تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     20-10-2016

ٹوٹے

الیکشن میں زبردست کامیابی
قوم کو مبارک ہو کہ اس کے محبوب وزیراعظم الیکشن میں بے مثال کامیابی حاصل کر کے پانچ سال کے لیے اپنی ہر دلعزیز جماعت کے صدر منتخب ہو گئے ہیں جس میں الیکشن کے تمام تقاضے پورے کئے گئے جبکہ ان کے مقابلے میں پرنس عبدالقادر بلوچ نے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے لیکن وہ اس وجہ سے مسترد کر دئیے گئے کہ ان کا نام ووٹرز لسٹ میں شامل نہیں تھا ورنہ یہ بہت زوردار مقابلہ ہونا تھا اور اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں بادشاہت نہیں بلکہ جمہوریت ہے۔ اب حکومت اس امر کی تحقیقات کر رہی ہے کہ ان کا نام ووٹرز لسٹ میں سے کیوں کاٹ دیا گیا۔ چنانچہ ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ مخالفین کی طرف سے جو یہ کہا گیا ہے کہ تقریر کرتے وقت وزیراعظم کے چہرے پر خوف نمایا ںتھا اور یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ وہ خوفِ خدا تھا جو وزیراعظم میں بدرجہ اُتم پایا جاتا ہے۔ جمہوریت کی اس شاندار فتح کو ایک طویل عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ 
اسلام آباد میں غیر موجود
ہمارے دوست اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ جس روز اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، اس دن عمران خان اسلام آباد میں موجود نہیں ہوں گے۔ جولاہے کی بیٹی نے پچھلی رات اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ جانا تھا۔ رات کو سوتے وقت اس نے اعلان کیا کہ کل ہم میں سے ایک آدمی یہاں نہیں ہو گا۔ سب یہ سن کر سوچ میں پڑ گئے کہ آخر وہ کون ہو گا جو کل ان کے ساتھ موجود نہیں ہو گا۔ صبح جب اس کے باپ کو پتا چلا تو اس نے کہا کہ کم بخت چلی تو گئی ہے لیکن تھی تو اولیاء۔ رات ہی کہہ رہی تھی کہ صبح کو آپ میں سے ایک آدمی نہیں ہو گا۔ ہم اپنی محبوب جماعت نواز لیگ کی اولیائی پر مکمل یقین رکھتے ہیں، اب دیکھیں کہ اس دن عمران خان اسلام آباد کی بجائے کہاں پائے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ گھر میں سوتے ہی رہیں اور سارا دن یوں ہی گزر جائے۔ البتہ اگر احتیاطی حفاظت میں لے لیا جاتا ہے تو زیادہ بہتر ہو گا کیونکہ جلسے کے بھیڑ بھڑکے میں ان کے کچلے جانے کا بھی زبردست اندیشہ موجود ہے، وغیرہ وغیرہ۔
کرپشن کے خلاف 
عمران خان کہتے ہیں کہ وہ کرپشن کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنا بھی اسی مقصد کے لیے ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں جو تمام کی تمام عمران خان کے ساتھ شامل ہونے سے انکاری ہیں تو وہ کرپشن کو کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں سمجھتیں۔ اب جمہوری قدروں کا تقاضا تو یہ ہے کہ اکثریت کی رائے کا احترام کیا جائے اور عمران خان اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے سے باز آ جائیں اور تیز رفتار ترقی کے اس سفر میں کوئی رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں اور ہماری مقبولِ عوام حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دن رات ایک کرنے میں مزاحم نہ ہوں ورنہ تمام سیاسی برادری میں وہ نکو بن کر رہ جائیں گے اور یہ جو وزیراعظم نے انہیں ڈگڈگی بجانے والا کہہ دیا ہے تو اسی پر قدرے قومی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈگڈگی بجانا بند کر دیں کیونکہ اس پر کوئی بھی بندر ناچنے کے لیے تیار نہیں ہو گا، اور سجدۂ سہو کر لیں کیونکہ توبہ کا دروازہ تو ہر وقت کھلا رہتا ہے۔
مک مکا کی منڈی...؟
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب کو مک مکا کی منڈی قرار دیا ہے۔ یہ نہایت زیادتی کی بات ہے۔ اگر ملکی اداروں کی ہم ہی عزت نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ نیب کو ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، حتیٰ کہ عدلیہ بھی اسے معاف کرنے کو تیار نہیں ہے جبکہ اس پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ یہ چھوٹی مچھلیوں کو پکڑتی ہے اور مگر مچھوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتی۔ اب آپ ہی کہیے کہ مگر مچھ کو ہاتھ لگانا کوئی مذاق ہے جبکہ یہ خونخوار جانور تو آدمی کو سالم ہی نگل جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شریف برادران سے لے کر کئی دیگر حضرات کی فائلیں تیار رکھی ہیں اور اپنی باری آنے پر ان پر بھی پیش رفت ضرور ہو گی کیونکہ ہر کام اپنی باری پر ہی ہونا چاہیے کہ ڈسپلن کا تقاضا بھی یہی ہے جبکہ حکومت کی طرف سے بھی اس پر کوئی دباؤ نہیں ہے اور یہ ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے، لہٰذا ہمیں اپنے خودمختار اداروں کا احترام کرنا چاہیے۔
ریڈر کا سر پھاڑ دیا!
ایک اخباری اطلاع کے مطابق لاہور میں وکلاء نے جج کا نام نہ بتانے پر ریڈر کا سر پھاڑ دیا۔ اس پر مقامی سول عدالتوں کے عملہ نے ہڑتال کر دی۔ ریلی نکالی اور دھرنا دیا۔ اب سر تو پھٹنے والی چیز ہے، اس نے پھٹنا ہی تھا۔ وکلاء عدالت کے معزز افسران میں شمار ہوتے ہیں، کیا وہ ایک گستاخ ریڈرکا سر بھی نہیں پھاڑ سکتے؟ یعنی اگر وہ ججوں کو کمرۂ عدالت میں بند کر سکتے ہیں اور ان کی حسبِ توفیق پٹائی بھی، تو ایک ریڈرکس کھیت کی مولی ہے۔ اب تو معلومات تک رسائی کا قانون بھی بننے والا ہے اس لیے بھی ضروری تھا کہ ان معززین کو جج کا نام بتایا جاتا۔ اور یہ جو انہوں نے ہڑتال کی ہے، ریلی نکالی ہے اور دھرنا دیا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ سب عمران خان کی کارستانی ہے جنہوں نے ریلیوں اور دھرنوں کا رواج قائم کیا اور جس کا جی چاہتا ہے ریلی نکال کر دھرنا دینے بیٹھ جاتا ہے۔ حکومت کو اس شخص کا کوئی مستقل بندوبست کرنا چاہیے۔ اگرچہ وہ ملک کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچانے میں بیحد مصروف ہے اور اسے سرکھجانے کی بھی فرصت نہیں ہے تاہم یہ کام بھی بے حد ضروری ہے۔
حاسدوں کا منہ کالا
جب سے ہم نے انشاء اللہ حکومت کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کی ہے، حاسدوں کا باقاعدہ ایک طبقہ پیدا ہو گیا ہے جن کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگے ہیں حالانکہ جتنا رزق جس کسی کی قسمت میں ہوتا ہے اس نے کھانا ہی ہوتا ہے، میرا پیٹ کوئی دوسروں سے بڑا بھی نہیں ہے جبکہ حکومت نے بھی میری خدمات کو سراہنا شروع کر دیا ہے اور مجھے کسی شایانِ شان طریقے سے اکا موڈیٹ کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہی ہے جبکہ وزیراعظم کا غور و خوض تو ویسے بھی ایک مثالی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ سب سے زیادہ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ میرا سویا ہؤا ضمیر جاگ اُٹھا ہے اور ماضی کے اپنے رویے پر پشیمانی بھی ہے۔ تاہم، ہر کسی کے راہِ راست پر آنے کا بھی ایک وقت مقرر ہے جو آگے پیچھے نہیں ہو سکتا اور اس تبدیلی پر میں اپنے آپ کو مبارک باد کا مستحق سمجھتا ہوں۔ یعنی ع
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم 
آج کا مطلع
کس کس نئے خواب میں رہتا ہوں ڈبویا ہوا میں
مدتیں ہو گئیں جاگا نہیں سویا ہوا میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved