یورپ سے امریکا و کینیڈا تک ماہرین میں ایک دوڑ سی لگی ہے کہ کام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تحقیق کی جائے تاکہ عجیب و غریب نکات کی مدد سے لطائف تیار کرکے اہلِ عالم کا دل بہلایا جائے۔ برطانیہ میں ماہرین نے 2 ہزار سے زائد افراد کے معاشی معمولات یعنی ملازمت میں گزارے جانے والے لمحات کا بھرپور جائزہ لے کر 60 فیصد سے زائد ملازمت پیشہ افراد ہر سال کم و بیش 38 دن کی تنخواہ سے محروم رہتے ہیں۔ آپ بھی حیران تو ہوئے ہوں گے کہ ایسا کس طور ممکن ہے۔ مغربی معاشرہ دنیا بھر میں بھلے ہی شدید انصافی کا مرتکب ہوتا ہو مگر اپنے ہاں تو وہ مکمل اور بے داغ انصاف یقینی بناتا ہے۔
تفصیل یہ ہے کہ مغربی معاشروں میں عام ملازم یا ورکر کام پر پندرہ منٹ پہلے پہنچتا ہے اور اوقاتِ کار ختم ہونے کے بیس پچیس منٹ بعد گھر روانہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سال بھر میں تقریباً 325 گھنٹے (تقریباً 38 دن) زیادہ کام کرتا ہے۔ یہ اضافی کام کسی شمار میں نہیں۔
کام کرنے کے طریق کار سے متعلق جائزہ یہ بھی بتاتا ہے کہ آجر عام طور پر 60 فیصد ملازمین سے تھوڑے سے زیادہ کام کی توقع رکھتے ہیں۔
جب پوچھا گیا کہ اوقاتِ کار ختم ہوجانے پر بھی دفتر، فیکٹری یا دکان میں زیادہ دیر کیوں رکتے ہیں تو 41 فیصد ملازمت پیشہ افراد نے جواب دیا کہ انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ بہتر انداز سے کام کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔
اور جلدی کیوں آتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ تھا کہ وقت پر یا تھوڑی دیر سے آنے کی صورت میں انہیں ضمیر پر بوجھ سا محسوس ہوتا ہے!
واہ رے مغرب ... اور واہ رے تیرے رنگ ڈھنگ۔ تیرے ''ورکنگ چونچلوں‘‘ کی خیر! یہی تو وہ باتیں جن کے دم سے مغرب کی جے جے کار بھی ہو رہی ہے اور اُس پر تنقید کے ڈونگرے بھی برسائے جارہے ہیں۔ ہم بارہا یہ سوچتے سوچتے ذہنی تھکن محسوس کرتے رہے ہیں کہ مغرب کا یہ ''دوغلا پن‘‘ کب ختم ہوگا۔ آپ شاید یہ سوچیں کہ ہم مغرب کو دوغلے پن کا الزام دے کر کوئی فاش غلطی کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ہمیں سمجھنے میں عجلت سے کام مت لیجیے۔ ہم تو آپ ہی کے بھلے کی بات کہنے کے لیے کالم نگاری کی دکان سجائے بیٹھے ہیں۔
جنابِ من! اچھی خاصی پُرسکون زندگی کو پریکٹیکل لائف کے مسلّمہ چونچلوں سے آلودہ کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ جہاں تک کام کاج کا تعلق ہے، ہم نے اپنے ''اصولوں‘‘ کی مدد سے ایک انوکھی دنیا تخلیق کی ہے۔ باقی دنیا کو ہماری دنیا راس آئے نہ آئے، ہمیں تو خوب راس آئی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں کام کرنے کا رواج ہے اور اِس حوالے سے انوکھے طور طریقے اپناکر معاملات کو الجھانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ ماہرین کی کوشش ہے کہ لوگ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں اور انہیں زیادہ سے زیادہ بروئے کار لائیں تاکہ کارکردگی کا گراف بلند ہو اور آجر اپنی دی ہوئی اجرت کا اچھا بدل پائیں۔ ماہرین کی آراء کے سامنے زانوئے احترام تہہ کرتے ہوئے لوگ بھی رات دن کام کیے جارہے ہیں۔ یہ مغرب کا عمومی ٹرینڈ ہے۔
صد شکر کہ ہمارے ہاں معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے زیادہ محنت کرنے اور خود کو کام میں کھپانے کا ٹرینڈ اب تک زیادہ پروان نہیں چڑھا۔ یہی تو وہ استھان ہے جس پر کئی معاشروں کا سُکون ذبح ہوا ہے، بلکہ جھٹکے کی منزل سے گزرا ہے!
جب ہم نے مرزا تنقید بیگ کے سامنے یہ بات بیان کی تو اُنہوں نے، حسبِ توقع اور حسبِ توفیق، چند انتہائی بے لباس قسم کے الفاظ کا سہارا لے کر ہماری ''عزت افزائی‘‘ فرماتے ہوئے کہا: ''یہی مغرب کی ترقی کا راز ہے کہ لوگ وہاں اپنا کام پوری ایمان داری سے کرتے ہیں اور جتنا معاوضہ ملتا ہے اُس سے تھوڑا زیادہ ہی کام کرتے ہیں۔‘‘
مرزا جب یہ بات کہہ رہے تھے تب ہم ان کا منہ تک رہے تھے۔ اور کیا کرتے؟ ایک زمانہ تھا جب لوگ اپنے قول و فعل کا تضاد سامنے آنے پر تھوڑے سے شرمندہ ہو جایا کرتے تھے۔ اب خیر سے اس پُرتکلّف روایت کو خیرباد کہہ دیا گیا ہے! مرزا تو کام کی مغرب میں زیادہ اور ایمان داری سے کام کرنے والوں کو یوں خراج تحسین پیش کر رہے تھے جیسے وہ خود بھی زندگی بھر یہی کرتے آئے ہوں۔ ہم نے اُنہیں معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے اُن کی ذاتی ''روایات‘‘ یاد دلانے کی خاطر منہ کھولا ہی تھا کہ مرزا نے سلسلۂ کلام آگے بڑھایا: ''تم بھلا کب جانتے ہو کہ اوقاتِ کار کی پابندی کرنا اور اپنا کام پوری ایمان داری سے کرنا کیا ہوتا ہے۔ کبھی ایسا کیا ہو تو کچھ اندازہ بھی ہو۔ میاں! مغرب نے ایسے ہی ترقی نہیں کرلی۔ صدیاں گزری ہیں محنت کے دشت کی سیّاحی میں۔ ارے دور کیوں جاؤ، کالم نگاری ہی کی بات کرو۔ مغرب کے لوگ جو کچھ لکھتے ہیں اُسے پڑھ کر دنیا بھر میں شور مچ جاتا ہے۔ اور ایک تم جیسے لوگ ہیں کہ لکھ لکھ کر اُلٹے بھی لٹک جائیں تو کوئی متوجہ ہونے پر آمادہ نہیں ہوتا!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں بھی کام کرنے سے کوئی نہیں بھاگتا مگر مسئلہ یہ ہے کہ آٹھ گھنٹے کی نوکری میں 14 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ دو گھنٹے کام پر جانے میں لگتے ہیں اور دو گھنٹے واپس آنے میں۔ اور گھر سے دفتر یا فیکٹری تک کے سفر کا سوچ کر ہی انسان روانگی سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے سے تھکن محسوس کرنے لگتا ہے! یہی کیفیت دفتر یا فیکٹری سے گھر واپسی کے وقت ہوتی ہے۔ اور پھر گھر واپس آنے کے بعد بھی پچاس جھنجھٹ ہیں جو زندگی کا دامن پکڑ کر جُھولتے رہتے ہیں۔ گیس آرہی ہو تو بجلی دکھائی نہیں دیتی۔ بجلی نہ ہو تو پانی کا حصول بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ غرض یہ کہ سو جھمیلے ہیں جن سے نمٹتے ہوئے زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔ مغرب کے باشندوں کو تو تمام بنیادی سہولتیں گھر بیٹھے مل جاتی ہیں۔ ان کی زندگی میں ایسی کون سی دوسری مصروفیت ہے جسے ایک طرف ہٹاکر اُنہیں کام میں دل لگانے کے لیے زور لگانا پڑے؟
مرزا نے ہماری گزارشات کو ''ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘ کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے کہا: ''یہ سب تو کام نہ کرنے کے بہانے ہیں۔ جنہیں کچھ کر دکھانا ہو وہ ہر حال میں کچھ نہ کچھ کر دکھاتے ہیں۔ تم جیسے لوگ بہانے تراشنے کے فن میں ماہر ہیں۔ اور کچھ آتا ہو تو کریں نا!‘‘
اب ہم مرزا سے کیا بحث کرتے کہ مغرب میں جو کچھ ہوتا ہے اُسے یہاں کے ماحول پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ جن لوگوں کی زندگی کا معقول حصہ ملازمت تلاش کرنے اور پھر وقت کا ایک بڑا حصہ روزانہ کام پر آنے اور واپس آنے پر صرف ہو جاتا ہو وہ کب اس قابل رہتے ہیں کہ کوئی تیر مار سکیں! ایسے لوگوں کا تو زندہ رہ پانا ہی معجزے سے کم نہیں! یہ حِرماں نصیب غیر حل شدہ بنیادی مسائل کا جال توڑ پائیں گے تو فضائے معاش میں ڈھنگ سے اڑنے کے قابل ہو پائیں گے۔