تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     20-10-2016

اکتوبر میں دہلی کے سکھ

میرا شہر ننکانہ ہے۔ اس کا نام باباگورونانک کے نام پر ننکانہ صاحب ہے۔ میں نے میٹرک گورنمنٹ گورونانک ہائی سکول ننکانہ سے 1975ء میں کیا۔ انڈیا ہی نہیں پوری دنیا سے سکھ ہر سال ننکانہ آتے ہیں اور بابا گورونانک کی پیدائش کا جلوس نکالتے ہیں۔ ننکانہ میں قیام کے دوران وہ ہمارے سکول کو دیکھنے بھی ضرور آتے جب دو تین سکھ حضرات کا وفد ہماری کلاس میں آتا تو ہمارے استاد ہمیں مزید کرسیاں لانے کا کہتے۔ ہم کرسیاں لاتے، وہ سکھ بیٹھ جاتے اور پھر سکول کی تاریخی حیثیت۔ اس کی پرانی عالیشان تاریخی عمارت، تقسیم کے واقعات اور اپنی موجودہ حالت کے بارے میں گفتگو کرتے۔ ہم طلباء بھی اس گفتگو کو غور سے سنتے۔ کئی سکھ ہم سے یہ کہہ کر پیار کرتے کہ ہم بھی کبھی اسی سکول کے طلبا ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں اندرا گاندھی انڈیا کی وزیراعظم ہوا کرتی تھیں۔ ہمارے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ہوا کرتے تھے، بھٹو اور اندرا کی ملاقاتوں کے لطیفے بھی سکھوں کی زبان پر جاری ہو جاتے تھے۔ ان لطیفوں میں بھٹو کی مردانہ وجاہت کا اظہار ہوتا تھا اور اندرا کے ساتھ مذاق ہوتا تھا۔ اس سے وہ ہمیں یہ پیغام دے جایا کرتے تھے کہ سکھ حضرات اپنی ہندو سرکار کے رویے سے سخت ناراض ہیں۔ بعض سکھ ایسے بھی تھے جو پنجاب کی تقسیم کو غلطی قرار دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے ہمارے لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کو قائداعظم نے بہت سمجھایا کہ ہندو کے ساتھ ملو گے تو پچھتائو گے لہٰذا ہمارے ساتھ مل جائو۔ پنجاب تقسیم نہیں ہو گا اور یہ کہ تم لوگوں کے تمام مذہبی مقدس مقامات بھی تقسیم نہیں ہوں گے مگر ماسٹر تارا سنگھ نے ایک نہ مانی۔ ہندوئوں کی سازشو ںسے فسادات بھی ہو گئے۔ سکھوں اور مسلمانوں کا نقصان ہوا۔ آج ہم ماسٹر تارا سنگھ کی اس غلطی کو بھگت رہے ہیں۔ آج سکھوں کا احساس مزید بڑھ گیا ہے، وہ کہتے ہیں تارا سنگھ سچا سکھ نہیں تھا۔ وہ ہندوئوں کے گھر میں ہندو پیدا ہوا۔ جوانی میں بھی ہندو تھا، پھر اچانک سکھ مذہب میں آ گیا۔ سکھ کہتے ہیں ہندوئوں نے اس کو دھوکے سے سکھ مذہب میں شامل کیا۔ وہ ہم سے دھوکہ کر کے ہمیں مروا گیا۔ 
جواہر لعل نہرو نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ سکھ مذہب کو ہندوئوں سے الگ تسلیم کر کے مراعات سے نوازا جائے گا نیز ان کو داخلی خودمختاری بھی دی جائے گی مگر جونہی ہندوستان قائم ہوا انہوں نے سکھ مذہب کو ہندو مذہب کا ایک فرقہ قرار دے دیا۔ سکھوں کے شور ڈالنے پر ماسٹر تارا سنگھ نے نہرو سے بات کی تو نہرو نے صاف کہا کہ اب حالات بدل چکے ہیں جب میں نے وعدہ کیا تھا تب حالات اور تھے اب اور ہیں۔ اس وعدہ خلافی پر 1949ء میں سکھوں کے بڑے بڑے لیڈر امرتسر میں اکٹھے ہوئے۔ وہاں کے معروف سمندری ہال میں ان کی میٹنگ ہوئی۔ سب نے اس پر اتفاق اور افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوئوں کے جھانسے میں آ کر ہم لوگ دھوکہ اور فریب کا شکار ہو گئے ہیں۔ سب لیڈر اس دھوکے سے مداوے کا حل ڈھونڈ رہے تھے مگر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ سکھ بولے جا رہے تھے مگر ٹھوس حل سامنے نہ آ رہا تھا۔ اس دوران گیانی شیر سنگھ جو نابینا ہو گیا تھا۔ پروفیسر تھا اور دانشور تھا۔ کہنے لگا، سارے چپ ہو جائو، میں حل بتاتا ہوں، یہاں دو گائے لائو، ان کے گوشت کا لنگر پکائو اور اسے سکھوں کو کھلا دو۔ اس سے مسلمانوں کی طرح تم لوگ ہندوئوں سے الگ ایک قوم بن جائو گے۔ جب الگ ایک قوم بن جائو گے، مسلمانوں کی طرح الگ دیش بھی حاصل کر لو گے۔ ماسٹر تارا سنگھ اور ان کے ہمنوائوں نے کہا اس سے ہندو سکھ فساد ہو جائے گا۔ گیانی شیر سنگھ نے کہا تقسیم پر بھی ہزاروں سکھ مارے گئے، اب ہندوئوں سے الگ اپنا وجود تسلیم کروانے کو بھی چند سو مارے گئے تو کوئی بات نہیں مگر ہم ہندوئوں سے الگ اپنی پہچان بنا لیں گے۔ مستقبل میں ہمارے یہی پہچان کام آئے گی۔ یاد رکھو! ہندو بت پرست ہے، سکھ بت پرست نہیں ہے، ہمارے ہاں گائے کا گوشت منع نہیں ہے۔ ہمارے گوروئوں نے منع نہیں کیا۔ یہ تو محض ہندوئوں کے ساتھ رہنے کا نتیجہ ہے کہ ہم نہیں کھاتے، کھانا شروع کر دو، کامیاب ہو جائو گے مگر ماسٹر تارا سنگھ نہ مانا اور یہ کام بھی نہ ہو سکا۔
بابا گورونانک سے پہلے ننکانہ کا نام تلونڈی ہوا کرتا تھا، ننکانہ شہر کے دو حصے ہیں، ایک پرانا ننکانہ ہے اور دوسرا صرف ننکانہ ہے، پرانا ننکانہ کے ساتھ تباہ شدہ تلونڈی اب ایک پہاڑ نما ٹیلے کی شکل میں قبرستان ہے۔ اس قبرستان میں ''رائے بلار بھٹی‘‘ کی قبر ہے۔ میرے دوست رائے ریاض بھٹی جو آج لاہور میں گورنمنٹ آفیسر ہیں انہوں نے اور میں نے دسویں تک اکٹھے تعلیم حاصل کی وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے بڑے نے پانچ سو مربع زمین بابا گورو نانک کو دے دی۔ اس لئے کہ ان کے مابین دوستی تھی۔ بابا گورو نانک کا دوسرا دوست جو ساری زندگی ان کے ساتھ رہا وہ بھی مسلمان تھا۔ اس کا نام مردانہ تھا۔ بابا جی جو خود کالو کھتری نامی ہندو کے گھر پیدا ہوئے تھے، مسلمانوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے ہندو مذہب عملاً چھوڑ چکے تھے۔ وہ مسلمان صوفیا کے پاس بھی مجلس لگاتے، بابا جی کے اشعار جنہیں ''بانیاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان میں بہت ساری قرآن اور حدیث کا ترجمہ ہیں۔ سکھوں کی مذہبی کتاب ''گورو گرنتھ صاحب‘‘ میں بابا فرید کا بہت سارا کلام بھی موجود ہے۔ بابا جی مکہ اور مدینہ بھی گئے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے دو حج کئے تھے۔ بابا جی کے کلام میں حضرت محمد کریمﷺ کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہے۔ بابا جی اپنے ایک شعر میں واضح طور پر کہتے ہیں کہ میں ہندو تو بالکل نہیں، مسلمان بھی نام کا ہوں، یعنی ہندو مت سے نفی موجود ہے جبکہ اسلام کے بارے میں اپنی مسلمانی کا اظہار کرنے میں عاجزی موجود ہے جیسے ہر مسلمان اپنے آپ کو گناہگار اور نام کا مسلمان کہتا ہے۔ جی ہاں! بابا جی نے اسلام کے ساتھ اپنی نفی کا اظہار نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سکھوں کے ایک گورو نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی جب اساسی اینٹ رکھوائی تو لاہور کے بزرگ حضرت میاں میر سے رکھوائی۔ اس سب سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سکھ، ہندوئوں کے نہیں مسلمانوں کے قریب ہیں۔
عرفان مہیس نے چند دن پہلے میرا خطبۂ جمعہ پاکستان کی سرحد پر واقع گائوں میں رکھا، ہمارے سامنے انڈین پنجاب کا علاقہ پٹھانکوٹ تھا۔ واپسی پر شکر گڑھ اور نارووال کے درمیان ہم ''کرتارپور‘‘ میں گئے۔ یہاں کے سکھ گیانی اور عرفان کے مابین پاکستانی ہونے کے ناطے اچھا تعلق ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو ان کی پرخلوص ضیافت کے بعد گوردوارہ دیکھا جہاں بابا گورونانک نے زندگی کے آخری اٹھارہ سال گزارے تھے۔ کرتارپور کا معنی ہے اللہ ہی خالق ہے۔ گوردوارے میں بابا جی کے اقوال میں پڑھتا جاتا تھا اور حیران ہوتا جاتا تھا کہ ہر قول یا تو قرآن کی کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا ترجمہ ہے۔ گیانی صاحب مجھے بتلا رہے تھے کہ ہمارے ہاں بت پرستی کی سختی سے ممانعت ہے۔ ہمارے گوردوارے میں ہر مذہب کا شخص آ سکتا ہے، اپنی عبادت بھی کر سکتا ہے، آپ نماز بھی پڑھ سکتے ہیں مگر ہندو یہاں مورتی نہیں لا سکتا، نہ اس کی پوجا کر سکتا ہے۔ گیانی صاحب جب مجھے اپنی مذہبی کتاب جسے وہ ''گوروگرنتھ صاحب‘‘ کہتے ہیں اور انسانوں کی طرح ہی اسے ایک گورومانتے ہیں۔ اس کے سامنے سجدہ کیا تو فوراً وضاحت کی کہ میں نے مذکورہ کتاب کو سجدہ نہیں کیا۔ سجدہ صرف اللہ کو کیا، کتاب محض سمت ہے جس طرح آپ لوگ کعبہ کی سمت رخ کر کے اللہ کو سجدہ کرتے ہو۔ بابا جی گورونانک کے اقوال میں خالق کائنات کا نام کہیں بھی بھگوان نہیں لکھا تھا بلکہ اللہ لکھا تھا۔
قارئین کرام! جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا نے اندرا گاندھی کے دوسرے دور حکومت میں سکھ قوم کی مذکورہ پہچان کو منوانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ کہا کہ ہم ''خالصتان‘‘ بنائیں گے یعنی ایسا دیش جہاں سکھ حکمران ہوں۔ ''اکال تخت‘‘ کا معنی ہے کہ جہاں اللہ کی حکومت ہو، امرتسر سے یہ تحریک آگے بڑھ کر جب پھیل گئی تو اندرا گاندھی نے اجیت سنگھ ددول ہندو جواب نریندر مودی کا مشیر ہے، اس کی مخبری سے گولڈن ٹیمپل پر ٹینک چڑھا دیئے۔ سکھ مارے گئے۔ عبادت گاہ کا احترام ملیامیٹ ہو گیا۔ جواب میں اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ محافظوں نے قتل کر دیا۔ ساتھ ہی 31اکتوبر کو صبح 9بجے دہلی اور اس کے گردونواح میں سکھوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ آٹھ ہزار سے زائد سکھ عورتیں مرد اور بچے قتل اور زندہ جلا دیئے گئے۔ دہلی سے سکھ جب ریل گاڑیوں اور بسوں سے انڈین پنجاب جانے لگے تو بسوں کو جلا دیا گیا۔ ریل گاڑیوں سے سکھوں کو اتار کر قتل اور زندہ جلا دیا گیا۔ پولیس اور فوج نے ووٹر لسٹوں کو سامنے رکھ کر منظم طریقے سے قتل عام کروایا۔ ایک سکھ بیوہ آج بھی ٹی وی پر رو رہی تھی کہ اس نے بلوائیوں کو 35تولے سونا دیا۔ پھر بھی اس کا خاوند اور 6بچے قتل کر دیئے گئے۔ کہنے لگی، دو سکھوں نے اندرا کو قتل کیا تو ان کو مارتے، ساری قوم کو کیوں مارا۔ ڈاکٹر بھی کینسر والی انگلی کاٹتا ہے باقی جسم نہیں مگر یہاں تو سکھ قوم کا انگ انگ کاٹ اور جلا دیا گیا۔ جو سکھ یہاں سے بھاگ گئے، ان کے مکانوں پر ہندوئوں نے قبضہ کر لیا۔ سرکار نے یہ مکان واپس نہ دلائے۔ نئے کوارٹر دیئے، بعد میں ان کی قیمت سود سمیت وصول کرنا شروع کر دی جو نہ دے سکا اسے دھکے دے کر کوارٹر سے نکال دیا گیا۔
1947ء کی تقسیم کے بعد ہندوئوں نے سکھوں کے حصے میں آنے والے پنجاب کو بھی تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ متحدہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور تھا، لاہور مسلمانوں کے حصے میں آیا تو ہندوئوں نے انڈین پنجاب کا دارالحکومت ''شملہ‘‘ بنایا۔ اس کے بعد شملہ کے علاقے کو ''ہماچل پردیش‘‘ صوبہ بنا دیا۔ آج وہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔
انڈین پنجاب کے مزید دو حصے کئے گئے، ایک کا نام ہریانہ اور دوسرے کا نام پنجاب رکھا۔ دونوں کا دارالحکومت مشترکہ بنایا، ایک نیا خوبصورت شہر چندی گڑھ کے نام سے بنا کر اسے براہ راست مرکز کے کنٹرول میں کر لیا۔ ہریانہ میں ہندوئوں کی اکثریت کر لی، چندی گڑھ شہر میں ہندو اکثریت میں ہیں۔ سکھ بیس فیصد ہیں، مسلمان دو فیصد ہیں۔ پنجاب نامی صوبہ میں سکھ 57فیصد ہیں۔ دوسرے نمبر پر ہندو ہیں۔ یوں پنجاب میں جس دن ہندو اپنی چالاکی سے سکھوں کو کم کر لے گا۔ سکھوں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ ابھی نریندر مودی نے جنگ کے حالات پیدا کئے تو انڈین پنجاب کے سکھوں کو سارے بارڈر سے جلاوطنی کا حکم ملا۔ وہ روتے ہوئے گھر چھوڑ رہے تھے۔ جنگ نے نہ ہونا تھا نہ ہوئی مگر سکھوں کو حیلے بہانوں سے تنگ اور بے گھر کیا جا رہا ہے۔ بہرحال! سکھ اب ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ 2020ء تک اپنا خالصتان بنا کر رہیں گے یوں انڈیا میں کشمیریوں کے بعد اب سکھ بھی جرأت و بہادری کے ساتھ اپنا حق لینے کا اقوام متحدہ سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ سمیت سارے یورپ کے سکھ بھرپور جدوجہد کر رہے ہیں۔ ظلم نے انڈیا کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved