تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-10-2016

ایک ہزار چار سو اکسٹھ دن بعد

یہ بات نہیں کہ مجھے ہنسنا نہیں آتا تھا لیکن اس طرح بلا وجہ تو بہرحال میں نہیں ہنستا تھا جس طرح وہ بالکل معمولی باتوں پر ہنستی تھی۔ دو چار بار تو چلیں برداشت کیا جا سکتا تھا لیکن تادیر اس طرح ایسی معمولی معمولی باتوں پر جو مجھے تقریباً بلا وجہ لگتی تھیں ہنسنا اور وہ بھی اس طرح کھل کر کہ آنکھوں میں آنسو آ جائیں مجھے باقاعدہ کھلنے لگ گیا تھا۔ ایک روز میں نے اس سے پوچھا کہ وہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس طرح کیوں ہنستی ہے؟ وہ میری اس بات پر بھی کھلکھلا کر ہنسنے لگ گئی۔ پھر مجھے سنجیدہ دیکھ کر اس کی ہنسی کو بریک لگ گئی۔ اورصرف ہنسی کو بریک ہی نہیں لگی بلکہ وہ تھوڑی پریشان سی بھی ہو گئی۔ لیکن اس کی یہ کیفیت بس چند لمحے ہی رہی اور وہ پھر میری سنجیدہ شکل دیکھ کر دوبارہ ہنسنے لگ گئی۔ مجھے اس کے بریک لگا کر دوبارہ زور دار طریقے سے ہنسنے پر پہلے تو الجھن سی ہوئی پھر غصہ آ گیا۔
میرا خراب موڈ دیکھ کر وہ چپ ہو گئی اور باہر صحن میں جا کر پھولوں کی بیل کے پاس کھڑی ہو گئی۔ مجھے اپنے اس ردعمل پر جو حالانکہ میرے حساب سے درست تھا احساس ہوا کہ مجھے اس طرح بہرحال ناراض نہیں ہونا چاہیے تھا میں باہر صحن میں گیا تو وہ پہلے تو مسکرائی اور پھر دوبارہ ہنسنے لگ گئی۔ میرا احساس ندامت بھک سے اڑ گیا اور میں نے پوچھا اب کیا ہوا ہے؟ اب ہنسنے کی کیا بات ہوئی ہے۔ وہ کہنے لگی ایمان سے غصہ آپ پر بالکل سوٹ نہیں کر رہا۔ مجھے اس بات پرہنسی آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہنسنے کی صلاحیت صرف اشرف المخلوقات کو دی ہے ہم اپنی اس صلاحیت کو استعمال کرنے میں بخل سے کام کیوں لیتے ہیں؟ میں نے کہا ہنستا تو میں بھی ہوں مگر اس طرح بلا وجہ نہیں ہنستا جس طرح تم ہنستی ہو۔ چلو ہنسنے کی بات ہو تو بندہ ہنس لے‘ مگر اس طرح بلا وجہ ہنسنے کی کیا تک ہے؟ تم اتنا ہنستی کیوں ہو؟ اس نے آگے سے سوال جڑ دیا کہ آپ کھل کر کیوں نہیں ہنستے؟ بھلا ہنسنے میں کوئی خرچ آتا ہے؟ پھر بڑی سنجیدگی سے کہنے لگی۔ آپ بھی ہنسا کریں۔ ہنستا ہوا بندہ منہ بسورنے والے سے کہیں زیادہ اچھا لگتا ہے۔ ہنسی کوئی راشن ڈپو سے تھوڑا ملتی ہے کہ زیادہ خرچ ہو گئی تو کوٹہ ختم ہو جائے گا۔
مجھے اس کی بات اس وقت تو زیادہ اچھی نہ لگی مگر جب وہ حسب عادت ہنستی تو مجھے اب بالکل کوفت محسوس نہیں ہوتی تھی پھر آہستہ آہستہ میں نے مسکرانے والی باتوں پرہنسنا سیکھ لیا۔ ہنسنے میں خیر اس کا مقابلہ تو میں سات جنم لے کر بھی نہیں کر سکتا تھا مگر میں نے اس کی ہنسی کو انجوائے کرنا ضرور سیکھ لیا اور کسی حد تک ہنسنا بھی۔ اس سارے کام میں برسوں لگ گئے ۔ ایک روز میں کسی بات پر زور سے ہنسا تو کہنے لگی محنت تو کافی کرنا پڑی مجھے‘ مگر چیز کام کی بن گئے ہو۔ اس کے اس جملے میں کھل کر ہنسا۔ بعد میں مجھے حیرانی ہوئی کہ میں اب کیسی کیسی باتوں پر ہنسنے لگ گیا ہوں۔
یہ بات نہیں کہ وہ صرف ہنسنا جانتی تھی۔ وہ جس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کو انجوائے کرتی تھی اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کو محسوس بھی کرتی تھی۔ وہ جتنی ہنس مکھ تھی اتنی زود رنج بھی تھی۔ لیکن اچھی بات یہ تھی کہ اس کی یہ والی کیفیت بڑی جلدی ختم ہو جاتی۔ ڈیپریشن ہوتا تو سو جاتی اور اٹھتی تو پہلے جیسی خوش باش اور ترو تازہ ۔ ایک دن میں نے اسے کہا کہ دیکھ لو میں تمہاری خاطر ہنسنا سیکھ گیا ہوں۔ مسکرا کر کہنے لگی اس عادت کے پہلے Beneficiaryآپ خود ہیں۔ لیکن آپ ہیں بڑے خوش قسمت۔ جو میں نے بے شمار چیزیں آپ کی خاطر سیکھیں اور اپنائی ہیں ان کے براہ راست Beneficiaryبھی آپ ہیں اور جو ایک آدھ چیز آپ نے میری خاطر اپنائی ہے اس کا سارا فائدہ بھی آپ کی ذات کو ہوا ہے۔ کوئی فائدہ مجھے ہوا تو بتائیں۔ میں نے جواب دینے کے لیے لمحہ بھر سوچا تو وہ کہنے لگی کوئی فائدہ نہیں اس سوچنے کا۔ آپ نے سوچ کر اگر جواب بھی دیا تو وہ آپ کے عزیز دوست جیسا ہو گا جس سے آپ نے پوچھا تھا کہ تم نے زندگی میں کوئی مناسب کام کیا ہو تو بتائو اور جلدی کی ضرورت نہیں تم سوچ کر بتاسکتے ہو۔ آپ نے خود مجھے بتایا تھا کہ اس نے اپنی زندگی کا جو سب سے معقول اورقابل فخر کام بتایا تھا وہ کیا تھا۔ میں نے جواب کا ارادہ ترک کیا اور اس کی ہنسی میں شریک ہو گیا۔ لیکن پھر سب کچھ تلپٹ ہو گیا۔ جب مجھے تھوڑا ہنسنا آیا وہ اچانک چلی گئی۔ کام ادھورا رہ گیا اور انجام کار وہی ہوا جو ایسے ادھورے کاموں میں ہوتا ہے۔
لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس گھر میں اور ہنسنے والے موجود ہیں جو گھر کے درو دیوار کو اپنی ہنسی سے مزین کرتے رہتے ہیں۔ میری تینوں بیٹیاں ماں کی طرح تو نہیں ہنستیں‘ لیکن ان کی ہنسی میں ماں کی جھلک ضرور دکھائی پڑتی ہے۔ جب تینوں اکٹھی ہو جائیں تو مل کر ماں جتناہنس لیتی ہیں۔ تین سال ہونے کو آتے ہیں۔ تینوں بمشکل اکٹھی ہوتی ہیں ایک امریکہ میں ہے‘ دوسری اب آسٹریلیا ہوتی ہے اور تیسری گھر میں۔ آج تین دن ہوئے ہیں تینوں اکٹھی ہیں اور گھر میں ہنسی سنائی دیتی ہے۔ وہ جس کمرے میں ہوں وہاں سے ہنسنے کی آواز آتی ہے اور جب وہ ہنس رہی ہوں تو میں اس کمرے میں نہیں جاتا کہ مجھے دیکھ کر ان کی ہنسی کا آہنگ بھی بدل جاتا ہے اور رنگ بھی۔ لیکن اگر وہ ہوتی تو منظر ہی کچھ اور ہوتا کہ ان چاروں کو میں گھر کے لان میں'سیڑھیوں پر‘ برآمدے میں لائونج میں اور کمروں میں ایسی باتوں پر ہنستے دیکھ چکا ہوں جن پر ہنسنے کی وجہ مجھے آج بھی سمجھ نہیں آتی۔ میں کبھی کبھار تجسس کے مارے پوچھ بیٹھتا کہ کس بات پر ہنسا جا رہا ہے تو وہ آگے سے مسکرا کر کہتی آپ کو سمجھ نہیں آئے گی۔ پھر وہ چاروں وہیں سے ہنسنا شروع کر دیتیں۔ جہاں سے سٹاپ لگایا تھا۔
اب کبھی کبھار تو یوں ہوتا ہے کہ میں گھر آئوں تو گھر میں اس طرح خاموشی ہوتی ہے کہ لگتا ہے کہ گھر میں‘ میں اکیلا ہوں۔ چھوٹی والی کی واحد دلچسپی یہ ہے کہ اسد کو کھانا اس کی پسند کا ملے اوروقت پر ملے۔ اس کے لیے سوئیٹ جس کے لیے اب بچے''ڈیزرٹ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں بنائی جائے۔ وہ عموماً خاموشی سے کچن میں مصروف ملتی ہے۔ اسد کسی کمرے میں خاموشی سے پڑھائی کرتا ملتا ہے۔ شام کو ہم تینوں بعض اوقات گھنٹوں اکٹھے رہتے ہیں اور ہنسنے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر مزہ نہیں آتا۔ میری خواہش ہے کہ ہم مل کر ہنسیں‘ انجوائے کریں اورگھر کا جمود توڑیں مگر صرف چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟
تین دن ہوئے ہیں بڑی بیٹی امریکہ سے میرے ساتھ واپس آئی ہے۔ساتھ اس کے دونوں بیٹے ہیں۔ ایک سال نو ماہ کا سفیان اور اکیس دن کا ضوریز۔ ان دونوں نے ایسی رونق لگائی ہے کہ سارا گھر بچہ بنا ہوا ہے لیکن مجھے پتہ ہے کہ ہم سب مل کر بھی گھر کے درو دیوار کو وہ ہنسی نہیں لوٹا سکتے جس سے یہ آشنا تھے۔ کوئی بھولے سے بھی اس کا نام نہیں لیتا کہ سب کو پتہ ہے اس کے ذکر کے ساتھ ہی یہ غنیمت بھی ہاتھ سے جاتی رہے گی۔
گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل مسافرت ہے اور میں ہوں۔ سفر وسیلہ ظفرہوتا ہو گا مگر کم از کم میرے لیے تو ہرگز نہیں۔ سفر میں پڑھنا کبھی معمول تھا مگر بھلا ہو ان آنکھوں کی دھندلاہٹ کا کہ اب اس مزے سے محروم ہوئے بھی برسوں ہو گئے ہیں۔ لیکن پرانی چیزیں یاد آتی ہیں تو یادوں کے کئی در کھل جاتے ہیں۔ کئی دن سے معین نظامی کی دو نظمیں شدت سے ذہن پر سوار ہیں لیکن فی الوقت ایک پر گزار کیجیے۔
''کوئی رغبت نہیں دل کو‘‘
بہت سے چاند چہرے یاد آتے ہیں
جو میرے مطلع خواہش پے چمکے تھے
اوراک اک کر کے گہناتے گئے تھے
کہ یہ گردش کی وہ مولائی سنت ہے
کہ جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی
بس اک دھندلا سا چہرہ ہے
کہ جس کی ٹمٹماتی ضو
ابھی تک دوستی کی تیرہ روزی میں
بہت پر عزم ہو کر آتی جاتی ہے
مگر کب تک؟
کہ یہ چہرہ تو پھر بھی چاند جیسا ہے
اگر سورج بھی ہوتا
تو بالآخر ڈوب ہی جاتا
اور اب ان ڈوب جانے والی چیزوں سے
کوئی رغبت نہیں دل کو
وقت کے ساتھ سارے مفہوم تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کبھی یہ نظم حرف آخر تک Fascinateاورمسحور کرتی تھی مگر چار سال ہوتے ہیں اس کے آخری چار مصرعے عمومی طور پر اور آخری دو مصرعے تو خصوصی طور پر اپنا جادو کھو چکے ہیں مگر اس میں معین نظامی کا قطعاً کوئی عمل دخل نہیں بس میرا تجربہ ہی معین نظامی سے مختلف ہے۔
اب اس گھر کی خاموشی کی اتنی عادت ہو گئی ہے کہ لگتا ہے یہ سدا سے ایسا ہی تھا۔ لیکن جب دوسرے کمرے سے کبھی چاروں بھائی بہنوں کے قہقہے سناتی دیتے ہیں تو لگتا ہے یہ گھر سدا سے اسی طرح شاد و آباد تھا۔ گزشتہ تین دن سے کئی بار دل میں آیا کہ دوسرے کمرے میں جا کر پوچھوں کہ آپ لوگ کس بات پر ہنس رہے ہو مگر پھر رک جاتا ہوں کہ اب کسی نے یہ تو پوچھنا نہیں کہ آخر آپ کیوں نہیں ہنستے؟ لہٰذا میں سوال نہیں کرتا کمرے میں ان کے ساتھ ہنسنے کی کوشش کرتا ہوں کہ جانے والی کی محنت اکارت نہ چلی جائے ۔ مجھے آج 1461دن کے بعد احساس ہوا ہے کہ بلا وجہ ہنسنے کی حماقت بہرحال بلاوجہ نہ ہنسنے کے پچھتاوے سے ہزارگنا بہتر ہے ؎ 
آج ہم سارے مل کر خوب ہنسے
اور پھر دیر تک اداس رہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved