‘ آلو‘ پیاز بھارت سے منگوائے گئے۔ قوم کو مژدہ سنایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ نون نے ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ بلاشبہ چینی کی پیداوار بڑھی مگر اس کا سبب حکمران خاندانوں کی اس کاروبار میں دلچسپی بلکہ اجارہ داری ہے‘ ورنہ کپاس‘ چاول اور گندم کا تو بیڑا غرق ہو گیا۔ چار کروڑ فاقہ کشوں سے یہ بھونڈا مذاق کرنے والے حکمران جب اپنے سیاسی مخالفین کا مذاق اڑاتے اور فوج و آئی ایس آئی کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے ہیں تو آدمی منہ میں انگلیاں داب لیتا ہے کہ آخر یہ کس مٹی کے بنے ہیں اور ماضی سے ان لوگوں نے کیا سبق سیکھا ہے۔ عمران خان کی طرف سے اسلام آباد کی بندش کے اعلان یا سرل المیڈا کی سٹوری کے مضمرات سے میاں نوازشریف کس قدر خائف ہیں یہ اندازہ صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد اُن کی تقریر سے لگایا جا سکتا ہے‘جو درمدح خود اور درمذمت ِعمران تو تھی مگر موقع کی مناسبت‘ عوام کی توقعات اور حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ تھی۔ لفظ زمینی حقیقتوں سے جڑے‘ نہ زباں دل کی رفیق!
جمہوریت کی گردان اور ایران و توران کی کہانیوں سے غریب کی بھوک مٹتی ہے نہ بیروزگار کو ملازمت ملتی ہے۔ مگر اشرافیہ کی بلا سے ؎
خشک مغز و خشک تار و خشک پوست
از کجا می آید ایں آواز دوست

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved