تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     20-10-2016

’’پہلے احتساب‘ پھر انتخاب‘‘

''12اکتوبر1999ء‘‘کا خیر مقدم کرنے والوں میں ہمارے قاضی صاحب بھی تھے لیکن وہہ جو عربی کا محاورہ ہے‘ کُلّ شیٔ یَر جع ُ اِلیٰ اَصلہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ قاضی صاحب بھی اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے تھے۔ ''مشرف مارشل لاء‘‘ کو زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ قاضی صاحب نے فرمایا‘ سیاست‘ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو رسوا کر کے ملک کی خدمت نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ ایک عظیم سیاسی حقیقت کا اظہار بھی ضروری سمجھا‘ ''پاکستان کے لیے سیاسی عمل اور سیاسی جماعتیں اسی طرح لازم ہیں‘ جس طرح زندگی کے لیے آکسیجن‘‘۔
جماعت اسلامی کے جلیل القدر بانی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مغرب کی مادر پدر آزاد سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ناقد تھے لیکن قرار دادِ مقاصد کی منظوری کے بعد جس میں خدائے بزرگ و برتر کو مقتدرِ اعلیٰ تسلیم کرنے کے بعد‘ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ مملکتِ خدا داد کا نظام قرآن و سنت کی رہنمائی میں عوام کے منتخب نمائندے ہی چلائیں گے( جس میں کسی غیر جمہوری طالع آزما کی کوئی گنجائش نہ ہو گی) مولانا محترم پاکستان میں جمہوری اقدار کے تحفظ اور آئین کی حکمرانی کے علمبرداروں میں بہت نمایاں تھے۔ آمریت کے ادوار میں وہ بحالیٔ جمہوریت کے ہر اول دستے میں شامل رہے۔ انہوں نے جمہوریت کے لیے جدوجہد کو محض ایک سیاسی شغل کے طور پر نہیں بلکہ ایک لازمی اور مذہبی فریضے کی طرح لیا۔ مولانا کے نزدیک اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کے لیے انہیں اپنے سخت ترین نظریاتی مخالفین کے ساتھ اشتراکِ عمل سے بھی گریز نہ تھا۔ قرار دادِ مقاصد میں یہ طے کر دینے کے بعد کہ مملکتِ خداداد کا نظام عوام کے منتخب نمائندے چلائیں گے‘ جمہوریت کے سوا کسی اور نظام کی گنجائش ہی نہ رہی تھی۔ چنانچہ جمہوری نظام کو اپنا''سیاسی ایمان‘‘ بنا لینا قرار دادِ مقاصد کا عین تقاضا تھا جس سے انحراف پاکستان کے بنیادی مقاصد سے انحراف قرار پائے گا۔
فیلڈ مارشل ایوب خاں نے اپنے مارشل لاء کی بساط لپیٹتے ہوئے 1962ء کے دستور میں جو نیا فکر و فلسفہ دیا‘ اس کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ پاکستان کے عوام ابھی اس قابل نہیں‘ اتنے باشعور اور تعلیم یافتہ نہیں کہ سیاسی و قومی امور میں ''خیرو شر‘‘کی تمیزکر سکیں۔ اس کے لیے انہوں نے بنیادی جمہوریت کا فلسفہ دیا جس کی رُو سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام‘ چالیس‘ چالیس ہزارنمائندے(بی ڈی ممبرز) منتخب کرتے۔ ظاہر ہے کروڑوں ووٹرزکی بجائے صرف اسّی ہزار بی ڈی ممبرز کے ذریعے من پسند نتائج کا حصول کہیں آسان تھا چنانچہ یہ ''تجربہ‘‘ صدارتی انتخاب میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابل فیلڈ مارشل ایوب خاں کی ''کامیابی‘‘ اورقومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں''مطلوبہ نتائج‘‘ کے حصول میں بہت کارآمد رہا۔
مولانا محترم نے اپنے دلائل کے زورسے ایوب خانی فکر وفلسفہ کے تارو پود بکھیر کر رکھ دیے وہ اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے کہ جن عوام کے ووٹوں سے پاکستان معرض وجود میں آیا‘ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا فکر وشعور فروغ پانے کے بجائے‘ روبہ زوال ہو گیا اور ایسا ریورس گیئر لگا کہ وہ اپنے حکمرانوں کے انتخاب میں اچھے اوربرے کی تمیز کے قابل بھی نہیں رہے۔
حکومت کی باگ ڈور عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہو‘ عوام جن کا احتساب کر سکتے ہوں اور جو اپنی کارکردگی کے حوالے سے عوام کو جواب دہ ہوں‘ مولانا کے نزدیک یہ انسانی عزو شرف کا لازمی تقاضا تھا۔ وہ ہر اس نظام کو جو حکمرانوں کو عوام کے سامنے جواب دہ نہ ٹھہراتا ہو‘ عوام کی توہین کے مترادف قرار دیتے۔
فوجی حکومت کے لیے تو انہوں نے عام فہم انداز میں بہت پتے کی بات کہہ دی تھی،''چوکیداروں کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ مالکان کے تفویض کردہ فرائض و اختیارات سے تجاوز کر کے‘ گھر پر قبضہ جما لیں اور کہیں کہ اب اس کا نظام اہلِ خانہ کی مرضی سے نہیں‘ ان کی منشاء مرضی کے مطابق چلے گا‘‘ ۔کیا جمہوریت محض ایک سیاسی فیشن ہے یا پاکستان کے استحکام و یک جہتی کا لازمی نسخہ‘ اس پر گفتگو کسی آئندہ نشست میں... آج اپنی تاریخ کے کچھ بکھرے ہوئے واقعات کا تذکرہ۔
بھٹو کو پھانسی دی جا چکی تھی اور پیپلز پارٹی نیم جان ہو چکی تھی۔ پی این اے کی صورت میں ابھرنے والی بھٹو مخالف سیاسی قوت کا شیرازہ بھی بکھر چکا تھا۔ ان میں سے بعض مارشل لاء کے زیر سایہ''قومی حکومت‘‘ میں وزارتیں قبول کر کے گندے ہو چکے تھے اور بڑے بے آبرو ہو کر کوچۂ اقتدارسے نکل آئے تھے۔ مارشل لاء نے خود کو مستحکم کر لیا تھا۔ ایک روز جنرل ضیاء الحق کے کان میں بھنک پڑی کہ ان کے دستِ راست جنرل فیض علی چشتی کی نیت خراب ہو رہی ہے۔5جولائی1977ء کی شب جب مارشل لاء لگا‘ جنرل چشتی راولپنڈی کے کور کمانڈر تھے(سول حکومت کا تختہ الٹنے میں پنڈی کور اور اس کے بریگیڈ ٹرپل ون(111) کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے متعلق ایک تاثر یہ بھی تھا کہ اس کے پس پردہ اصل طاقت جنرل چشتی ہے۔ پھانسی سے قبل جیل میں بھٹو پر تشدد کے حوالے سے بھی بعض قصے کہانیاں پھیل رہے تھے اور جنرل چشتی کا امیج ایک ''مردِ آہن‘‘ کی حیثیت سے ابھر رہا تھا۔ اس صورت میں اس خواہش کا ابھرنا غیر فطری نہ تھا کہ وہ نمبر 2پوزیشن پر قناعت کئے رکھنے کی بجائے کیوں نہ نمبر 1ہو جائیں۔ان کی ریٹائرمنٹ کا وقت بھی قریب آ رہا تھا۔ اپنے ''دستِ راست‘‘ کے عزائم کی خبر پا کر جنرل ضیاء الحق کا ایک اقدام تو یہ ہو سکتا تھا کہ وہ ان کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیتے۔ لیکن دُور تک دیکھنے اور دیر تک سوچنے والے جنرل نے اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیاجس سے یہ تاثر عام ہو سکتا تھا کہ فوجی سربراہ کمزور ہو رہا ہے اور اس کے ''اعضاء و جوارح‘‘ بھی ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں۔ اس کی اپنی ''Constiuency‘‘،اس کے اپنے ''انسٹی ٹیوشن‘‘ میں بھی اس کے خلاف بے چینی پھیل رہی ہے۔ مزید برآں اس سے جنرل چشتی کو نیا روپ بھرنے ‘نیا روپ دھارنے کا موقع مل جاتا۔ وہ اب تک مارشل لاء کی ہر کارروائی میں شریک رہے تھے۔ جبری ریٹائرمنٹ کی صورت میں وہ یہ کہہ کراینٹی مارشل لاء ہیرو بننے کی کوشش کرتے کہ وہ ضیاء الحق کی طُولِ اقتدار کی ہوس میں معاون بننے کو تیار نہ تھے۔ وہ یہ دعویٰ کر سکتے تھے کہ انہیں الیکشن کے التوا سے بھی شدید اختلاف تھا جس کی قیمت جبری ریٹائرمنٹ کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔جنرل ضیاء الحق نے معاملے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا اورفیصلے پر پہنچ گئے، چشتی اپنی مدت پوری کریں گے البتہ اس دوران‘ ان کی غیر محسوس نگرانی سمیت کچھ اقدامات کر لیے گئے۔ اور ایک سہ پہر جب چشتی لاہور میں ہاکی میچ دیکھ رہے تھے‘ ریڈیو پر خبر نشر ہو رہی تھی‘ مدتِ ملازمت مکمل ہونے پر ان کی ریٹائرمنٹ کی خبر۔ اور ساتھ ہی جنرل ضیاء الحق کی طرف سے اپنے رفیقِ کار کے لیے شاندار خراج تحسین‘ جس نے ہر موقع پر اپنے چیف سے وفاداری کا مظاہرہ کیا تھا۔
اپنے پہلے دورِ اقتدار کے ابتدائی ایام ہی میں وزیر اعظم نواز شریف کی اپنے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سے ٹھن گئی جو پاکستان کے قومی مفادات کا احساس کئے بغیر‘ خلیج کی جنگ میں صدام حسین کی حمایت میں نکل کھڑے ہوئے تھے۔ آرمی چیف من مانی پر تلے رہے تو وزیر اعظم ایوانِ صدر جا پہنچے(تب سروس چیفس کے تقرر کا اختیار صدر کے پاس تھا) اور غلام اسحاق خان سے صاف صاف کہا‘ ''میں یہاں نوکری کرنے نہیں آیا۔ پاکستان کے عوام نے مجھے حکومت کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ آرمی چیف کو منتخب حکومت کی پالیسی پر عمل کرنا ہو گا۔ ورنہ میں پرائم منسٹر ہائوس سے واپس لاہور چلا جائوں گا۔‘‘
صدر نے وزیر اعظم سے آرمی چیف کو سمجھانے کا وعدہ کیا‘ ادھر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجی کارروائی نے صدام کو بھی بہت کچھ سمجھا دیا تھا چنانچہ جنرل بیگ بھی ٹھنڈے پڑ گئے۔ جنرل نے سر تو نیچے کر لیا لیکن دل میں گرہ باندھ لی تھی۔ ادھر حکومت مخالف عناصر''سول اورآرمی کے ایک پیج پر نہ ہونے‘‘ کی اس کیفیت سے فائدہ اٹھانے کا سوچنے لگے۔ جنرل کی ریٹائرمنٹ قریب آ رہی تھی اور یہ افواہیں عام تھیں کہ وہ اس سے پہلے کارروائی کر گزریں گے۔ ابھی اڑھائی تین ماہ باقی تھے جب حکومت نے ان کے جانشین کے طور پر جنرل آصف نواز کی نامزدگی کا اعلان کر دیا۔ فوج کے سینئر کمانڈر‘ جانے والے کی بجائے آنے والے سے ربط و ضبط بڑھانے لگے۔ یہ عرصہ خیریت سے گزر گیا اور جنرل بیگ16اگست 1991ء کو تمام فوجی رسوم و روایات کے ساتھ رخصت ہوگئے۔
بات جنرل ضیاء الحق سے شروع ہوئی تھی جو 90روز کے لیے آئے تھے‘ پھر ایک دن انہوں نے فرمایا‘ ''ہم جسے اپنڈکس سمجھے تھے‘ وہ کینسر نکلا‘‘ اوراب کرپشن کے اس کینسر کے علاج کو وہ اپنی ذمہ داری قرار دے رہے تھے۔ اس کے لیے ''پہلے احتساب‘ پھر انتخاب‘ کا تصور عام ہوا۔ بڑے بڑے جمہوریت پسندوں کی زبانیں بھی یہی راگ الاپنے لگیں اور انتخابات ملتوی ہو گئے۔ اچھا خاصا وقت گزر چکا تھا جب جنرل صاحب سے لاہور ایئر پورٹ پر پوچھا گیا،''سر!وہ احتساب کا کیا ہوا‘‘؟جنرل مسکرائے‘ اپنا دایاں ہاتھ سینے پر رکھا اور کہا‘ ''ہم اس میں مخلص اور نیک نیت تھے‘ ہم نے آغاز کر دیا تھا لیکن پھر کوئی ماما نکل آیا‘ کوئی بھانجا‘ کوئی چاچا اورکوئی بھتیجا نکل آیا۔ اس صورت میں کون کس کا احتساب کرتا‘‘؟
اور مشرف دور میں احتساب کے نام پر جو ڈرامہ ہوا‘ اس کی تفصیل جنرل شاہد عزیز کی کتاب یہ ''خاموشی کب تک‘‘ میں موجود ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved