محنت تو مہاراج نے بہت کی۔ اچھا خاصا میلہ لگایا۔ مہمان بھی گئے گزرے یا بے وقعت نہ تھے۔ چمک دمک بھی ایسی تھی کہ دیکھنے والے متاثر ہوں۔ دھوم دھڑکّا بھی کم نہ تھا۔ میڈیا مشین کو جو کام سونپا گیا تھا وہ اُس نے پوری ''ایمان داری‘‘ اور جاں فِشانی سے کیا۔ تجزیہ کاروں کو جو ٹاسک دیا گیا تھا اُسے پورا کرنے میں اُنہوں نے ''وفاداری بہ شرطِ اُستواری ...‘‘ والی کیفیت پیدا کی۔
مقام تھا گوا۔ مودی سرکار نے بھرپور تیاری کی تھی کہ پاکستان کو کسی نہ کسی طور پچھاڑ کر ذبح کردیا جائے۔ استھان تھا ''برکس‘‘ سربراہ کانفرنس کا۔ ''برکس‘‘ ابھرتی ہوئی معیشتوں کا فورم ہے جس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقا شامل ہیں۔ نریندر مودی اور اُن کے رفقاء نے خدا جانے کیا کیا سوچ رکھا تھا۔ چین اور روس کو کسی نہ کسی طور اِس بات پر آمادہ کرنا تھا کہ پاکستان کے خلاف جائیں۔ کچھ اور کریں نہ کریں، تھوڑی بہت مذمت ہی کردیں۔ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اُتر پردیش اور چند دیگر ریاستوں میں ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات سَر پر ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی کامیابی حاصل کی جائے یعنی یہ ثابت کیا جائے کہ مودی سرکار نے پاکستان کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔
مودی سرکار نے اپنے طور پر تو خاصی تیاری کی تھی کہ اس کانفرنس کے پلیٹ فارم سے پاکستان کو لتاڑ کر عالمی برادری کو بتادیا جائے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کا کوئی منبع ہے تو پاکستان ہے۔ بھارتی میڈیا نے ع
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
کے مصداق ہذیانی کیفیت میں پتا نہیں کیا کیا بَکا اور سپر کوالٹی بڑھکیں مار کر یہ تاثر دینا چاہا کہ چین اور روس کو بھارتی قیادت نے پاکستان کے خلاف جانے پر رضامند کرلیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتِ حال، لائن آف کنٹرول پر آؤٹ آف کنٹرول ہوجانا اور پھر نام نہاد سرجیکل اسٹرائک ... ہر معاملہ بھارت کے خلاف جارہا تھا۔ ایسے میں برکس سربراہ کانفرنس آئی تو مودی سرکار کی آنکھوں میں کچھ اُمّیدکی چمک پیدا ہوئی۔ ڈھول تاشے اور بینڈ باجا سنبھال کر اس کانفرنس کو پاکستان مخالف بارات بنانے کی کوشش کی گئی۔ مگر یہ کیا؟ چین اور روس نے باراتی بننے سے صاف انکار کردیا۔
مودی سرکار چاہتی تھی کہ برکس سربراہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردی کے حامی، سرپرست اور معاون کی حیثیت سے پاکستان کا نام آجائے اور دو بڑی طاقتیں اُسے لتاڑیں۔ ایک تفریحی مقام پر منعقد کی جانے والی کانفرنس سیر و تفریح کا منظر پیش کرکے ختم ہوگئی۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے پاکستان کے خلاف ابھرنے کا نام بھی نہ لیا۔ سرجیکل اسٹرائک کے دعوے پر اندرون ملک کی جانے والی تنقید شاید کافی نہ تھی جو مودی سرکار نے برکس کا فورم بھی آزمالیا۔ مشترکہ اعلامیے میں اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا عزم ظاہر کیا۔ ان میں لشکر طیبہ اور جیش محمد بھی شامل ہیں مگر ان کا نام اعلامیے میں نہیں۔ اعلامیے میں جبہۃ النصرۃ اور داعش کا ذکر ہے۔ ایک سے چین کو خطرہ ہے اور دوسری سے روس کو۔
نام نہاد سرجیکل اسٹرائک کے دعوے کے بعد جو صورتِ حال اُسے چین نے یہ کہتے ہوئے بھارت کے مزید خلاف کردیا کہ نئی دہلی انسدادِ دہشت گردی کے نام پر کیے جانے والے اقدامات سے سیاسی فوائد بٹورنے کی کوشش نہ کرے۔بھارتی میڈیا نے برکس سربراہ کانفرنس کے انعقاد سے پہلے دو دن تک خاصا ڈھول پیٹا کہ پاکستان میں قائم جہادی تنظیموں کی بھارت میں سرگرمیوں (یعنی حملوں) کے حوالے سے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ آئیے، ذرا ''شواہد‘‘ کے معیار پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ روزنامہ انڈین ایکسپریس نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ مودی سرکار نے چینی قیادت کو پاکستان کے جہادی عناصر کے بارے میں بریف کرنے کی تیاری کر رکھی ہے۔ مودی سرکار چینی قیادت کو مولانا مسعود اظہر کے خلاف شواہد فراہم کرنے کے لیے بے تاب ہے اور شواہد میں مولانا مسعود اظہر کے ہفت روزہ جریدے میں اُن کے اپنے لکھے ہوئے وہ مضامین بھی شامل ہیں جن میں حکومتِ پاکستان سے کہا گیا ہے کہ بھارت سے کشمیر اور آبی وسائل کا معاملہ ہمیشہ کے لیے طے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اور اگر حکومت اور کچھ نہیں کرسکتی تو کم از کم اتنا کرے کہ راستے کھول دے یعنی جہادیوں کو بھارت میں داخل ہوکر زور آزمانے کا موقع دے!
اگر یہ ''شواہد‘‘ ہیں تو آفرین ہے اُس خفیہ نیٹ ورک پر جس نے مودی سرکار کو ''ڈوزیئر‘‘ تیار کرکے دیئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے جہادی اگر بھارت میں گھس کر حملہ کرنا چاہیں تو کیا حکومت سے اجازت لیں گے؟ مودی سرکار نے برکس سربراہ کانفرنس سے پتا نہیں کیا کیا توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے بلکہ بڑی طاقتوں نے پاکستان کے بارے میں خاموش رہ کر نریندر مودی کے لیے تھوڑی بہت شرمندگی کا سامان ضرور کیا ہے۔ چینلز کے تجزیہ کار اور اخبارات کے تجزیہ نگار مودی سرکار پر تُھو تُھو کر رہے ہیں۔
ہمیں 1938 کی فلم ''اسٹریٹ سنگر‘‘ کا ایک منظر یاد آرہا ہے۔ فلم کا ہیرو (کندن لعل سہگل) تھیٹر میں اداکاری اور گلوکاری کے فوائد گِنواتا ہے تو ہیروئن (کانن بالا) کہتی ہے، ''ہونہہ۔ ٹھینگے کا تھیٹر۔ تم جیسے اچھے گانے والے کو تو کوئی موقع دیتا نہیں۔‘‘
گوا میں منعقدہ برکس سربراہ کانفرنس بھی نریندر مودی کے لیے ٹھینگے کا تھیٹر ثابت ہوئی ہے۔ اللہ کے فضل سے پاکستان اِس سُرنگ سے بحفاظت نکل آیا ہے ۔ ؎
تھی خبر گرم کہ غالبؔؔ کے اُڑیں گے پُرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا!
اب رہی سہی کسر ایرانی قیادت نے پوری کردی ہے۔ تہران نے پاک چین راہداری منصوبے کا حصہ بننے پر آمادگی کا عندیہ دے کر نئی دہلی کے دردِ سر میں اضافہ کردیا ہے۔ اگر افغانستان نے بھی راہداری منصوبے سے باضابطہ طور پر وابستہ ہونے کا اعلان کردیا تو؟ بھارت کا ساتھ نبھانے کے لیے صرف امریکا رہ جائے گا۔ اور شاید امریکا ہی کے بارے میں غالبؔ نے کہا تھا ع
ہوئے تم دوست جس کے دُشمن اُس کا آسماں کیوں ہو!