یہ پہلے میرے ساتھ گئے تھے، آج میرا پاسپورٹ ہندوستانی سفارت خانے لے گئے۔بشریٰ کو ضرور پیار کریں وہ بہت سیدھا بھولا بچہ ہے ۔ اگر پیار سے کوئی بات سمجھائی جائے تو سمجھ لیتا ہے۔ حسنی مجھے بہت چاہتا ہے، فضلی کو میں چاہتا ہوں، مجھے بغیر بچوں کے سفر کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ وہ لوگ سوچتے ہوں گے ہمارا باپ گھومتا پھرتا ہے، نجانے کیونکر یہ سفر اختیار کیا۔ انتخابات میں حصہ لینا، رائفل خریدنا، دلی جانا، یہ سب انہونی باتیں ہیں۔ آپ کی ہمت سے یہ کام ہو چکے ہیں لیکن میں تو گھل چکا ہوں اور میں اندر ہی اندرختم ہو رہا ہوں۔ ابوالکلام کو قابو میں رکھئے، سمجھائیے کہ ہم بے حد غریب لوگ ہیں، ذمہ داریوں اور قرض خواہوں کے پہاڑ اور فوج ہمارے سامنے ہیں۔ خدارا! ایک دو تین سال صبر کرکے کام کریں۔ معاشرے میں اپنی روٹی اور کپڑا ہو تب جی سکتے ہیں۔ حافظ اور فقیر بخش کو نگرانی کرنے کی تاکید کریں۔ ایک ایک تنکے پر جان دینا ہوگی تب ہمارا گزارہ ہوگا، ورنہ مٹ جائیں گے۔
خیر طلب: انیس،4 اکتوبر1982ء کراچی
ہندوستان سے آنے والا وہ نوجوان کون تھا جس کا ذکر میں نے اپنے خط میںکیا۔رعنا سحری، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کے شاگردوں کا لاحقہ۔ ظاہر ہے سحری ہی ہونا چاہیے، افطاری نہیں۔
چھوٹے قد کے سانولے داڑھی مونچھ صاف ایم اے پاس نوجوان۔ دھیمے لہجوں میں رک رک کر سوچ سوچ کر گفتگو کرنے کا انداز، سلجھے ہوئے سنبھلے ہوئے، تقی صاحب کی فلسفیانہ موشگافیوں سے استفادے کے شائق، بیچارے بیمار پڑ گئے ہمارے ساتھ نہ جا سکے۔ دوسری تیسری پرواز سے دلی آئے۔ گھر آ کے دیکھا تو رئیس صاحب کی عطا کردہ کتابوں میں سے رعنا سحری کا مجموعہ کلام ''خاموشی آواز کرے گی‘‘، بھی نکل آیا۔ اپنے حالات میں رعنا سحری نے اپنی غربت کا رونا رویا ہے۔ مجھے تو وہ اخلاص محبت اور بے ریائی کی دولت سے مالا مال نظر آئے۔ ذکر علی الصبح کراچی اترنے کا چل رہا تھا، ٹیکسی والے نے گارڈن ایسٹ کے پندرہ روپے طے کئے۔ تین لڑکے اور بٹھائے دس دس پندرہ پندرہ ان سے بھی طے کیے لیکن یہ سودا اس وقت گھاٹے میں پڑ گیا جب بری طرح کسا ہوا کھڑکی کا ایک شیشہ ذرا سا ہاتھ لگانے سے ٹوٹ کر چورا ہوگیا۔ ٹیکسی والا مسافروں پر چڑھ دوڑا، میں نے سامنے کے شیشے پر زور سے مکا مار کر اسے بتایا یہ کیوں نہیں ٹوٹا۔ اصل یہ ہے کہ تم نے شیشہ زبردستی چڑھا رکھا تھا۔ چھت پر پڑا ہوا سامان
جب گھسیٹ کر تم نے اتارا تو زور شیشے پر پڑا اور وہ چکنا چور ہوگیا۔ وہ چہرہ بتا ہی رہا تھا، مان چکا، زبان سے اقرار نہ کرتا تھا۔ اس نے، میں سمجھتا ہوں مجھے سب سے پہلے اس لیے اتاردیا تاکہ شیشے کے پیسے لڑکوں سے کھرے کرسکے۔ رئیس صاحب بمشکل بیدار ہی ہوئے تھے، میں نہایا دھویا ویزہ فارم پر دستخط کیے۔ تئیس سو روپے ٹکٹ کے میں جرار صاحب کوکراچی کے دوسرے پھیرے میں دے چکا تھا۔ زاہدہ حنا اور شکیل عادل زادہ سے ملا۔ جون سے بھی گفتگوئیں رہیں۔ تینوں متفق الرائے تھے۔ رئیس صاحب کے ساتھ تمہیں نہیں جانا چاہیے۔ وہاں جا کر یہ حضرات ڈٹ کر شراب پئیں گے اور بالکل پھیل جائیں گے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا بہرحال دورہ بڑی اہمیت کا حامل ہوگا۔ دل میرا بھی کسی طرح ٹھکتا نہ تھا۔ شش و پنج میں پڑا ہوا۔ اب انکار کیونکر ہو۔ دعا سے ممکن ہے کام چلے، کوئی الجھن کوئی اڑ چن پڑے تو بات بنے، پتہ کٹے۔ یہ سب کچھ ایک خط میں لکھا بھی تو تھا۔ یہاں نقل ہو جائے تو اچھا ہے، یہ تو پورے دودن کے قصے ہیں۔
4 اکتوبر1982ء تقی صاحب کہہ رہے تھے میں تو سیکولرسٹ ہوں۔ رئیس صاحب کے ہاں سے اٹھ کر مستری انور کے کارخانے آٹوز سولجرز بازار جا نکلا۔ پہلوان نے اپنے دلی کے عزیزوں کے نام اور پتے لکھوائے خط میں دیئے تاکہ کمی پڑے تو روپیہ پیسہ مل جائے۔ انور آٹوز سے صدرآیا، خط حوالہ ڈاک کیا۔ تین بجے شکیل کے دفتر پہنچا۔ شکیل نے اور بول دیا۔ وہ کہتے تھے رئیس وہاں پھیل جائیں گے۔ شراب میں ڈوب کر بے تکی باتیں کریں گے۔ کھانے کے لیے رئیس کو یہاں کیا کمی ہے۔ مہندر سنگھ کو وہاں کوئی نہیں سنتا لہٰذا یہاں سے لوگوں کو بلا کر اپنے آپ کو سنواتے ہیں۔ پروفیسر جمیل اختر خاں کو آم نہ بھیجے۔ شکیل شاکی کہ دو پیٹیاں کیوں۔ شکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ آپ کی شخصیت دب جائے گی لیکن بہرحال جائو یہاں انگوٹھی کیمرے بھی ہندوستان لے جانے پر پہرے ہیں، سخت پریشان ہوں، طرح
طرح کی باتیں اور مشورے ہیں۔ شکیل نے مجھے بیچ میں چھوڑا۔ میں ٹیکسی لے کر محمود آباد گیا۔ سومرو کے پاس دومنٹ طبیعت گھبرا رہی تھی، عینک شکیل کے دفتر بھول آیا۔ بغیرعینک کے اندھا بنا بیٹھا ہوں۔ موٹر ہوتی توجا کر لے آتا۔ ابھی ابھی آپ سے گفتگو ہوئی، کچھ سمجھ میں نہیں آیا کیا کہنا چاہتا تھا کیا کہہ دیا۔7 اکتوبر 1982ء کو رات دس بجے کھانا کھا کر کچھ پڑھا۔ داڑھی بڑھ چکی تھی، وہ صاف کی گئی، بارہ بجے سو گیا، صبح پانچ بجے آنکھ کھل گئی۔ والدہ زاہدہ، زاہدہ کے بیٹے کا دودھ بنا رہی تھیں۔ دروازے کی چابی لی، کھولا اور ٹہلنے نکل گیا۔ رات کا کھانا ہضم کہاں ہوا تھا۔ رات کھانے پر جون کے پانچ دوست اچانک جون ہی کی معیت میں آ دھمکے، پانچوں کے پانچوں پئے ہوئے۔ ٹہل کے آیا تب بھی سب سو رہے تھے۔ میں بھی دوبارہ سوگیا، پونے سات بجے آنکھ کھلی ، نہایا، کپڑے نہیں بدلے، ناشتہ کیا، ٹیکسی لی، سیدھا شکیل کے دفتر وہاں سے عینک لی، اس نے کچھ دوستوں کے نام خط دینے کا وعدہ کیا۔ رئیس صاحب کے ہاں چلا آیا۔
آج کا مطلع
کوئی عیش‘ کوئی نشاط اب میرے نام کا نہیں رہ گیا
اُسے مجھ سے کام ہے اور میں کسی کام کا نہیں رہ گیا