تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     22-10-2016

نور والوں کا ڈیرہ

'' قرآن حکیم پوری انسانیت کے لئے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے‘ چونکہ قرآن کی زبان عربی ہے‘ اس لئے عربی نہ سمجھنے والوں کو لسانی رکاوٹ پیش آتی ہے۔ معاصر انگریزی میں یہ ترجمہ ایک علمی کاوش ہے‘ کسی خاص مکتب خیال کی رائے کی عکاسی نہیں‘ جو قرآن پاک سمجھنے میں (اپنے پیروکاروں کے لئے) سہولت پیدا کرنا چاہتا ہو‘‘۔ یہ الفاظ تھے محمد فاروق اعظم ملک کے جو لالہ موسیٰ کے گاؤں ماچھی والا میں پیدا ہوئے تھے اور اب ہیوسٹن‘ ٹیکسس‘ میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک نالج کے سربراہ ہیں۔
امریکہ میں بھاری اکثریت چونکہ عربی زبان سے ناواقف ہے‘ اس لیے مساجد اور دوسرے اسلامی اداروں میں اسلامیہ کالج لاہور کے عبداللہ یوسف علی کا انگریزی ترجمہ رکھا ہے‘ کہیں کہیں ڈاکٹر ملک کا ترجمہ بھی دستیاب ہے۔ قرآن پاک دنیا میں سب سے زیادہ ترجمہ ہونے والی کتاب ہے۔ اس کے تراجم بنگالی‘ تامل‘ تلگو‘ پنجابی‘ ہندی میں ہو چکے ہیں۔ جنوبی ایشیا کی بعض غیر مسلم اقوام نے بھی اس کے ترجمے کئے ہیں۔ مسلم اکثریت کے پچپن ملکوں میں تو ہر عشرے میں کم از کم ایک ترجمہ ضرور شائع ہوتا ہے۔ پاکستان سے تفسیر فاضلی کا نیا ایڈیشن ہمارے سامنے ہے۔ پانچ جلدوں پر مشتمل یہ تفسیرِ قرآن انگریزی زبان میں ہے‘ جو نہ صرف شمالی امریکہ بلکہ آسٹریلیا اور فلپائن وغیرہ کی سرکاری زبان بھی ہے۔ یہ اس لحاظ سے نادر ہے کہ یہ حضرت فضل شاہ کے اکتسابی کی بجائے وہبی علم کا شاہکار ہے۔ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے مگر عشا کی نماز سے پہلے ایک محفل میں دینی امور پر اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ کرتے تھے اور محمد اشرف فاضلی ساتھ ساتھ لکھتے جاتے تھے۔ میں نے ان دونوں کو ہمیشہ اس کام میں مصروف پایا‘ مگر مجھے سبز صافہ سر پر لپیٹے اور پنجابی طرز کی دھوتی باندھے بھاری بھرکم حضرت کا چولہے پر بیٹھنا‘ اور ڈیرے پر آنے والے ہر فرد کو بالاصرار کھانا کھلانا اب تک یاد ہے۔ انفنٹری روڈ دھرم پورہ میں یہ ڈیرہ اب ایک ہسپتال بن چکا ہے اور 1978ء میں سو سال کی عمر میں ان کی وفات کے بعد مریضوں کے لے شفا کا امکان بنا ہوا ہے۔ حضرت صاحب جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ یونانی طب کی بھی شدبد رکھتے تھے۔
اْس زمانے میں ڈیرے پر حاضری دینے والوں میں محمد حنیف رامے بھی شامل تھے۔ ان کے ہاتھ کی ایک تحریر اس کتاب میں شامل ہے‘ جس میں شاہ صاحب ہسپتال سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں‘ اور اشرف فاضلی کو اپنے ملفوضات کی اشاعت کا حق تفویض کرتے ہیں۔ ''نور والوں کا ڈیرہ‘ جہاں عمل قول کا شاہد ہے‘‘ یہ مضمون شائع ہونے کے بعد اشفاق احمد‘ بانو قدسیہ‘ پروفیسر غلام علی وغیرہ اس جگہ آنے لگے اور امریکہ میں سنا کہ قدرت اللہ شہاب اپنی اہلیہ کے مرض کو لاعلاج پا کر انہیں ڈیرے پر چھوڑ گئے تھے۔ مکتبہ جدید پریس کے چودھری بشیر احمد نے تفسیر کا اصل ایڈیشن بڑے مودبانہ خلوص کے ساتھ اْردو میں شائع کیا تھا۔ نیا ایڈیشن فاضلی فاؤنڈیشن نے چھاپا ہے‘ اور اقوال کا سارا متن انگریزی زبان میں ہے۔ اشفاق احمد فلاڈیلفیا کے مضافات میں باوا محی الدین کے عرس میں شرکت کے بعد واشنگٹن آئے تو میں نے سپاسنامہ پڑھا۔ وہ کہنے لگے ''حاضرین‘ یہی ہے وہ شخص جو ہمیں بابوں کے پیچھے لگا کر خود امریکہ چلا آیا‘‘۔
پہلے دن میں نیوز ایڈیٹر اسلم کاشمیری کے ہمراہ ''نور والوں‘‘ کے ڈیرے پر حا ضر ہوا تھا۔ وہ ہر کس و ناکس کی آمد پر ''نور والے‘‘ کا دلدوز نعرہ لگاتے تھے‘ جو ان کے چوڑے چکلے سینے سے نکلتا تھا۔ ہم ایک گہرے کمرے میں گندم کی خشک بالیوں کے گدیلے پر دوزانوں بیٹھے تھے‘ اور حضرت صاحب شرکائے محفل سے فرداً فرداً خیریت دریافت کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دبلا پتلا لمبے قد کا باریش آدمی اندر داخل ہوا۔ وہ مغرب کی نماز کے وقت کا اعلان کر رہا تھا‘ جس کے لئے نمازی صف بستہ ہو رہے تھے۔ مجھے نماز کی عادت نہیں تھی۔ کچھ اور لوگ بھی بے چینی سے پہلو بدل رہے تھے۔ حضرت فضل شاہ یہ کہتے ہوئے کہ 'کچھ لوگ ''خلوت‘‘ کی نماز پڑھتے ہیں جو یہیں بیٹھیں گے‘ اور باقی لوگ ''جلوت‘‘ کی نماز پڑھنے ہمارے ساتھ جائیں گے‘ اپنی جگہ سے اٹھے اور نماز کے لئے سامنے والی مسجد میں داخل ہو گئے‘ جو گھاس پھوس سے خود انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی۔ میں نے سوچا حضرت صاحب ستارالعیوب بھی ہیں‘ جو سکہ بند صوفیوں کا طریقہ ہے۔
ایک بار میں نے بابا فضل شاہ کو اپنے پیر و مرشد میاں خدا بخشؒ کے عرس کے لئے تیار پایا۔ وہ بے حد خوش تھے۔ انہوں نے بہترین تہ بند اور کرتا زیب تن کیا تھا‘ اور سر پر ہرے رنگ کا نیا عمامہ تھا۔ انہوں نے موت کو عرس سے تشبیہ دی اور کہا کہ زندگی کا آخری لمحہ خوش ہونے کا مقام ہے۔ ان کے پیر کا مزار قبرستان بخاری صاحب ساہیوال میں واقع ہے۔ وہ اپنے ڈیرے سے کچھ فاصلے پر ایک بس پکڑنے کی امید کر رہے تھے‘ اور چند مریدین ان کے ساتھ جا رہے تھے۔ آپ کے وصال کے بعد خدا اور بندے کا یہ تعلق مکمل ہو گیا‘ جسے عرس کہا جاتا ہے۔ محمد اشرف فاضلی نے اس کتاب میں ان کے اقوال نقل کئے جن سے ایک انتخاب یہاں درج کیا جاتا ہے: ''اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضا کے مقابل لوگوں کی پسند کو وقعت دینا اور اللہ کے ڈر کے مقابل لوگوں کا زیادہ ڈر رکھنا‘ ہمیشہ پریشانی کا باعث بنتا ہے... مخلصین کا وجود واحد ہے اور ان کا مقصود ہے لوگوں کو ظلمات سے نور کی طرف لانا... تضاد میں مبتلا رہنے والے کے لئے لطافت کا دیکھنا ممکن نہیں رہتا... جہاں خواہشات کا اتباع ہو‘ شجاعت وہاں سے رخصت ہو جاتی ہے... جو شاہد کی صداقت کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی اس کی تکذیب سے باز نہ آئے اس سے توفیق چھن جاتی ہے... تکبر ہی سب سے بڑا جرم ہے‘ اس کی حقیقت شرک ہے اور یہ تمام معصیتوں کی جڑ ہے... علم ہمیشہ عمل کے بعد عطا ہوتا ہے... مخلص کو شیطان بہکا نہیں سکتا کہ وہ مدح سے بے ربط نہیں ہوتا اور مذمت سے پریشان نہیں ہوتا... جس کا قرب مقصود ہو اس کی پسند کو پسند کرنا لازم ہوتا ہے... ہر قطرہ جو سمندر میں مل جائے گا سمندر ہی کہلائے گا... دل کو شاہد کے حضور حاضر رکھا جائے تو اس میں غیر کا داخلہ ناممکن ہو جاتا ہے... انعامات تقسیم کے لئے عطا ہوتے ہیں‘ تقسیم نہ کئے جائیں تو عطا کا دروازہ بند ہو جاتا ہے... اپنی ذات کے لئے صبر اور مخلوق کی بھلائی کے لئے سعی کرتے رہنے کا حکم ہے... جہاں تکریم و توقیر وسعتِ مال کی نسبت سے ہو وہاں جو ہو گا خلاف حق ہو گا... اپنے لئے امتیازات تلاش کرتے رہنا آداب معاشرت کی تکفیر ہے‘‘۔
آپ نے دیکھا کہ ایک اْمی کیسے الفاظ اور تراکیب استعمال کرتا ہے۔ ان کے ایک معنی تو وہ ہیں جو ہم اور آپ سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ جو صوفیوں اور ''مخلصین‘‘ کی سمجھ میں آتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved