باکو شہر کے بیچوں بیچ آذربائیجان کے وزیر اعظم اور کابینہ کے دفاتر ایک پانچ منزلہ عمارت میں قائم ہیں۔ اس عمارت کی آخری منزل پر ایک بڑا ہال ہے جہاں چودہ اکتوبر کو یعنی ایک ہفتہ پہلے، وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور ان کے آذربائیجانی ہم منصب آرتر رسیزادے کی ملاقات ہوئی۔ میزبان وزیر اعظم نے مترجم کی مدد سے تقریر کرکے پاکستانی وزیر اعظم سے کچھ کہنے کی درخواست کی تو انہوں نے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے آذری وزیر اعظم کو پیشکش کی کہ پاکستان انہیں فوجی تربیت اور ساز و سامان فراہم کر سکتا ہے۔ اس پر آذری وزیر اعظم نے مسکرا کر کہا، ''جناب عالی، آپ کی پیشکش کے مقابلے میں میری خریداری کی فہرست بہت طویل ہے‘‘۔ اس پر نواز شریف برجستہ بولے، ''آپ کی ہر خواہش ہم پوری کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔ یہ سن کر آذری حکام کی خوشی ان کے چہروں سے ہویدا تھی۔ ماحول پر چھایا ہوا تکلف ختم ہوا تو پاکستانی وزیر اعظم نے مسکراتے ہوئے کہا، ''جناب آج آپ کی باکو سٹیٹ یونیورسٹی نے مجھے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی ہے جس کے لیے میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لیکن ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ آپ کی یونیورسٹی کے سربراہ نے اپنی تقریر میں بتایا کہ میں چار مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم رہا ہوں لیکن آپ کو علم ہونا چاہیے کہ بطور وزیر اعظم میری چوتھی ٹرم دو ہزار اٹھارہ سے شروع ہو گی‘‘۔ یہ سن کر آذربائیجان کے وزیر اعظم نے نعرے کے انداز میں 'ان شاء اللہ‘ کہا اور پھر زوردار قہقہہ لگایا۔ قہقہوںکے شور میں یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکی کہ چوتھی ٹرم والے فقرے کے مخاطب آذری وزیر اعظم نہیں‘ بلکہ ہم پاکستانی صحافی تھے
جو گزشتہ اڑتالیس گھنٹے سے ان کے ساتھ تھے مگر اب تک پاکستانی سیاست پر بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ وزیر اعظم نے اس ایک فقرے میں ہماری تشفی بھی کر دی اور ظاہر کر دیا کہ پاکستانی سیاست میں ڈگڈگی بجے یا کچھ اور انہیں اس کی پروا نہیں۔
وزیر اعظم کا بظاہر مذاق میں کہا ہوا فقرہ سن کر یاد آیا کہ جن دنوں پچھلا دھرنا عروج پر تھا اور عمران خان الیکشن دھاندلی کے نام پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہمراہ جمہوریت پر پہلا حملہ فرما رہے تھے تو وزیر اعظم لاہور میں مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے ہاں تعزیت کے لیے آئے۔ مرحوم کے ایصال ثواب کی دعا کے بعد سیاسی باتیں چل پڑیں تو وزیر اعظم نے واضح لفظوں میں کہا کہ ''میرا استعفیٰ ممکنات میں سے نہیں، جس کے جو دل میں آئے کرے‘‘۔ پھر یہی با ت دوسرے الفاظ میں انہوں نے وہاں موجود ٹی وی کیمرے کے سامنے دہرا دی۔ میں‘ جو وہاں موجود تھا‘ کچھ حیران بھی ہوا کہ ملک کی پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ کے دفاتر کے سامنے بالفعل گندے کپڑے دھو کر سکھائے جا رہے ہیں، ڈنڈا بردار سرکاری اہلکاروں کی تلاشی لے کر انہیں دفتروں میں داخلے کی اجازت دیتے ہیں اور شاہراہ دستور پر ایک ایسی خیمہ بستی آباد ہے جہاں کی غلاظت پاکستان کے جمہوری چہرے پر ملی جا رہی ہے اور وزیر اعظم پورے قد سے کھڑے ہونے کا دعویٰ فرما رہے ہیں۔ بعد میں جیسے جیسے واقعات کے پرت کھلتے گئے تو معلوم ہوا کہ ان کا پورے قد سے کھڑے رہنے کا فیصلہ ہی سیاسی پرکار کا وہ مرکزی نقطہ تھا جس کے گرد ہمارے سیاستدانوں نے جمہوریت حفاظت کے لیے اتفاق و اتحاد کی ناقابلِ شکست فصیل بنائی تھی‘ جس سے سونامی اور طوفان بن کر ٹکرانے والے اپنا سا منہ لے کر گھروں کو چلے گئے۔ الیکشن دھاندلی کا معاملہ عدالت کے سپرد ہوا اور جو فیصلہ آیا، اب پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔
وزیر اعظم کو آج پھر ایک دھرنے کا سامنا ہے۔ پرانے دھرنے کی طرح نیا دھرنا بھی ایک مبہم قانونی سوال پر قائم کیا جا رہا ہے‘ لیکن اس بار عمران خان اور ان کے دوستوں نے بڑی خوبصورتی سے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ جمہوریت کے مخالف نہیں بلکہ ان کا نشانہ نواز شریف ہیں جن کے دامن پر پاناما لیکس کے چھینٹے ہیں۔ خان صاحب اور ان کے دوستوں کا خیال ہے کہ پچھلی بار کی چاند ماری سے یہ جمہوری نظام اس لیے بچ نکلا تھا کہ الیکشن دھاندلی کی زد میں پارلیمنٹ میں بیٹھی ہر جماعت آتی تھی اس لیے ان جماعتوں نے اتحاد کرکے اس نظام کو بچا لیا۔ اب کی بار نواز شریف کی ذات کو ہدف بنا کر اپنی دانست میں انہوں نے جمہوریت کی حامی سیاسی جماعتوں کی ہوا نکال دی ہے۔ اس طرح پیپلزپارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے لیے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ وہ نظام کے نام پر نواز شریف کو بچانے کے لیے میدان میں آ جائیں۔ لہٰذا جیسے ہی انصافی دستے اسلام آباد پہنچ کر دباؤ بڑھائیں گے، یہ تمام پارٹیاں بالکل اسی طرح وزیر اعظم کے دروازے پر جا کر نظام کو بچانے کی دہائی دیں گی جیسے دو ہزار چودہ میں عمران خان اور ان کے دوستوں کے دروازو ں پر جا کر دیا کرتی تھیں۔ ایک بار نواز شریف راستے سے ہٹ گئے تو تحریک انصاف اور اس کے دوستوں کے لیے چالیس بچاس استعفے دے کر اسمبلی تڑوانا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا اور اس طرح حالات نئے الیکشن کی طرف چلے جائیں گے۔
عمران خان اور ان کے دوستوں نے سیاسی جماعتوں کے لیے جو دام ہمرنگِ زمیں بچھایا تھا، پیپلز پارٹی کے کچھ لوگ، بشمول ایک نامور وکیل کے، اس میں قدم رکھنے کے لیے تیار تھے مگر آصف علی زرداری سات سمندر پار بیٹھ کر سارا کھیل سمجھ گئے اور انہوں نے ایک بار پھر اس کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ انہی کی ہدایت پر بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی اور پھر میڈیا سے بات کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ ''نواز شریف منتخب وزیر اعظم ہیں اور میں انہیں غدار کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔ اس کے بعد کراچی میں بلاول بھٹوزرداری نے عوامی طاقت کے شاندار مظاہر ے اور حکومتِ سندھ کی طرف سے اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو ہونے والے سانحۂ کارساز میں جاں بحق ہونے والوں کو شہدائے جمہوریت قرار دینے کے اشتہارات اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے بیانات نے عمران خان اور ان کے دوستوں کو پیغام دے دیا کہ پیپلز پارٹی دو ہزار چودہ کی طرح جمہوری نظام کی حفاظت کے لیے ڈٹی رہے گی چاہے اسے نواز شریف کو بچانے کا الزام ہی اپنے سر پر کیوں نہ لینا پڑے کیونکہ میثاقِ جمہوریت کا تقاضا یہی ہے۔ جب پیپلز پارٹی پر میمو گیٹ سکینڈل کی صورت میں اسی طرح کی افتاد آن پڑی تھی تو اس وقت نواز شریف نے یہ تقاضا پورا کیا تھا۔ انہوں نے کالا کوٹ پہنا اور اس معاملے کی تحقیقات کی درخواست لے کر عدالت پہنچ گئے۔ ان کی درخواست نے غیر جمہوری قوتوں سے آخری فیصلہ دینے کی طاقت چھین کر عدالت کو دے دی اور رکا ہوا جمہوری نظام ایک بار پھر چل پڑا۔ احسان کی جزا سوائے احسان کے اور کیا ہے!
نواز شریف کی خود اعتمادی اور آصف علی زرداری کا ڈٹ جانا اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور ان کے دوست اس بار پوری تیاری کے ساتھ اس نظام پر یلغار کریں گے۔ ان کے پاس پچھلے دھرنے کا تجربہ بھی ہے اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل بھی۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس بار نواز شریف بچ نکلے تو اگلے سال دسمبر میں سات ہزار میگاواٹ اور الیکشن سے پہلے دس ہزار میگاواٹ بجلی پاکستا نیوں کو میسر ہو گی یہ مسئلہ حل ہو گیا تو پھر الیکشن میں ان کا مقابلہ ناممکن ہو جائے گا۔ اس لیے نواز شریف کے مقابلے میں خان صاحب کے سامنے صرف یہی راستہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اسلام آباد پر ہلہ بول دیں یا عدالت کے ذریعے وزیر اعظم کو نکالنے کا وہ دروازہ کھولنے کی کوشش کریں جو چیف جسٹس (ر) افتخار چودھری نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نکالنے کے لیے دستور کی ایک دیوار کاٹ کر بنایا تھا۔