تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     21-10-2016

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو

جس ملک میں حکمران‘منصف اور محافظ اپنے فرض اور اختیار سے دستبردار ہو کر کمنٹیٹر بن جائیں اور'' کریں گے‘‘ کے بجائے ''کرنا چاہیے‘‘‘ ''ہو گا‘‘ کے بجائے ''ہونا چاہیے‘‘ کی گردان کرنے لگیں‘ وہاں ظلم‘ زیادتی ‘ ناانصافی‘ لاقانونیت اور وحشت و بربریت کا راج کیوں نہ ہو ۔دنیا بھر میں حکومتیں تبلیغ نہیں قوانین کا نفاذ کرتی ہیں‘ عدلیہ ریمارکس نہیں فیصلے سناتی ہے۔ دو ٹوک‘ واضح اور اٹل۔ جبکہ محافظ‘ ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ بلا امتیاز و بلا تفریق۔
سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے جب یہ کہا کہ عزیز آباد سے ملنے والا گولہ بارود فوج اوررینجرز سے لڑنے کے لیے خریدا گیا‘ ایم کیو ایم کی تنظیمی کمیٹی کا نام سامنے آیا اور سانحہ بارہ مئی‘ سانحہ بلدیہ ٹائون اور حکیم سعید قتل کیس کے بارے میں معلومات ملی ہیں تو ہر محب وطن شخص حیران رہ گیا کہ کیا گورنر کا کام صرف عوام کواطلاعات فراہم کرنا ہے یا مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا۔ پاکستان میں مگرکسی دوسرے بااختیار شخص نے کب کسی مجرم کے خلاف اپنا اختیار استعمال کیا کہ عشرت العباد سے گلہ کیا جائے۔ حد تو یہ ہے کہ کل تک علی بابا اور چالیس چوروں کے پیٹ سے قومی دولت نکلوانے والوں نے چپ سادھ لی ہے اور دہشت گردی و کرپشن کے مابین گٹھ جوڑ ہر قیمت پر توڑنے کی آوازیں بھی مدھم پڑ گئی ہیں۔ ظلم کوچہ و بازار میں ڈھٹائی سے بچّے جن رہا ہے‘ مگر عدل صاحب اولاد ہونے کی خواہش سے محروم ہے۔ شاید خواہش مندوں کی نیت پر اسے شک ہے ۔ 
ڈاکٹر عشرت العباد نے عزیز آباد سے ملنے والے گولہ بارود کے بارے میں جو کہا وہ انکشاف نہیں اوپن سیکرٹ ہے۔ موصوف کے حوصلے کی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اسلحہ بارود جمع کرنے والے مافیا کے ڈان الطاف حسین کو اپنا محسن قرار دیا اور کہا '' میں اپنے محسن کو ناراض نہیں کرتا‘‘ عشرت العباد کی تازہ قلابازی ایم کیو ایم لندن سے ان کے تازہ رابطوں کا نتیجہ ہے یا تخت اسلام آباد کی طرف سے الطاف حسین اور کراچی میں ان کے پیرو کاروں کو ملنے والی رعائت بلکہ ہلہ شیری کا شاخسانہ۔؟ کیا عالمی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یا سول بالادستی کی خواہش مند سیاسی حکومت کو باور کرا دیا ہے کہ کراچی میں الطاف گروپ ہمارا''گڈ طالبان‘‘ ہے جس طرح ہم نے منی لانڈرنگ کیس میں نرمی برتی، پاکستان بھی نیٹو اسلحہ کیس میں اس سے تعرض کرے نہ ''را‘‘ کے ایجنٹوں کے مدمقابل عناصر بالخصوص مصطفی کمال کو رعایت دے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ عشرت العباد نے الطاف حسین کو اپنا محسن قرار دے کر فوج اوررینجرز کے علاوہ مصطفی کمال اور فاروق ستار کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ اگر ریاست فوج اوررینجرز سے لڑنے کے لیے گولہ بارود جمع کرنے والوں کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی اور مرکز کا نمائندہ یعنی گورنر سندھ ان کے گرو کا احسان مند اور باغی کا مخالف ہے تو پھر دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوری اور ''را‘‘ کے ایجنٹوں کے خلاف آپریشن پر بھی نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والے معصوم شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو خطرے میں ڈالنے کا فائدہ؟
ڈان لیکس کے حوالے سے فوج اور آئی ایس آئی کو جس طرح بیک فٹ پہ جانا پڑا اور کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد بھی سول حکومت نے جلد بازی نہ دکھا کر مہلت حاصل کی تاکہ پاناما لیکس کی طرح یہ بھی طاق نسیان کی نذر ہو‘ اس سے سول بالادستی کے نام پر من مانی کرنے اور ہر ادارے کو تابع مہمل بنانے کے خواہش مند عناصر کو تقویت ملی ہے اور کرپشن‘ بد انتظامی ‘ بدامنی‘ قومی اداروں کے وسائل کی بندر بانٹ‘ بیڈ گورننس‘ اقربا پروری حتیٰ کہ بھارت کے پروردہ عناصر کی سازشوںکے گند کو سول بالادستی کے قالین کے نیچے چھپانے کی حکمت عملی کامیاب نظر آتی ہے۔ عشرت العباد کو حوصلہ اسلام آباد کی سرپرستی اور راولپنڈی کی مصلحت کوشی سے ملا۔ ممکن ہے کل کلاں کو ڈاکٹر فاروق ستار بھی 22اگست کے واقعہ کی کوئی نہ کوئی تاویل گھڑکر ایک بار پھر بانی کے گن گانے لگیں کہ یو ٹرن لینے میں ہمارے سیاستدانوں کا کوئی ثانی نہیں اور عوام کی کمزور یادداشت کا کوئی جواب نہیں۔ لوگوں کو اندیشہ تھا کہ جوں جوں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ قریب آتی جائے گی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘نیشنل ایکشن پلان‘ کرپشن کے خلاف مہم اور کراچی میں''را‘‘ کے ایجنٹوں کی سرکوبی کے عمل کو پیچھے دھکیلنے کی کوششیں تیز ہوں گی اور میاں نواز شریف فوج کو زیرنگیں لانے کے لیے ہر سیاسی حربہ استعمال کریں گے۔ نہ صرف سیاسی حربہ بلکہ میڈیا‘ بین الاقوامی تعلقات اور پاکستان میں فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ازلی بغض و عناد رکھنے والے عناصر کو بھی۔ وہ عناصر جو ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ''را‘‘ کبھی دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی مگر آئی ایس آئی کا یہ وتیرہ ہے۔
سول ملٹری تعلقات میں حالیہ تنائو میڈیا کا پیدا کردہ ہے نہ کسی خاکی کا کارنامہ مگر فوائد سول حکومت سے زیادہ بھارت اور دیگر پاکستان مخالف قوتوں نے سمیٹے۔ جب تک سول ملٹری تعلقات ہموار رہے‘ اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوا؟ عوام کو انصاف ملنے لگا؟‘ پولیس اور انتظامیہ کی کار گزاری بہتر ہوئی؟ سرکاری محکموں میں رشوت کے نرخ کم ہوئے؟۔ سفارش ‘ دوست نوازی اور اقربا پروری کے کلچر پر پابندی لگی‘ چار کروڑ فاقہ کشوں کو بھوکا سونے سے نجات ملی؟ سکولوں کی حالت بہتر ہوئی؟ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل مرنے والے بچوں کی تعداد میں کمی کا کوئی امکان؟ ؎
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لُوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
ترقی و خوشحالی کے نعروں کی گونج میں ریلوے‘ پی آئی اے اور سٹیل ملز کا خسارہ سات کھرب ہو گیا۔ تھر میں بچوں کی اموات پر سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا تبصرہ موجودہ سفاکانہ سیاسی‘معاشی اورسماجی نظام پر قربان ہونے والوں کی سوچ کا مظہر تھا کہ ہر روزبچے مرتے ہیں اس میں حکومت کا کیا قصور؟ پہلے حکومتی نااہلی اور نظام کی سنگدلی کا رونا تھا کہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اب ریاست کی بقا و سلامتی بھی اس ملک کے بے آسرا‘ بے وسیلہ اور ستم رسیدہ عوام کی طرح ان ظالموں کے رحم و کرم پر ہے جنہیں غدار اور وفادار میں فرق معلوم ہے نہ ریاست کو اپنے سیاسی و ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھانے والوں اور اپنے آپ کو ریاست پر قربان کرنے والوں کے مابین امتیاز کا سلیقہ۔ ورنہ حکمران منصف اور محافظ اپنے فرض اور اختیار سے دستبردار ہو کر محض رننگ کمنٹری کرتے نہ فوج اوررینجرزسے مقابلے کے لیے گولہ بارود جمع کرنے والوں کے سنگی ساتھی پریس کانفرنس کرنے اور پاکستان کی ریاستی دہشت گردی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے آزاد ہو کر پھرتے اور نہ دشمن کے بیانیہ کو قومی بیانیہ کے طور پر فروغ دینے والے آزادی اظہار اور آزادی ٔصحافت کی آڑ میں موجیں کر پاتے۔ سول بالادستی بھی ایسا ہی گورکھ دھندا ہے۔ کالے کرتوتوں اور نا اہلی کی پردہ پوشی کا ڈھکوسلہ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved